اداریہ

گوشت خور بھی ملک کے شہری ہیں

کیاگوشت خور اور سبزی خور کے بیچ فرق کیا جا سکتا ہے؟ کیا سڑک کنارے اشیائے خورد و نوش فروخت کرنے سے کسی کے جذبات مجروح ہو سکتے ہیں؟ کیا ٹھیلے کاروباریوں کا مسلہ مطلق ایک نظم و قانون کا معاملہ ہے یا اس کو ایک فلاحی ریاست میں نچلے پائیدان پر بیٹھے فرد کی زندگی اور بود و باش کا انتظام کرنے میں انتظامیہ کی نا اہلی کے طور پر دیکھا جائے؟ یوں تو گھروں کی چہاردیواری میں کھانے پکانے یا لوگوں کے لباس زیب تن کرنے وغیرہ کو انفرادی و نجی رازداری اور شخصی آزادی کے تناظر میں ایک جمہوری و آئینی حق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن جب بلدیہ اور ریاستی حکومتیں موجودہ ضابطوں کو بے سوچے سمجھے نافذ کرنے پر تُل جاتی ہیں تو وہی نتیجہ نکلتا ہے جسے ’بندر بانٹ‘ کہا جاسکتا ہے او رجس میں مجبور، کمزور او ربھولا بھالا ہی خسارہ میں رہتا ہے جب کہ چالاک، طاقت ور اور رسوخ والا بآسانی اپنی گردن چھڑا لیتا ہے بلکہ اپنے مفادات کا تحفظ بھی کر گذرتا ہے۔ در اصل پچھلے کچھ دنوں سے مختلف شہروں میں کھلے میں اسٹال لگا کر اشیائے خورد و نوش فروخت کرنے والے ٹھیلے والوں کی شامت آگئی ہے کیونکہ بلدی انتظامیہ اور پولیس نے ان پر کاروائی شروع کر دی ہے۔
پہلے راج کوٹ اور پھر وڈودرا، بھاؤنگر اور اب احمدآباد شہر میں فوڈ اسٹال ہٹائے گئے۔ انڈا اور چکن سڑک کنارے فروخت کرنے والوں کی گاڑیاں انسدادِ قبضہ محکمے نے ضبط کر لی ہیں۔ حالانکہ ان اسٹریٹ وینڈروں کے لیے کوئی واضح پالیسی یوں بھی نہیں پائی جاتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وبائی حالات میں بلکہ عام دنوں میں بھی صفائی ستھرائی اور صحت افزا غذا کا خیال رکھنا شہریوں کے حق میں بہتر ہی ہے۔ خود اسلام نے بھی ان باتوں پر کافی زور دیا ہے۔ شریعت میں صفائی کو یک گونہ ’نصف ایمان‘ سے تعبیر کیا گیا۔ ’پاک اور حلال‘ غذا کھانے اور صحت کے لیے مضِر غذاؤں سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس حد تک تو ہمیں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کھلے میں کھانے یا پکانے کے نقصانات سے ہم سب کو بچنا چاہیے۔لیکن اگر کسی بھی ضابطے کو جانبداری اور تعصب کے ساتھ اور منفی ذہنیت کےساتھ استعمال کیا جاتا ہے تو اس اقدام پر سوال اٹھنا لازم ہے۔
اس پر گفتگو سے قبل چند مثالیں دیکھیں۔ 24،اکتوبر کو گجرات کے آنند قصبے میں پانچ مسلمانو ں اور دو ہندو پارٹنروں کے ساتھ مل کر ایک ہوٹل کا افتتاح کیا جانا تھا۔ لیکن ’لینڈ جہاد‘ کے مبینہ الزامات کے تحت سخت گیر ہندوتو گروپوں کے ساتھ مل کر مقامی ڈاکٹر شاہ نے اس ہوٹل کو ہندو اکثریتی علاقے میں کھولنے کے خلاف مہم چھیڑ دی۔ بھیڑ نے جمع ہو کر ’جئے سری رام‘ وغیرہ نعرے لگائے۔
اس سے قبل کے ایک واقعے میں گودھرا میں گوشت کے کاروباری قاسم عبد اللہ حیات کی پولیس تحویل میں موت واقع ہو گئی۔ ۳۲ سالہ قاسم کو بیف رکھنے کا الزام لگا کر پولیس نے حراست میں لیا تھا لیکن ان کی موت کو خود کشی بنا کر پیش کیا گیا۔ قاسم حیات نے 16 ستمبر 2021 کو جان دی۔ قاسم کی بہن بلقیس اور بہنوئی کو گرفتاری کے چھ گھنٹے بعد قاسم سے ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔ قاسم نے بہن کو بتایا کہ گرفتاری سے قبل اُسے ہندوتوا غنڈوں کی ’رکھشک کورٹ‘ کے روبرو پیش کیا گیا جہاں اُس کی بے تحاشہ پٹائی کی گئی۔ پولیس انچارج ایچ این پٹیل کے تعلق سے مشہور ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کا شکار ہے۔ اب تازہ ترین معاملوں میں ریاست کے ان چار شہروں میں ’نان ویج‘ پکوان فروخت کرنے والوں کے خلاف یک طرفہ کاروائی حکومت اور انتظامیہ کی نیت کی چغلی کھا رہی ہے۔
مغربی بھارت کی ریاست گجرات کو ہندوتو کی تجربہ گاہ کہا جاتا رہا ہے۔عام تاثر ہے کہ گجرات ایک ’سبزی خور‘ ریاست ہے۔ سنہ 2017 کے اپنے بجٹ خطاب میں تب کے وزیر اعلی وجے روپانی نے اعلان کیا تھا کہ گجرات کو ’ویجیٹیرین سٹیٹ‘ بنایا جایے گا۔ اسی اثنا گؤ کشی قانون کو سخت دفعات کے ساتھ لاگو گیا۔ اس سال انتحابات سے چند ماہ قبل گؤکشی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے تا عمر قید کی سزاکی تجویز رکھی گئی۔ لاک ڈاؤن نے یوں بھی تمام کاروبار کو تاثر کیا لیکن کھلے میں نان ویج اشیا بیچنے کے معاملے سے گرمائے حالات میں خود ریاستی پارٹی صدر سی آر پاٹل کو صفائی دینی پڑی کہ گجرات میں گوشت کھانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اپنے ورکروں کو سمجھایا گیا کہ جسے جو کھانا ہو اس کو وہ ’حق‘ حاصل ہے۔ اتنا ہی نہیں خود وزیر اعلی بھوپیندر پٹیل کو وضاحت کرنی پڑی کہ بی جے پی تو ایک بڑے خاندان کی مانند ہے اور اس کو متحد رکھنے کے لیے لاز م ہے کہ شخصی پسند ناپسند کے بارے میں پارٹی کارکنان تحمل و برداشت کا رویہ اختیار کریں۔ واضح ہو کہ سنہ 2003 میں بھی آئی آئی ایم کالج کے باہر گوشت سے بنی اشیا بیچنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ تب امیت شاہ ایلیس بریج حلقے کی نمائندگی کر کے مملکتی وزیر داخلہ بنے تھے۔ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچنے کی آڑ میں ہر وہ حرکت روا رکھی جاتی ہے جس کی زد پر مسلمان، دلت، آدی باسی آتے ہوں۔ لیکن کیا بات ہے کہ سب انتخابات کے سامنے ہی شور و غوغا کرتے ہیں؟ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ کسی نے ان خوردہ کاروباریوں کے خلاف کوئی شکایت کی ہو، یہاں کے کھانے کے بعد کوئی موت واقع ہوئی ہو یا کسی کو اسپتال میں داخل کرنا پڑا ہو ایسا بھی کچھ نہیں ہوا ۔ پھر کیا بات ہو گئی کہ اچانک کریک ڈاؤن مہم کو یوں روک دیا جا رہا ہے؟ او بی سی وزیر اعظم کی شبیہ اور اتر پردیش کی نصف سے زاید گوشت خور آبادی کو انتخابات کے سامنے متاثر نہیں کیا جاسکتا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ او بی سی ذات سے وابستہ مودی جی خود کبھی کھان پان کے ذوق و پسند سے متعلق مسلے میں ہاتھ نہیں ڈالتے۔ اسی لیے اب یہ رول بیک کیا جا رہا ہے۔ یوں بھی سوراشٹر اور جنوبی گجرات میں کولی اور کھروا سماج مچھلی کاروبار سے وابستہ ہے جو ملک کی مجموعی 17 فی صد سمندری مچھلی پیداوار کرتے ہیں۔حکومت کے رجسٹر ار جنرل آف انڈیا سروے کے سن 2016 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی 70 فی صد آبادی انڈا، مچھلی یا دیگر گوشت کو کھانے کے بطور استعمال کرتی ہے اور پندرہ سال عمر سے اوپر صرف 30 فی صد لوگ خالص سبزی خور درج ہویے ہیں۔ نوزایدہ ریاست تلنگانہ میں تو ننانوے(98.70%)فی صد، مغربی بنگال میں 98.55 فی صد اور دیگر تیلگو ریاست آندھرا پردیش میں 98.25 فی صد آبادی گوشت خور ہے۔ ان کے بعد تمل ناڈو،کیرلا، اوڈیشہ، جھارکھنڈ، بہار، چھتیس گڑھ اور آسام کا نمبر آتا ہے۔ جب کہ راجستھان، ہریانہ اور پنجاب میں سب سے کم نان ویج لوگ ہیں۔
ایک ماہرِ بشریات کے ایس سنگھ کی ریسرچ کے مطابق ریاست گجرات میں حقیقی معنیٰ میں ’خالص سبزی خور‘ آبادی کا تناسب محض 26 فی صد ہی ہے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ کافی برہمن، کئی جین اور دیگر ’سبزی خور‘ بتانے والے لوگ اپنے گھروں کو تو ’شودھ‘ رکھ لیں گے لیکن باہر جا کر تمام طرح کے کھان پان بلکہ شراب کباب کا لطف بھی لیتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ ان حالات میں مسٔلہ صرف غریب اور کم آمدنی والے طبقے کا رہ جاتاہے۔ اگر حکومتیں اپنی فلاحی ریاست والی ذمہ داری ادا کرتی ہیں تو وہ جذبات، نظم وقانون اور کسی اور آڑ میں غریبوں کو بھوکا نہیں رکھ سکتیں جن کو سڑک کنارے سستی اور مقوی غذا فراہم ہوتی ہے۔ قانون کے جبر سے کسی کا روزگار نہ چھینا جائے اور نہ کسی فرد یا گروہ پر قانون کا نفاذ اس کے ساتھ با وقار زندگی جینے کے حق کو زک پہنچانے کے لیے کیا جایے۔ اگر حکومتیں اپنے شہریوں کو باعزت روزگار فراہم کراسکیں گی تو وہ حق بجانب ہوں گی کہ ہر فرد سے قانون کی پاسداری کی توقع رکھیں۔ ورنہ ظلم و جبر کی ٹہنی کب سدا پھلتی پھولتی رہی ہے؟

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021