ذات پر مبنی پالیسیاں موجود لیکن ڈیٹا ندادرد!

سینئر صحافی دلیپ منڈل سے ہفت روزہ دعوت کی خاص بات چیت

افروز عالم ساحل

’ملک کی آزادی سے پہلے تک مردم شماری میں ذات کا کالم ہوتا تھا اور تمام ذاتیں گنی جاتی تھیں۔ ملک میں ۱۹۳۱ کے اعداد وشمار موجود ہیں۔ ۱۹۴۱ میں دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے اعداد وشمار سامنے نہیں آئے، حالانکہ اس وقت بھی مردم شماری میں ذات کا کالم موجود تھا۔ ۱۹۵۱ میں ہمارے قومی معماروں نے یہ سوچا کہ ہم ایک ’ماڈرن ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوشن‘ کی طرف جارہے ہیں۔ ذات اگر نہیں گنیں گےتو ملک میں ذات پات ختم ہوجائے گا۔ لیکن سال ۲۰۲۱ تک ملک میں ذات پات کی بنیاد پر ظلم، نچلی ذاتوں کو اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے سے روکنے اور جوڈیشری سے لے کر میڈیا تک نوکریوں میں ان کی موجودگی کے اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ ہمارے قومی معماروں نے جو سوچا تھا، وہ پوری طرح غلط ثابت ہوا۔ اب اس ’بیماری‘ کو دیکھ کر ہی اس کا علاج کیا جائے۔ بیماری سے آنکھیں بند کرلینے سے بیماری دور نہیں ہو گی۔‘

ان خیالات کا اظہار مشہور مصنف اور سینئر صحافی دلیپ سی منڈل نے کیا ہے۔ واضح رہے کہ دلیپ منڈل انڈیا ٹوڈے ہندی میگزین کے سابق منیجنگ ایڈیٹر رہ چکے ہیں اور میڈیا و سماجیات پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان دنوں وہ دی پرنٹ کے ساتھ منسلک ہیں۔ ساتھ ہی ملک میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کی مہم میں کافی سرگرم ہیں۔

مردم شماری میں ذات کا کالم کیوں ضروری ہے؟ اس سوال پر دلیپ منڈل ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتے ہیں کہ اس بار ذات کا کالم دینا اس لیے ضروری ہے کیونکہ ملک میں مردم شماری دس سال میں ایک بار ہوتی ہے۔ یہ اعداد وشمار اگر مرکزی حکومت نے اس بار اکھٹا نہیں کیے تو اگلے دس سالوں میں جب کبھی ذات پات پر مبنی اعداد وشمار کی ضرورت پڑے گی یعنی عدالت میں اس بنیاد پر کوئی مقدمہ آگیا، ذاتوں کو لے کر ملک میں کوئی تنازعہ کھڑا ہوا، کسی نئی ذات نے کوئی نئی تحریک شروع کردی تو ان کو حکومت حقائق کے بنیاد پر جواب نہیں دے پائے گی۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ماضی میں ذات پات کی بنیاد پر ہم کئی تحریکیں دیکھ چکے ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں ہمارے ملک میں ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن کے مطالبوں کے ساتھ کئی تحریکیں برپا ہوئیں۔ یہ تحریکیں ان ذات برادریوں نے چلائیں جو او بی سی کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ جاٹ، مراٹھا، پاٹیدار (گجرات کے پٹیل)، آندھرا پردیش اور تلنگانہ کی کاپو ذات کی تحریکیں ان میں نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ راجستھان کا گوجر آندولن کا کہنا ہے کہ انہیں پسماندہ ریزرویشن میں ان کا حق نہیں مل رہا ہے، لہٰذا یا تو ان کو درج فہرست قبائل میں شامل کیا جائے یا انہیں الگ ریزرویشن دیا جائے۔ جھارکھنڈ کی کرمی یا کڑمی ذات بھی درج فہرست ذاتوں میں شامل ہونے کے لیے ایک تحریک چلا رہی ہے۔ ان تمام تحریکوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تحریکیں جذبات پر مبنی ہیں۔ ان کے پیچھے اعداد وشمار یا حقائق کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ان کی جانب سے جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں وہ درست بھی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ غلط بھی ہوں۔ اب اس کے صحیح یا غلط کا پتہ تبھی چلے گا، جب حکومت کے پاس ان ذاتوں کی آبادی سے متعلق اعداد وشمار ہوں گے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ان ذاتوں اور مزید کئی ذاتوں کی ایسی تحریکیں ہوں گی اور تعداد، طاقت یا جدوجہد کی بنیاد پر ریزرویشن حاصل کرنے کی کوشش ہوگی۔ حکومت یا عدالتیں بھی منطقی بنیاد پر انہیں ریزرویشن دینے یا نہ دینے کا فیصلہ نہیں کر سکتیں۔ اس لیے وہ کبھی جبر کرتی ہے تو کبھی ان آندولنوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔ حالیہ دنوں میں مراٹھا آندولن میں یہ مسئلہ شدت کے ساتھ سامنے آیا اور ریاستی حکومت کی کوششوں کے باوجود انہیں ریزرویشن نہیں دیا جا سکا۔ وہاں یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ یہی نہیں، پسماندہ ذاتوں کے ریزرویشن سے متعلق کئی مقدمے ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں، کیونکہ عدالتیں حکومتوں سے ذاتوں کی تعداد اور پسماندگی سے متعلق اعداد وشمار مانگتی ہیں جبکہ حکومت کے پاس اس طرح کے اعداد وشمار ہے ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اعداد وشمار مردم شماری سے ہی سامنے آسکتے ہیں، کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر اعداد وشمار کسی سروے یا مطالعے سے سامنے نہیں آسکتے۔

دلیپ منڈل مزید بتاتے ہیں کہ صرف ریزرویشن کا واحد مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ذات کے اعداد وشمار اور حقائق کے بغیر ہی یہاں ذات پر مبنی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ اس ملک میں او بی سی ڈیولپمنٹ فنڈ ہے، ریاستوں کو ’او بی سی وکاس‘ کا پیسہ جاتا ہے۔ سماجی انصاف وتفویض اختیارات کی وزارت میں الگ سے او بی سی ڈویژن ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ’نیشنل کونسل فار بیک وارڈ کلاسز‘ ہے۔ ریاستوں کو بھی اعداد وشمار کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ جیسے مراٹھا ریزرویشن کے مطالبے پر عدالت میں اعداد وشمار کا سوال آیا۔ ابھی اوڈیشہ کی حکومت نے بھی وہاں کی ایک شیوالگری کمیونٹی کو درج فہرست ذاتوں کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے اسمبلی میں تجویز منظورکرکے مرکزی حکومت کو بھیجی ہے کہ مردم شماری میں ذات کا کالم رکھنا چاہیے۔ یہی نہیں، مرکزی حکومت کے پاس اس طرح کی تجاویز تین ریاستوں سے آچکی ہیں۔ اس طرح سے دیکھا جائے توملک میں ایسے متعدد سوال ہیں، اور ان کا حل تب ہی نکلے گا جب ہمارے پاس اعداد وشمار موجود ہوں گے ۔

لیکن اگر حکومت نے اس بار ذات پر مبنی مردم شماری نہیں کرائی تو کیا ہوگا؟ اس سوال پر دلیپ منڈل کہتے ہیں، پھرتو یہ حکومت کی بیوقوفی ہوگی۔ اعداد وشمار تو اسے ضرور جمع کرلینا چاہیے اگر نہیں کریں گے تو کئی طرح کی مشکلات پیش آئیں گی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پالیسی سازی میں مسائل پیش آئیں گے۔ نئی ذاتوں کے او بی سی میں شامل کیے جانے کے جو مطالبے ہیں، ان میں مشکل پیش آئے گی۔ ابھی ہمارے پاس ۱۹۳۱ کے مردم شماری کے اعداد وشمار ہیں، جو ۹۰ سال پرانے ہو چکے ہیں۔ اگر اس بار مردم شماری میں یہ کام نہیں کیا گیا تو ہمارے پاس جو اعداد وشمار ہوں گے، وہ سو سال پرانے ہوں گے۔ اب سو سال پرانے اعداد وشمار سے یہ ملک چلے گا تو ظاہر بات ہے کہ متعدد قسم کے مسائل کا سامنے آنا یقینی ہے۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ دوسری پریشانی یہ ہے کہ او بی سی بٹوارے کا جو پراجیکٹ ہے، جس سے انتہائی پسماندہ طبقات کو انصاف مل سکتا ہے۔ اعداد وشمار کی کمی کے سبب وہ کام بھی نہیں ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بہت سارے کام آپ نہیں کر پارہے ہیں۔ واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے او بی سی ریزرویشن کو دو یا دو سے زیادہ زیادہ زمروں میں تقسیم کرنے کے منصوبے کو لے کر 2 اکتوبر 2017 کو جسٹس جی روہنی کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ریزرویشن کے فوائد دیگر پسماندہ طبقات میں شامل ذاتوں میں ’’جائز اور انصاف پسند طریقے سے‘‘ تقسیم ہو پا رہے ہیں یا نہیں۔ اس کمیشن کو 27 مارچ 2018 سے پہلے اپنی رپورٹ پیش کرنا تھا، لیکن اسے اب تک گیارہ بار توسیع دی گئی ۔ تازہ خبر یہ ہے کہ اس رپورٹ کو پیش کرنے کے لیے مزید ایک سال کا وقت لگے گا۔ تب تک تو یوپی اسمبلی کے انتخابات ختم ہو چکے ہوں گے۔ سچ تو یہ ہے اس کمیشن کو اپنا کام کرنے کے لیے اعداد وشمار کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ روہنی کمیشن کو جو کام سونپا گیا ہے اس کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ یہ کمیشن ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار کے بغیر اپنا کام مکمل کر پائے گی۔ اس لیے دلیپ منڈل کہتے ہیں کہ اگر حکومت واقعی انتہائی پسماندہ طبقات یا افراد کو انصاف دینا چاہتی ہے تو پھر اسے ذات پر مبنی مردم شماری کرانی ہی پڑے گی۔

ذات پات پر مبنی مردم شماری کے تعلق سے بی جے پی کے رول کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ اس سوال پر دلیپ منڈل کہتے ہیں کہ اس وقت جو حالات ہیں، اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو بی جے پی ایک ویلین کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ منڈل کمیشن نے اپنی تمہید میں ہی لکھا تھا کہ اگلی مردم شماری سے تمام ذاتوں کے اعداد وشمار جمع کیے جائیں۔ اس طرح سال ۲۰۰۱ کی مردم شماری میں ہی ذات کی گنتی کر لینی چاہیے تھی۔ اس کے لیے 8 جنوری 1998 کو دیوے گوڑا نے کابینی نوٹ تیار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس بار ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے گی۔ لیکن مارچ 1998 میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت بنی اور ایل کے اڈوانی وزیر داخلہ بنے۔ اڈوانی نے 26 مئی 1998 کو اس تجویز کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۱ سے قبل ہونے والے مردم شماری کے موقع پر بھی یہ سوال اٹھا تھا لیکن اس وقت بھی نہیں کرائی گئی۔ سال ۲۰۱۱ میں تقریباً ۳۵۰۰ کروڑ روپوں کی رقم مختص کر کے ایک مختلف قسم کی مردم شماری شروع ہوئی۔ اسے ’سوشیو اکنومک اینڈ کاسٹ سنسس‘ کہا گیا۔ یہ مردم شماری ۲۹ جون ۲۰۱۱ کو شروع ہوئی۔ مرکزی حکومت کے اعلان اور منصوبے کے مطابق اسے دسمبر ۲۰۱۱ میں ہی مکمل ہو جانا تھا۔ لیکن یہ سال ۲۰۱۵ تک چلتی رہی۔ اس مردم شماری کے فیلڈ سروے کے نتائج چونکانے والے تھے۔ اس میں۴۶ لاکھ ذاتوں، ذیلی ذاتوں اور گوتروں کے بارے میں معلومات سامنے آئیں لیکن ارون جیٹلی نے پی آئی بی میں ایک پریس کانفرنس کرکے کہا کہ اس میں بہت ساری خامیاں ہیں، اس لیے اس کو عام نہیں کریں گے ۔ چنانچہ رپورٹ حکومت کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود اس نے اسے جاری نہیں کیا۔ اس کے بعد مرکزی کابینہ نے ۱۶ جولائی ۲۰۱۵ کی ایک اجلاس میں، اس مردم شماری کے اعداد وشمار کو سمیٹنے کے لیے ’نیتی آیوگ‘ کے اس وقت کے وائس چیئرمین اروند پنگڑھیہ کی قیادت میں ایک ایکسپرٹ گروپ تشکیل دیا اور کہا کہ یہ گروپ اعداد وشمار کے خامیوں کو دور کرے گی۔ لیکن اس گروپ کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی۔ پنگڑھیہ صاحب واپس پڑھانے کے لیے کولمبیا یونیورسٹی چلے گئے۔ وہ آئے تھے ملک کی معیشت درست کرنے، لیکن جب ملک کی معیشت بگڑنے لگی تو چلتے بنے ۔ اس طرح اس مردم شماری کے اعداد وشمارآج تک نہیں سامنے آ پائے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس مردم شماری کا کام روک دیا گیا، حکومت نے اس پر 4،893 کروڑ روپے خرچ کر دیے۔ اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے رضامندی ظاہر کی تھی کہ ۲۰۱۱ کے مردم شماری میں ذات پر مبنی مردم شماری ضرور ہونی چاہیے۔

دلیپ منڈل کہتے ہیں کہ ۲۰۲۱ کی مردم شماری کی تیاری سال ۲۰۱۸ میں شروع ہوگئی تھی۔ یاد کیجیے کہ ۲۰۱۹ کے الیکشن کیمپین میں بی جے پی کے سینیئر لیڈروں نے کیا تقریریں کی تھیں۔ راجناتھ سنگھ نے بھی کہا تھا کہ مردم شماری کا دائرہ بڑھا رہے ہیں، اب او بی سی کی بھی گنتی ہوگی۔ اس کے بعد اب کام کرنے کی باری آئی تو کہہ رہے ہیں کہ نہیں کریں گے۔

اس معاملے میں حزب اختلاف کے سیاسی پارٹیوں کے رول کو آپ کیسے دیکھ رہے ہیں؟ اس سوال پر دلیپ منڈل کہتے ہیں، اپوزیشن کا کام ہے کہ وہ اس مسئلے پر مرکزی حکومت کو گھیرے، اور اس نے گھیرنا شروع بھی کردیا ہے۔ اسٹالین، نوین پٹنائک، تیجسوی یادو، نتیش کمار، اکھیلیش اور بہن جی، سب نے اس پر بولنا شروع کردیا ہے۔ اب یہ اتفاق رائے بن رہا ہے کہ اس بار ذات پر مبنی مردم ضرور ہونی چاہیے۔ اس طرح سے اب یہ معاملہ پوری طرح سیاسی ہوچکا ہے۔ لیکن حکومت اس پر اپنا نفع نقصان دیکھ کر فیصلہ کرے گی حالاں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

اگر حکومت اتنے سیاسی دباؤ کے بعد بھی نہیں مانتی ہے تب کیا ہو گا؟ جواب میں دلیپ منڈل کہتے ہیں حکومت کو اس بار یہ کام کرنا ہی ہو گا۔ یہ ایک جمہوری ملک ہے۔ آپ حکومت سے پوچھیں کہ ملک میں کتنے گدھے ہیں تو وہ بتادے گی لیکن اگر آپ پوچھیں کہ ملک میں کتنے برہمن، کشواہا، کرمی یا دیگر ذات کے شہری ہیں، تو اس کے پاس ان کی آبادی کا کوئی اعداد و شمار نہیں ہو گا، جبکہ آپ کو ان کے لیے ہی پالیسی بنانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ ملک میں جانوروں اور ان کی مختلف اقسام کو گن سکتے ہیں تو پھر ذات کی بنیاد پر انسانوں کو کیوں نہیں گن سکتے؟

دلیپ منڈل ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت کے آخر میں کہتے ہیں، حکومت کی یہ دلیل کہ ذات کو گننے سے ذات واد بڑھے گا ہر طرح سے بے بنیاد ہے۔ اگر ذات نہ گننے سے ذات واد ختم ہونا تھا تو اسے اب تک ختم ہو جانا چاہیے تھا، لیکن فی الحال تو اس کے ختم ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس لیے میرا کہنا ہے کہ آپ بیماری کو پہلے دیکھیے، پھر اس کا علاج کیجیے اور اس علاج کے لیے اعداد وشمار کا اکھٹا کرنا سب سے اہم کام ہے۔

***

حکومت کی یہ دلیل کہ ذات کو گننے سے ذاتی واد بڑھے گی، ہر طرح سے بے بنیاد ہے۔ اگر ذات نہیں گننے سے ذاتی واد ختم ہونا تھا، تو اسے اب تک ختم ہو جانا چاہیئے تھا، لیکن فی الحال تو اس کے ختم ہونے کی علامات دور دور تک نظر نہیں آرہی ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21  اگست 2021