دہلی فسادات: قومی ترانہ گانے پر مجبور کیے جانے والے شخص کی موت کی تحقیقات میں تاخیر پر ہائی کورٹ نے پولیس کو لگائی پھٹکار

نئی دہلی، جنوری 13: دہلی ہائی کورٹ نے منگل کے روز اس واقعے کی تحقیقات میں تاخیر پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں ایک 23 سالہ مسلمان شخص کی موت اس وقت ہوئی تھی جب فروری 2020 میں پولیس والوں نے اسے مارا پیٹا اور اسے قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا۔

لائیو لاء کے مطابق عدالت نے تحقیقات کی تفصیلی رپورٹ طلب کی۔

24 فروری 2020 کو شوٹ کی گئی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس اہلکار فیضان نامی شخص اور چار دیگر افراد کو مارتے ہوئے انھیں قومی ترانہ گانے اور ’’وندے ماترم‘‘ کا نعرہ لگانے کا حکم دے رہے ہیں۔ فیضان کو مبینہ طور پر جیوتی نگر پولس اسٹیشن میں حراست میں لیا گیا تھا۔ رہا ہونے کے فوراً بعد اس کی موت ہو گئی۔

فیضان کی والدہ قسمتن نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم سے انکوائری کی درخواست کی گئی تھی۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے اس کے بیٹے کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا تھا اور اسے صحت کی بنیادی سہولیات سے انکار کیا تھا جس کی وجہ سے وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

منگل کو سماعت میں دہلی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے اس معاملے میں ایک ہیڈ کانسٹیبل سے پوچھ گچھ کی ہے۔

اس پر جسٹس مکتا گپتا نے ریمارکس دیے کہ دو سال ہو گئے کیا آپ کسی ایک شخص کی بھی شناخت کر پائے؟

جج نے یہ بھی پوچھا کہ پولیس نے ویڈیو کی اصلیت کا پتہ کیوں نہیں لگایا۔ اس معاملے کے تفتیشی افسر پنکج اروڑا نے جواب دیا کہ انھیں پتہ چلا ہے کہ ویڈیو ہیڈ کانسٹیبل کے فون پر فلمایا گیا تھا، لیکن پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے اسے شوٹ کرنے سے انکار کیا۔

اروڑا نے کہا ’’لیکن اس کے بارے میں کچھ چیزیں تھیں جن کی وجہ سے ہمیں یقین ہے کہ اسی نے ویڈیو بنائی ہے۔ ویڈیو میں ہیڈ کانسٹیبل رویندر واحد شخص تھا جس نے ہیلمٹ نہیں پہنا تھا… فسادات کے دوران اسے سر پر چوٹ بھی آئی تھی۔‘‘

تفتیشی افسر نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ رویندر کا جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ کرایا گیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے جوابات ’’جھوٹے‘‘ تھے۔ انھوں نے کہا کہ فارنسک ماہر نے ایک رپورٹ بھی پیش کی تھی جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ ہیڈ کانسٹیبل نے ویڈیو بنائی تھی۔

اروڑا نے مزید کہا ’’ہم نے اس کی آواز کے نمونے بھی لیے ہیں اور انھیں فارنسک لیبارٹری میں بھیج دیا ہے۔ رپورٹ کا انتظار ہے۔‘‘

عدالت نے کہا کہ محکمہ پولیس کو ان اہلکاروں کی شناخت ہونی چاہیے جو واقعہ کی تاریخ پر وہاں تعینات تھے۔

جج نے کہا ’’آپ آسانی سے جان سکتے ہیں۔ شناخت کتنے وقت میں ہو گی؟‘‘

فیضان کی والدہ کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈوکیٹ ورندا گروور نے عدالت کو بتایا کہ واقعہ کے دن کی سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج محفوظ نہیں کی گئی تھی۔ اس پر پولیس نے جواب دیا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر اس وقت کیمرے کام نہیں کر رہے تھے۔

جج نے کہا ’’میں اپنی اسٹیٹس رپورٹ میں تمام جوابات چاہتا ہوں۔ پولیس کو تفصیلات جمع کرانی ہوں گی کہ کیمروں نے کب کام کرنا بند کیا۔‘‘

اب اس معاملے کی سماعت 22 فروری کو ہوگی۔