دعوت، اقامت دین کا پہلا مرحلہ۔سنجیدہ جدوجہد کی ضرورت

حلقہ اسلامی شمالی امریکہ (اکنا) کا ہیوسٹن میں علاقائی کنونشن

مسعود ابدالی

قارئینِ گرامی جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہورہا ہے، ہمارا آج کا کالم ذرا غیر روا یتی و غیر سیاسی نوعیت کا ہے۔ یہ شمالی امریکہ کے ان سخت جانوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے ذریعے حصولِ خوشنودیِ رب کو اپنا نصب العین بنایا ہے۔ اپنی کاوشوں کو صحیح سمت میں رکھنے کے لیے۔ دستور میں یہ بات بھی صراحت سے درج کردی گئی کہ سارا کام قرآن و سنت کے مطابق ہو گا۔ یعنی:
تمام سرگرمیاں کھلے عام ،شفاف اور قانون کے مطابق ہوں گی۔
نصب العین کے حصول کے لیےطاقت کے استعمال، دھوکہ دہی، جھوٹ، جبر اور خفیہ و غیر قانونی سرگرمیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔
جماعت کا نظام مشاورت سے چلے گا اور ہر سطح کی قیادت کو شفاف طریقے پر منتخب کیا جائے گا۔
ناگزیری کی قباحتوں سے بچنے کے لیےکسی فرد کے ایک منصب پر لگاتار دو مدت سے زیادہ رہنا ممکن نہیں۔
مالی معاملات کو شفاف رکھنے کے لیےآزاد و غیر جانبدار آڈیٹر کی رپورٹ ایک لفظ، حرف اور ہندسے کی تبدیلی کے بغیر ارکانِ جماعت کو پیش کی جاتی ہے۔
مالیات کا ایسا ہی نظام ذیلی اداروں کے لیےبھی ہے۔
اسلامی تحریک یہاں ارتقائی مراحل سے گزر کر اس مقام تک پہنچی ہے۔ امریکی جامعات میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (MSA) بہت عرصے سے سرگرم تھی۔ پاکستان کی اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ افراد جب اعلیٰ تعلیم کے لیےامریکہ اور کنیڈا آئے تو وہ ایم ایس اے کا دست و بازو بن گئے ساتھ ہی جمیعت کا حلقہ احباب قائم ہوگیا۔ ڈاکٹر انیس احمد اور ڈاکتر طلعت سلطان اس حلقے کے باری باری سربراہی فرماتے رہے۔ اس دوران مانٹریال (کینیڈا) میں سابقینِ جمیعت نے اپنی اصلاح کے لیےمطالعے کا نظام قائم کیا جسے اسلامی اسٹڈی سرکل کا نام دیا گیا جو ‘حلقے’ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ سلسلہ 1868سے 1977 تک اسی طرح چلتا رہا۔ امریکہ کا حلقہ احباب اور کینیڈا کا حلقہ زیرتعلیم سابقین جمیعت پر مشتمل تھا۔ ان طلبہ کی اکثریت نے تعلیم کے اختتام پر وطن واپس جانے کے بجائے امریکہ میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔نوجوان تارکینِ وطن کی تعداد میں 1971 کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا اور 1977 میں حلقہ اسلامی شمالی امریکہ (ICNA)کا قیام عمل میں آیا۔ شمالی امریکہ سے مراد ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا ہے۔
تنظیم کے قیام کے بعد بھی کچھ عرصے تک اسکا انداز حلقے والا رہا یعنی تمام سرگرمیاں اردو میں۔ چار پانچ سال بعد جناب ظہیر الدین کے دورِ امارت میں تمام مرکزی پروگرامات انگریزی میں شروع ہوئے لیکن خواتین کے اکثر پروگرامس اب بھی اردو میں ہوتے ہیں۔
اکنا امریکہ کی مرکزی تحریک ہے لیکن عرب، افریقی، بنگلہ دیشی، ترک، ہند چینی (ملائیشیا انڈونیشیا اور برونائی) اور چینی مسلمانوں نے علیحدہ تنظیمیں بھی قائم کی ہوئی ہیں۔ یہ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد نہیں بلکہ ثقافتی تنوع کی بناپر علیحدہ سرگرمیاں ضروری ہیں۔مختلف مسلم ممالک اور بڑے مسلم آبادی والے ممالک، جیسے ہندوستان سے اب پورے کے پورے خاندان امریکہ منتقل ہورہے اور معمر لوگوں اور گھریلو خواتین کے لیےانگریزی سیکھنا ممکن نہیں چنانچہ مقامی زبانوں میں سرگرمیاں ضروری ہیں۔بنگلہ دیش، مصر، شام، چین اور کئی دوسرے ممالک کی حکومتیں اسلامی تحریکوں کے بارے معاندانہ رویہ رکھتی ہیں اور موذیوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لیےبھی یہ ضروری ہے۔
نائن الیون سانحے کے بعد دوسری اسلامی تنظیموں کی طرح اکنا بھی نظرِ کرم کا شکار ہوئی لیکن شفاف مالیاتی نظام، تحریری دستور اور اجتماعات کی دستاویزی روداد کی بناپر حاسدوں کی چالیں ناکام رہیں۔ یہاں یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ یہ تمام اقدامات محض اسباب تھے۔ اکنا کے خلاف چالیں اس نے ناکام بنائی ہیں جس کی چالوں کا توڑ کسی کے پاس نہیں۔ شفافیت کو مزید موثر بنانے کے لیے2005 میں کینیڈا کی شاخ کو اکنا سے علیحدہ کردیا گیا۔ امریکہ اور کینیڈا کے قوانین کے فرق اور ان کی تشریح میں ممکنہ ابہام سے بچنے کے لیےیہ قدم اٹھایا گیا۔اب اکنا کینیڈا ایک علیحدہ تنظیم کے طورپر کام کررہی ہے جس کا اکنا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن نظریاتی ہم آہنگی اور اخلاص پر مبنی تعلقات کی گرمجوشی برقرار ہے۔
اکنا نے اپنی سرگرمیوں کو متنوع، مربوط اور موثر بنانے کے لیےکئی ذیلی ادارے قائم کیے ہیں۔ یہ ادارے مرکزی مجلس شورٰی کی جانب سے طئے کردہ اہداف اور طریقہ کار کے مطابق کام کرتے ہیں تاہم اکثر اداروں کے آزاد ایکزیکیٹیو بورڈ ہیں۔
خدمتِ خلق کے لیے ہیلپنگ ہینڈ (Helping Hand) امریکہ سے باہر سرگرم ہے، دنیا کے 85 ممالک میں ہیلپنگ ہینڈ کا نظم قائم ہے۔ شامی مہاجرین کی دیکھ بھال لبنان، اردن اور ترکیہ میں قائم کیمپوں سے ہوتی ہے۔ فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ سے منظور شدہ تنظیموں کے تعاون سے خدمت خلق کاکام جاری ہے۔ پاکستان کے سیلاب زدگان کو ہیلپنگ ہینڈ نے ابتدا میں ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی مدد فراہم کی۔اب بے گھر افراد کی آبادکاری کے لیےمکانات تعمیر کیے جارہے ہیں۔
اکنا ریلیف امریکہ میں خدمت خلق کے علاوہ قدرتی آفات کے دوران مدد فراہم کرتی ہے۔ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیےامریکی حکومت نے فیڈرل ایمرجینسی منینجمنٹ ایجنسی (FEMA)کے نام سے ایک ادارہ قیام کیا ہے۔ اکنا ریلیف فیما کی فہرست کا حصہ ہے اور کئی مواقع پر اکنا ریلیف کی خدمات کو وفاقی سطح پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔اکنا ریلیف کا بڑا کارنامہ گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیےمختلف شہروں میں شیلٹر ہوم کی تعمیرہے۔ اِن گھروں میں ان بے سہارا خواتین کو طعام و قیام کے علاوہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے لیےہنر سکھائے جاتے ہیں۔ جیل سے رہا ہونے والی بھی خواتین بھی مستقل انتظام سے قبل شیلٹر ہوم میں قیام کرتی ہیں۔شیلٹر ہوم میں رہائش کے لیےمسلم و غیر مسلم سب کے حقوق یکساں ہیں۔
غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا کام WhyIslam کے ذمہ ہے جو فون کے ذریعے اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ ان لائنوں پر انگریزی کے علاوہ ہسپانوی زبان میں بھی گفتگو ہوسکتی ہے۔ وائی اسلام نے امریکہ کی بڑی بڑی شاہراہوں پر اسلام کے پیغام پر مشتمل بل بورڈ بھی نصب کیے ہیں۔
مختلف مساجد٬ پارکوں، لائبریریوں اور دوسرے عوامی مقامات پر دعوت کے لیےopen houseکا اہتمام کیا جاتا ہے،یہ سرگرمیاں gain peaceکے بینر تلے ہوتی ہیں جو ایک کُل وقتی ادارہ ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے نومسلموں کو ملی دھارے میں لانے کے لیےEmbraceکے نام سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ اسلام قبول کرنے والے افراد خود کو نو مسلم کے بجائے revertsیا واپس آنے والے کہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اللہ نے انہیں مسلمان پیدا کیا تھا لیکن وہ راستہ بھول گئے اور اب ان کے رب نے انہیں فطری عقیدے کی طرف لوٹا دیا ہے۔کل اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک صاحب نے بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ جب اسلام قبول کیا تو بلا نوش ہونے کی بنا پرمیری سب سے بڑی آزمائش ترکِ شراب تھی۔ میں نے شراب ایک دم چھوڑنے کے بجائے اس سے بتدریج نجات حاصل کی۔ پہلے مرحلے پر میں نے گیہوں کی شراب (Beer)کے بجائے شیمپین پینی شروع کردی۔ شیمپین مہنگی ہے اس لیے مقدار کم ہوگئی۔ مزید کمی نماز کے اوقات سے آگئی کہ میں نشے کی حالت میں نماز کیسے پڑھتا۔ بعد عشا ہی کو یہ شوق پورا ہوسکتا تھا۔ کچھ دن بعد شروع ہونے والے رمضان نے رات کو بھی شراب نوشی ناممکن کردی۔ الحمداللہ نوجوانوں میں کام کے لیے Young Muslim Brothers اور Youg Muslim Sisters سرگرم ہیں۔ کونسل برائے سماجی انصاف خصوصی (CSJ) عدل و مساوات، شہری حقوق کے تحفظ کا کام کرتی ہے۔ حقوق کی آگاہی کے لیےسیمنار اور ورکشاپ کے ساتھ انصاف کی فراہمی اور مظلومو ں کی عدالتوں کے ذریعے دادرسی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اکنا نے کام میں آسانی کے لیےامریکہ کو چار زون میں تقسیم کیاہے۔ حالیہ کنونشن کا اہتمام جنوب وسطی (South Central) زون کی طرف سے کیا گیا تھا۔ یہ زون ٹیکسس (Texas) لوزیانہ(Louisiana) اوکلاہوما (Oklahoma) اور آرکنسا (Arkansas) ریاستوں پر مشتمل ہے۔ یہ چاروں ریاستیں ریپبلکن پارٹی کے مضبوط گڑھ ہیں اور یہاں قدامت پسندوں کی اکثریت ہے۔ ان چار ریاستوں سے منتخب ہونے والے تمام کے تمام آٹھوں سینیٹروں کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے جبکہ ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) کے مجموعی 13 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن کی تعداد 38ہے۔
گزشتہ صدی کی نویں دہائی تک ہم جنس پرستی المعروف LGBT، اسقاط (میرا جسم میری مرضی) اسکولوں میں عبادت کی اجازت، سرکاری نصاب کی تطہیر وغیرہ کے معاملے پر قدامت پسند اور مسلمان ہم خیال تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے 1984 میں رونالڈ ریگن 1988 میں جارج بش اور 2000 میں جارج بش جونیر کی حمائت کی، لیکن نائن الیون کے بعد صورتحال بالکل بدل گئی اور ریپبلکن پارٹی کے قدامت کھل کر مسلمانوں کے خلاف کھڑے ہوگئے حتیٰ کہ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگادیں گے۔
دلچسپ بات کہ جب صدر ٹرمپ نے انتخابی وعدہ وفا کرتے ہوئے 2017 میں مسلمانوں پر پابندی کا صدارتی حکم جاری کیا تو اس وقت مسلمانوں کی حمایت میں سب سے پرجوش آواز LGBT افراد کی تھی۔ اسقاط کی حامی خواتین بھی اس مہم میں پیش پیش تھیں۔اِس وقت بھی فرانس میں حجاب پر پابندی کے خلاف LGBT افراد سرگرم ہیں۔
اس علاقے میں خواتین سمیت اکنا کے ارکان کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے۔ جو زیادہ تر ہیوسٹن اور ٹیکسس کے دوسرے بڑے شہر ڈلاس (Dallas) کے رہائشی ہیں۔ ٹیکسس انتہائی پھلتا پھولتا علاقہ ہے۔یہ امریکہ کی واحد ریاست ہے جہاں تنخواہوں سے ریاستی ٹیکس نہیں کاٹا جاتا۔ اسی بنا پر امریکہ کے دوسرے علاقوں سے کئی کارپوریشنیں اپنے صدر دفاتر اور کارخانے ٹیکسس منتقل لارہے ہیں۔حال ہی میں ٹویٹر فیم ایلون مسک نے برقی کار بنانے والے ادارے ٹیسلا کا صدر دفتر یہاں لایا ہے۔ کاروبار کے ساتھ دوسری ریاستوں سے افراد بھی یہاں کی رہائش اختیار کر رہے ہیں۔ گزشتہ دس سال کے دوران ٹیکسس کی آبادی ڈھائی کروڑ سے بڑھ کر دو کروڑ 91 لاکھ ہو گئی جس کی وجہ سے کانگریس کے لیے ٹیکسس کی نشستوں میں دو کا اضافہ ہو گیا۔
نومبر کی آخری جمعرات کو شکر گزاری (Thanksgiving) کا تہوار منایا جاتاہے اور جمعرات سے اتوار تک تعطیل رہتی ہے چنانچہ تین روزہ کنونشن کا آغاز 25 نومبر کو نماز جمعہ کے ساتھ ہوا۔ ہفتے اور اتوار کو فجر کی نماز کے بعد تذکیر کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ بیٹھک ہیوسٹن کے میریٹ ہوٹل میں جمی جہاں خواتین سمیت چار ہزار کے قریب افراد نے شرکت کی۔کنونشن کا مرکزی خیال یا theme’عادلانہ معاشرے کی تشکیل’ تھا۔ سارے امریکہ سے آئے مقررین نے دنیا بھر میں مسلم اُمّہ اور انسانیت کو درپیش مصائب، امریکہ کی مسلم امت کے مسائل ، مسلم معاشرے کے قیام اور اقامت دین کی اہمیت اور اس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ۔
طوالت کے خوف سے تمام مقررین کی تقاریر کا خلاصہ پیش کرنا یہاں ممکن نہیں۔ تاہم امریکہ کے مشہور عالم دین اور شعلہ بیان مقرر امام سراج وہاج کی تقریر نے دلوں کو خوب گرمایا۔ انہوں نے حاضرین سے پوچھا کہ یہاں پیدائشی مسلمان کتنے ہیں۔ حسبِ توقع وہاں موجود تقریباً ہر شخص نے ہاتھ اٹھادیا۔ اسکے بعد انہوں نے دریافت کیا کہ یہاں reverts کتنے ہیں تو مقرر سمیت چار پانچ ہاتھ بلند ہوئے۔سراج وہاج نے دلگیر لہجے میں کہا دوستو! جب ہزاروں پیدائشی مسلمانوں کے مجمعے میں گنتی کے reverts بیٹھے ہوں تو ایک عادلانہ معاشرہ کیسے قائم ہوگا۔ دعوت، اقامت دین کا پہلا مرحلہ ہے اور اس کام میں ہم کتنے سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ اس برادری میں واپس آنے والوں کی تعداد دیکھ کر کیا جاسکتاہے۔ ہر مسلمان کم ازکم ایک شخص تک تو دعوت پہنچائے۔
امام صاحب نے کہا کہ نبی مہربان (ص) نے تین بار قسم کھاکر کہا تھا کہ وہ شخص مومن نہیں جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ ذرا دیکھیے آپ کے گھر میں چھوٹے بچے بھی پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت اور ذکر رسول سےآپ کا گھر جگمگا رہا ہے لیکن چار انچ کی دیوار کی دوسری جانب آپ کا پڑوسی ہدایت سے محروم ہے۔ حق تلفی بھی شر کی ہی ایک شکل ہے۔دعوت سے پہلو تہی کرکے ہم اپنے پڑوسیوں کو ان کے حق سے محروم کررہے ہیں۔دوستو! ہمسائیگی کا حق اداکرو کہ یہ اللہ کے آخری نبی کا حکم ہے ۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 ڈسمبر تا 10 ڈسمبر 2022