دہلی: کسانوں کے احتجاج سے پہلے سنگھو اور غازی پور سرحدوں پر سیکیورٹی بڑھا دی گئی

نئی دہلی، اگست 22: دہلی کے جنتر منتر پر کسانوں کی طرف سے احتجاج کی کال سے پہلے پولیس نے پیر کو سنگھو اور غازی پور سرحدوں پر سیکورٹی بڑھا دی ہے، جو کہ نومبر 2020 اور نومبر 2021 کے درمیان مرکز کے تین متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف مظاہروں کے دو بڑے مقامات ہیں۔

ANI کی خبر کے مطابق کسانوں کی ایک مشترکہ تنظیم سمیکت کسان مورچہ نے کہا ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خلاف احتجاج کرے گی۔ ان کی احتجاجی ریلی شہر کے بیرونی اضلاع سے گزرے گی جس میں غازی آباد میں غازی پور بارڈر بھی شامل ہے۔

سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق اگست میں ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح 7.7 فیصد رہی، جو جولائی کے 6.8 فیصد سے زیادہ ہے۔ اپوزیشن کی بار بار کی درخواستوں اور احتجاج کے باوجود جولائی اور اگست کے درمیان پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کے دوران بے روزگاری پر طویل بحث نہیں کی گئی۔

پولیس نے پیر کو کہا کہ وہ چوکس ہیں اور قومی دارالحکومت میں داخل ہونے والی تمام گاڑیوں کی جانچ کر رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ رکاوٹوں کی وجہ سے دہلی کے کئی حصوں میں ٹریفک کی نقل و حرکت متاثر ہو سکتی ہے۔

دہلی کے باشندوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ٹالسٹائی مارگ، سنسد مارگ، جن پتھ روڈ، اشوکا روڈ، آؤٹر سرکل کناٹ پلیس، بابا کھڑک سنگھ مارگ اور پنڈت پنت مارگ سے گریز کریں۔

ایک نامعلوم پولیس افسر نے بتایا ’’اس سلسلے میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے ٹکری سرحد، بڑے چوراہوں، ریلوے ٹریکس اور میٹرو اسٹیشنوں پر بیرونی ضلع میں مقامی پولیس اور بیرونی فورس کی مناسب تعیناتی کی گئی ہے۔‘‘

18 اگست سے 21 اگست کے درمیان سمیکت کسان مورچہ نے اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری ضلع میں مرکزی وزیر اجے مشرا کے استعفیٰ کے ساتھ ساتھ دیگر کئی مطالبات کے لیے 5 گھنٹے طویل احتجاج کیا۔

لکھیم پور کھیری وہ جگہ ہے جہاں 3 اکتوبر کو مرکز کے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد چار کسانوں سمیت آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ کسانوں نے الزام لگایا تھا کہ اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کی گاڑی مظاہرین کے ایک گروپ پر چڑھ گئی تھی۔

سمیکت کسان مورچہ نے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کی قیادت کی تھی جنہیں پارلیمنٹ نے 29 نومبر کو واپس لے لیا تھا۔

تاہم کسان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جب تک ان کے دیگر مطالبات پورے نہیں ہوتے وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ ان میں زرعی پیداوار کے لیے کم از کم امدادی قیمتوں پر قانونی ضمانت اور زرعی قوانین مخالف احتجاج کے دوران مظاہرین کے خلاف درج کیے گئے مقدمات کو واپس لینا شامل تھا۔

اس کے بعد مرکز نے کسانوں کے مطالبات پر مسودہ تجاویز بھیجی تھیں۔ کچھ غور و خوض کے بعد 9 دسمبر کو کسانوں نے اس تجویز کو قبول کر لیا اور احتجاج کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔ فروری میں کسان تنظیموں نے انتباہ دیا تھا کہ اگر مرکز نے ان کے مطالبات کو پورا نہیں کیا تو وہ دوبارہ احتجاج شروع کر دیں گے۔