2002 کے گجرات فسادات میں مودی کے کردار پر دستاویزی فلم سخت تحقیق کے بعد بنائی گئی ہے: بی بی سی
نئی دہلی، جنوری 20: بی بی سی نے جمعرات کو کہا کہ 2002 کے گجرات فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے مبینہ کردار پر اس کی دستاویزی فلم ’’اعلیٰ ادارتی معیارات کے مطابق سخت تحقیق‘‘ کے بعد بنائی گئی ہے۔
بی بی سے کے ایک ترجمان نے ورائٹی میگزین کو بتایا کہ بی بی سی نے بھارتی حکومت سے دستاویزی فلم میں اٹھائے گئے معاملات کا جواب دینے کو کہا تھا، لیکن اس نے جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔
17 جنوری کو دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم ’’انڈیا: دی مودی کوئشچن‘‘ کی پہلی قسط جاری کی گئی ہے۔ اس دستاویزی فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی طرف سے فسادات کی انکوائری کے لیے بھیجی گئی ایک ٹیم نے کہا ہے کہ مودی، جو اس وقت ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے،’’اس ماحول کے لیے براہ راست ذمہ دار ہیں‘‘ جس کی وجہ سے تشدد ہوا۔
دستاویزی فلم میں ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا جو انکوائری ٹیم نے برطانیہ حکومت کو بھیجی تھی۔ دستاویزی فلم میں کہا گیا ہے کہ وہ رپورٹ کبھی شائع نہیں ہوئی۔ دستاویزی فلم کا دوسرا حصہ، جو 2019 میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد مودی حکومت کے ٹریک ریکارڈ کا جائزہ لیتا ہے، 24 جنوری کو ریلیز کیا جائے گا۔
اس دستاویزی فلم کے بارے میں بی بی سی کی وضاحت اسی دن سامنے آئی جب ہندوستان کی وزارت خارجہ نے اسے ایک پروپیگنڈا قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک منفی بیانیہ کو آگے بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
وزارت کے ترجمان ارندم بغچی نے جمعرات کو کہا ’’تعصب، معروضیت کی کمی اور مسلسل نوآبادیاتی ذہنیت واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ اگر کچھ بھی ہے تو، یہ فلم یا دستاویزی فلم اس ایجنسی اور افراد کی عکاسی ہے جو اس داستان کو دوبارہ پیش کر رہے ہیں۔‘‘
تاہم بی بی سی کے ترجمان نے ورائٹی میگزین کو بتایا کہ اس دستاویزی فلم میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان کے ردعمل سمیت متعدد آراء پیش کی گئی ہیں۔
ترجمان نے کہا ’’یہ دستاویزی سیریز ہندوستان کی ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کے درمیان تناؤ کا جائزہ لیتی ہے اور اس کشیدگی کے سلسلے میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاست کا جائزہ لیتی ہے…اس کے لیے کارکنان، گواہوں اور ماہرین کی ایک بڑی تعداد سے رابطہ کیا گیا تھا۔‘‘
گجرات میں فروری اور مارچ 2002 میں اس وقت بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا جب ایودھیا سے واپس آنے والی سابرمتی ایکسپریس ٹرین کے ایک ڈبے کو گودھرا میں مبینہ طور پر ہجوم کے ذریعہ جلا دیا گیا تھا۔ سرکاری ریکارڈ بتاتا ہے کہ فسادات میں 790 مسلمان اور 254 ہندو مارے گئے۔
دستاویزی فلم میں دعویٰ کیا گیا کہ برطانوی انکوائری ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ 2002 کے فسادات کے دوران تشدد کی حد ’’اطلاع سے کہیں زیادہ‘‘ تھی۔ اس نے ’’قابل اعتماد ذرائع‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مودی نے 27 فروری 2002 کو سینئر پولیس افسران سے ملاقات کی اور انھیں فسادات میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا۔
اس دستاویزی فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایک سابق برطانوی سینئر سفارت کار نے، جو انکوائری ٹیم کا حصہ تھا، الزام لگایا ہے کہ گجرات میں تشدد کی منصوبہ بندی وشو ہندو پریشد نے کی تھی، جو کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ ہے۔
تاہم مودی نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ انھوں نے اپنی انتظامیہ کے تحت فسادات کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے تھے۔
بھارت کی سپریم کورٹ کی طرف سے تشدد کی تحقیقات کے لیے مقرر کردہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی کلوزر رپورٹ میں فروری 2012 میں کہا گیا تھا کہ مودی اور دیگر 63 افراد کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ایک مجسٹریٹ نے 2013 میں ٹیم کی رپورٹ کو قبول کر لیا تھا۔
گذشتہ سال 24 جون کو سپریم کورٹ نے کانگریس لیڈر احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی اس درخواست کو خارج کر دیا تھا، جس میں ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو چیلنج کیا گیا تھا۔ احسان جعفری ان 69 افراد میں شامل تھے جو 28 فروری 2002 کو احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں ہجوم کی طرف سے پتھراؤ اور گھروں کو آگ لگانے کے دوران مارے گئے تھے۔