ضمانت کے احکامات کی اطلاع جیل حکام تک پہنچانے میں تاخیر فرد کی آزادی کو بری طرح متاثر کرتی ہے: جسٹس چندر چوڑ

نئی دہلی، نومبر 3: بار اینڈ بنچ کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے منگل کو عدالتوں کی طرف سے دیے گئے ضمانتی احکامات کو جیل حکام کو وقت پر پہنچانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ افراد کی آزادی بری طرح متاثر نہ ہو۔

جسٹس چندرچوڑ نے کہا ’’مجرمانہ انصاف کے نظام میں ایک بہت سنگین کمی ضمانت کے احکامات کے مواصلات میں تاخیر ہے، جسے ہمیں جنگی بنیادوں پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ یہ ہر زیر سماعت، یا یہاں تک کہ کسی ایسے مجرم کی انسانی آزادی کو متاثر کرتا ہے جس کی سزا معطل ہو چکی ہو۔‘‘

وہ الہ آباد ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں میں ورچوئل کورٹس اور ای سیوا کیندر (آن لائن سروس سینٹرز) کے افتتاح کے موقع پر بول رہے تھے۔

حال ہی میں اداکار شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کو ایک اضافی دن جیل میں گزارنا پڑا کیوں کہ ان کی ضمانت کا حکم آرتھر روڈ جیل حکام تک وقت پر نہیں پہنچا تھا۔

دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق جولائی کے شروع میں چیف جسٹس این وی رمنا کی قیادت میں سپریم کورٹ کی بنچ نے آگرہ سینٹرل جیل سے 13 قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کا ازخود نوٹس لیا تھا جب کہ عدالت نے انھیں ضمانت دے دی تھی۔

بنچ نے جیل حکام کو اپنے فیصلوں کی تیز اور محفوظ الیکٹرانک ترسیل کے لیے ایک نظام قائم کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا تھا تاکہ جن قیدیوں کو ریلیف دیا گیا ہے انھیں رہائی کے لیے تصدیق شدہ آرڈر کاپی کا انتظار نہ کرنا پڑے۔

ستمبر میں سپریم کورٹ نے اپنے احکامات کی الیکٹرانک ٹرانسمیشن کے لیے ایک نظام نافذ کرنے کا حکم دیا تھا جسے فاسٹ اینڈ سیکیورڈ ٹرانسمیشن آف الیکٹرانک ریکارڈز یا تیز تر کہا جاتا ہے۔

منگل کو جسٹس چندرچوڑ نے چیف جسٹس ایس مرلی دھر کے ذریعہ اڑیسہ ہائی کورٹ میں شروع کیے گئے ’’ای-کسٹڈی سرٹیفکیٹ‘‘ پہل کا حوالہ دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’’یہ سرٹیفکیٹ ہمیں ابتدائی ریمانڈ سے لے کر ہر کیس کی اگلی پیشرفت تک اس خاص زیر سماعت یا مجرم کے حوالے سے تمام مطلوبہ ڈیٹا فراہم کرے گا۔‘‘

جج نے مزید کہا ’’اس سے ہمیں اس بات کو یقینی بنانے میں بھی مدد ملے گی کہ ضمانت کے احکامات جاری ہوتے ہی فوری طور پر عمل درآمد کے لیے جیلوں تک پہنچا دیے جائیں۔‘‘

جسٹس چندر چوڑ نے یہ بھی کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ جلد ہی اس کے نئے چیف جسٹس راجیش بندل کے تحت ایک حقیقت بن جائے گی۔

ای سیوا کیندروں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جج نے کہا کہ ملک میں ڈیجیٹل تقسیم کی وجہ سے اس کی ضرورت تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’’آبادی کے ایک بڑے حصے کو کمپیوٹر تک ذاتی رسائی نہیں ہے، حالاں کہ یقیناً اب ہمارے دیہی علاقوں میں بھی اسمارٹ فونز پھیل رہے ہیں۔ لیکن یہ بہت بڑی ڈیجیٹل تقسیم ہے اور بار کے ممبران بڑے پیمانے پر معاشرے کے نمائندے ہیں۔‘‘

جسٹس چندر چوڑ نے ملک بھر میں دستی رجسٹروں کو جدید الیکٹرانک رجسٹروں سے بدلنے کا مشورہ بھی دیا۔

انھوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں بطور چیف جسٹس اپنے تجربے کو بھی یاد کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’’الہ آباد واقعی ایک خاص جگہ ہے، اسی طرح لکھنؤ بھی ہے، دونوں کی اپنی اپنی روایات ہیں، لیکن متحرک ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ ہندوستان کے دل کی سرزمین کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘