ڈاکٹر محمد منظور عالم: اَن کہی کہانی

(انصاف، شمولیت اور برابری کی جدوجہد)

محمد عارف اقبال

ڈاکٹر محمد منظور عالم: اَن کہی کہانی
(انصاف، شمولیت اور برابری کی جدوجہد)
بایوگرافر: اے یو آصف
صفحات:424 قیمت:750/- اشاعت:2024
ISBN 978-93-91659-19-6
ناشر: جینوین پبلیکیشنز اینڈ میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ، B-35، نظام الدین (ویسٹ)، نئی دہلی 110013-
Tel. 011-41827475, 9315177399
Email: [email protected]
تبصرہ:محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی۔ ۲
موبائل نمبر: 9953630788

انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (IOS) کے چیئرمین ڈاکٹر منظور عالم (پ9 اکتوبر 1945) جن کی عمر اس وقت تقریباً 77 برس ہے، اپنی پیرانہ سالی اور علالت کے باوجود اپنے نصب العین کے خاکوں میں رنگ بھرنے کی انتھک کوشش کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے مسلم کمیونٹی میں شاید پہلی بار تھِنک ٹینک (Think Tank)کے تصور کو عام کرنے کی کوشش کی۔ ان کی شخصیت ماہر اسلامی اقتصادیات اور دانشور کے طور پر اب عالم اسلام میں غیر متعارف نہیں ہے۔ ان کے معاصرین میں ملیشیا کے دسویں وزیر اعظم ڈاکٹر انور ابراہیم کے علاوہ سابق نائب صدر جمہوریہ ہند محمد حامد انصاری، اے ایم احمدی، (26 ویں چیف جسٹس آف انڈیا)، سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا جلال الدین عمری اور ماہر مسلم سیاسیات کشوری لعل شامل ہیں۔ آئی او ایس کے نصب العین اور اہداف میں علم و تحقیق، تعمیری ذہن سازی، رائے عامہ ہموار کرنا، مثبت رجحان کو فروغ دینا، معاشرہ میں انصاف، امپاورمنٹ، یکساں حقوق (بلا تفریق مذہب و ملت) اخوت کے ساتھ فرقہ واریت کے مقابلے میں ذہنی ہم آہنگی شامل ہیں۔ یہ ادارہ کس حد تک اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب رہا ہے اس کا فیصلہ معزز قارئین اس بائیوگرافی کے مطالعہ سے ہی کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد منظور عالم کی بائیوگرافی درحقیقت اس کے بائیوگرافر جناب اے یو آصف کی خصوصی دل چسپی اور دور رس وژن کا نتیجہ ہے۔ جناب اے یو آصف ایک سہ لسانی سینئر صحافی کے ساتھ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ لیکن صحافت میں تفتیشی و معروضی رجحان کو فروغ دینا اے یو آصف کا محبوب مشغلہ ہے۔ علمی، تحقیقی، سیاسی اور سماجی شخصیات سے ان کو خاص دل چسپی ہے۔ ان کا شمار جنوبی ایشیا کے ان نصف درجن صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے 9/11 سانحہ کے بعد امریکہ کا دورہ کر کے وہاں کی ممتاز شخصیات کا انٹرویو لیا اور اسٹوریز کوَر کیں۔ وہ تقریباً نصف صدی سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں اور اس کے ساتھ ہی تصنیف و تالیف کا کام بھی انجام دے رہے ہیں۔ وہ خود بھی رجحان ساز ہیں اور دیگر صحافیوں کو تعمیری رخ دینے میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔
زیر نظر کتاب ’ڈاکٹر منظور عالم اَن کہی کہانی‘ ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر منظور عالم کی اصل سوانح کا ’مقدمہ‘ ہے۔ لہٰذا توقع رکھنی چاہیے کہ فاضل بائیوگرافر کو اگر مہلت ملے تو وہ اس سوانح کا اول، دوم، سوم حصہ ضرور پیش کریں گے۔ کبھی کبھی ’مقدمہ ابن خلدون‘ کو اصل کتاب تصور کی جاتی ہے، حالانکہ ابن خلدون کی اصل کتاب تو کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ جناب اے یو آصف نے ’ڈاکٹر منظور عالم اَن کہی کہانی‘ عنوان کے نیچے ’انصاف، شمولیت اور برابری کی جدوجہد‘ لکھ کر غالباً خود ہی یہ اعلان کر دیا ہے کہ اصل کتاب تو اس کے بعد آئے گی جو شاید کئی حصوں میں ہو۔ اللہ کرے کہ وہ آگے کے کام کو جاری رکھ سکیں۔
پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں صفحہ 146 تک تو سوانح حیات کا انداز محسوس ہوتا ہے لیکن باب دوم کے صفحہ 147 سے تاثرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں معاصرین، بیرون ملک شخصیات، تھنک ٹینک کے تحت ماہرین، دانشوران اور علما، کُل ایک سو شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ باب سوم سنتوش بھارتیہ کی کتاب کے انکشافات پر مشتمل ہے۔ باب چہارم کا عنوان ہے ’انصاف، شمولیت اور برابری پر علمی و تحقیقی کارنامے‘۔ آخری باب پنجم کے تحت یادگار تصاویر شامل کی گئی ہیں جن میں بین الاقوامی شخصیات، قومی شخصیات، دینی و فقہی شخصیات، دانشوران، محققین و ماہرین تعلیم کے علاوہ ملّی شخصیات، آئی او ایس فیملی تب اور اب اور آخر میں چند دیگر تاریخی لمحات کی تصاویر ہیں۔ کاش ان یادگار تصاویر کو 18 صفحات میں سمیٹنے کے بجائے کم سے کم چالیس صفحات دیے جاتے تو تصاویر کا یہ البم کچھ زیادہ ہی یادگار گل دستہ بن سکتا تھا۔
باب چہارم میں آئی او ایس کے تحت 36 برسوں میں شائع شدہ کتاب کی فہرست مہیا کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئی او ایس کے تھنک ٹینک نے انگلش، اردو اور ہندی میں کن کن موضوعات پر کام کیا ہے۔ ان کتابوں کی کُل تعداد 83 ہے۔ بائیوگرافر نے لکھا ہے کہ ’’دراصل اس کا یہ وہی مواد ہے، ڈاٹا اور اعداد و شمار ہے جس سے کم از کم 30 فیصد استفادے کا اعتراف اپنی سچر رپورٹ میں آنجہانی جسٹس راجندر سچر نے کیا ہے۔‘‘ (صفحہ 401)
اس سوانحی کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمد منظور عالم صاحب پر جن ایک صد شخصیات (ملک و بیرون ملک) نے اپنے تاثرات بیان کیے ہیں، ان کے قد میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ تاہم بین السطور میں محتاط انداز میں کچھ تنقید بھی محسوس کی گئی ہے۔ مثلاً ڈاکٹر فیضان مصطفیٰ (موجودہ وائس چانسلر چانکیہ لا یونیورسٹی، پٹنہ) کا یہ خواب کہ آئی او ایس ایک این جی او سے اوپر اٹھے۔ وہ اس ادارے کو Deemed to be University کی شکل میں دیکھنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ (صفحہ 32) لیکن ادارہ کیا اس وقت اس کا متحمل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دور دور تک یہ آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ باتیں اور بھی ہیں لیکن فی الوقت اس کا موقع نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمد منظور عالم کی ایک بڑی خوبی یہ رہی ہے کہ انہوں نے بلا تفریق مذہب و ملت ایسے دانشوروں، علما اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا انتخاب کیا جو ان کے ایک کال پر جمع ہوتے رہے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آئی او ایس اپنے نصب العین اور اہداف کے حصول میں کس حد تک کامیاب رہی ہے؟ اس کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جانا چاہیے۔
کتاب کی اس ’اَن کہی کہانی‘ میں آئی او ایس کے حوالے سے جبکہ اس کی بنیاد 1986 میں حضرت نظام الدین کی ایک عمارت ویٹیج بلڈنگ میں رکھی گئی، راقم بھی وہاں موجود تھا۔ مجھے یاد ہے کہ آئی او ایس کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے غالباً عبدالرشید اگوان صاحب کا نام منتخب کیا گیا تھا۔ حیرت ہے کہ اس کتاب میں ان کے تاثرات نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ایک اور شخصیت جو ڈاکٹر محمد منظور عالم صاحب اور قاضی مجاہدالاسلامؒ کے قریب رہی، ان سے بھی تاثرات نہیں لیے گئے۔ میری مراد جناب اسرار عالم ہیں۔ ان کی تقریباً بیس فکر انگیز تحقیقی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ابتدا میں چار پانچ کتابیں اسلامک فقہ اکیڈمی سے شائع ہوئیں۔ ایک کتاب ’عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال‘ قاضی پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز کے زیر اہتمام 1996 میں شائع ہوئی تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس پر قاضی صاحب نے بڑا ہی فکر انگیز پیش لفظ تحریر کیا تھا۔ اسلامک فقہ اکیڈمی، نئی دہلی کے بانی علامہ مجاہدالاسلام قاسمی نے ایک جگہ لکھا تھا
’’آج سہولت پسندی اور ہلکے پھلکے ادب کے مطالعہ کا مزاج بنا ہے، اس میں ہم ان اہل دانش و بینش کا انتظار کر رہے ہیں، اور اصحاب فکر و نظر کی راہ دیکھ رہے ہیں، جو مستقبل کی تصور و تشکیل کے لیے اس کتاب کے مصنف کے ساتھ ماضی سے حال تک کا سفر کریں اور وقت کے ان تھپیڑوں کو محسوس کرسکیں جو بروقت فیصلہ اور اقدام کرنے والوں کو منزل تک پہنچانے اور غافل رہنے والوں کو دور ساحل کی خاک چھانتے ہوئے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔‘‘
’عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال‘ جو اپنے موضوع اور مواد (سیکولر اقدار اور سیکولرائزیشن) پر اردو میں شاید اب بھی واحد تصنیف ہے، علامہ مجاہدالاسلام قاسمی اپنے ’پیش لفظ‘ میں مزید تحریر فرماتے ہیں
’’میرے نزدیک نہ صرف یہ کہ یہ کتاب جدید لٹریچر میں اہم اضافہ ہے بلکہ اس نے ماضی اور حال کے درمیان کوئی خلا نہیں رہنے دیا ہے اور بے شک مستقبل کے فیصلوں پر اس کتاب کا اثر محسوس کیا جائے گا۔‘‘
مصدقہ اطلاع یہ بھی ہے کہ قاضی پبلشرز نے 1996 سے اب تک اپنی دیگر کتابوں کے مقابلے میں ’عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال‘ کتاب کی سب سے زیادہ اشاعت کی ہے۔ شاید اب اس کتاب کی اشاعت کسی وجہ سے بند کردی گئی ہے۔
’ڈاکٹر محمد منظور عالم اَن کہی کہانی‘ یقینی طور پر ایک دل چسپ سوانحی و تاثراتی روداد ہے۔ اس کے بائیوگرافر اے یو آصف صاحب اور ڈاکٹر محمد منظور عالم مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کے کارنامے کو منصہ شہود پر لانے کی انتھک جدوجہد کی گئی ہے۔

 

***

 ڈاکٹر محمد منظور عالم کی ایک بڑی خوبی یہ رہی ہے کہ انہوں نے بلا تفریق مذہب و ملت ایسے دانشوروں، علما اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا انتخاب کیا جو ان کے ایک کال پر جمع ہوتے رہے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آئی او ایس اپنے نصب العین اور اہداف کے حصول میں کس حد تک کامیاب رہی ہے؟ اس کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جانا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مئی تا 11 مئی 2024