عالمی فٹ بال کپ یا تہذ یبوں کی برتری کی جنگ

مغربی میڈیا کی جارحانہ مہم۔ قطر کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش

نور اللہ جاوید، کولکاتا

یورپ نفسیاتی خوف میں مبتلا ۔ کرکٹ کے بعد فٹ بال کے کھیل کی بھی اجارہ داری ختم ہونے کا خدشہ!
یہودیت کے زیر اثر مغربی میڈیا حقوق انسانی کے نام پر نسل پرستانہ تبصرے کرنے میں مشغول
کیا قطر سے یکجہتی و ہم آہنگی اور بقائے باہمی کی صدا نفرت انگیز مہم پر حاوی ہو سکے گی؟
کسی بھی کھیل کا عالمی مقابلہ کھیل شائقین اور شیدائیوں کے لیے تہوار سے کم نہیں ہوتا ہے۔ چوں کہ فٹ بال دنیا کا سب سے مقبول ترین کھیل ہے اس لیے فٹ بال کے عالمی مقابلے کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ اگرچہ یہ عالمی مقابلہ دنیا کی 32 ٹیموں کے درمیان ہو رہا ہے مگر اس کے شائقین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بھارت کی ٹیم اس مقابلے میں حصہ نہیں لے رہی ہے مگر یہاں بھی فٹ بال کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ فٹ بال کے شیدائی یہاں دو حصوں میں منقسم ہیں۔ ایک تعداد برازیل اور اس کے اسٹار کھلاڑی نیمار کی دیوانی ہے تو دوسری ارجنٹینا اور میسی کی مداح ہے۔ غیر متوقع طور پر سعودی عرب کے ہاتھوں ارجنٹنا کی شکست کا غم بھارت میں بھی منایا گیا۔ تاہم کرسٹینو رونالڈو کو پسند کرنے والے بھی کم نہیں ہیں۔ یہ ہے فٹ بال کا جلوہ اور اس کا جنون۔ فٹ بال کے عالمی مقابلے کی تاریخ میں اس مرتبہ کا عالمی مقابلہ سب سے الگ ہے۔ ایک بڑی وجہ عالمی فٹ بال کپ پہلی مرتبہ جنوبی ایشیا کے کسی ملک بالخصوص کسی عرب ملک میں منعقد ہو رہا ہے اس لیے اگر جنوبی ایشیا بالخصوص عربوں میں جوش و خروش ہے تو اس کا جواز بھی ہے۔ اس طرح کے عالمی مقابلے میزبان ملک کے لیے نہ صرف اپنی اقتصادی اور سماجی حیثیت کو ظاہر کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں بلکہ اپنی تہذیب و کلچر اور معاشرت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا بہتر ین ذریعہ بھی ہوا کرتے ہیں۔چناں چہ جب امیر قطر تمیم بن حمادالثانی نے عالمی فٹ بال کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ آپ سبھی فٹ بال شیدائیوں کا قطر اور عرب ممالک کی طرف سے استقبال ہے تو قریب میں بیٹھے ہوئے سعودی ولی عہد و وزیر اعظم محمد بن سلمان بھی تالیاں بجا کر اس کی تائید کی۔
فٹ بال کے شیدائیوں کا جوش و خروش اور عربوں کی مسرت اپنی جگہ مگر قطر میں عالمی فٹ بال کے انعقاد سے یورپ اور مغربی میڈیا میں ہنگامہ برپا ہے۔ فٹ بال مقابلے کی شروعات کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے مگر تنقیدوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ناراضگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بی بی سی نے عالمی فٹ بال کپ کے افتتاحی تقریبات کو نشر تک نہیں کیا مگر تنقیدی بیانات اور مظاہرے کو بھر پور کوریج دی۔ فرانس اور جرمنی میں بھی اسی طرح کے رد عمل کا مظاہرہ کیا گیا۔عالمی فٹ بال کا مقابلہ شروع ہونے سے دو دن قبل فیفا کے صدر گیانی انفینٹینو نے مغربی تنقیدوں کے تناظر میں پریس کانفرنس کے دوران جو باتیں کہیں وہ مغرب کے لیے تازیانہ عبرت تھا۔ امید تھی کہ اس کے بعد مغربی میڈیا میں قطر پر تنقیدوں کا سلسلہ بند ہوجائے گا مگر آئینہ میں تصویر دیکھنے کے بجائے تنقیدوں میں مزید جارحانہ انداز پیدا ہو گیا۔ فیفا کے صدر نے کہا کہ ’’قطر کو یک طرفہ اخلاقی سبق دینے اور حقوق انسانی کے حوالے سے تنقید کرنے کے بجائے یورپی لوگ جو کچھ گزشتہ 3 ہزار سالوں سے کر رہے ہیں اس کے لیے انہیں معافی مانگنی چاہیے۔ اس کے بعد ہی ہم لوگ (اہل یورپ) کسی کو اخلاقی سبق دینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ قطر کے بارے میں مغرب کی رپورٹنگ گمراہ کن ہے۔ یہ اخلاقی سبق دینا یک طرفہ اور منافقت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں آپ کو زندگی کا کوئی سبق نہیں دینا چاہتا، لیکن یہاں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ اس کے علاوہ کھیل کو صرف کھیل تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ سیاسی ایجنڈے چلانے اور حقوق انسانی کا چمپئن بننے کا موقع سمجھ کر اس کا استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے‘‘
انفینٹینو نے مزید کہا کہ ’’تارکین وطن کے خوف سے یورپ میں ہم اپنی سرحدیں بند کر دیتے ہیں اور ہم عملی طور پر ان ممالک کے کسی بھی کارکن کو جس کی آمدنی کم ہو اپنے ممالک میں قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ قطر میں مزدوروں کے حقوق کی فکر کرنے سے پہلے یورپ کو چاہیے کہ وہ اپنے دروازے تارکین وطن کے لیے کھول دے۔‘‘
گیانی انفینٹینو کی ایک گھنٹے طویل پریس کانفرنس میں قطر کی میزبانی پر اٹھنے والے ہر سوال کا جواب دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ نصیحت بھی کی گئی کہ ایک مہذب مہمان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ میزبان ملک کی ثقافت، کلچر، روایات اور مذہبی جذبات کا احترام کیا جائے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ گیانی انفینٹینو کی نصیحتوں پر توجہ دینے کے بجائے مغرب کی نام نہاد تنظیمیں، ادارے اور میڈیا میں قطر کے خلاف تنقیدوں میں مزید شدت آگئی ہے اور اب کھلاڑیوں اور فٹ بال شیدائیوں کے ذریعہ نازی ازم پر مبنی نعرے بازی کی جاری ہے۔ مسلمانوں کی نسلی تطہیر کے مجرم سربوں کی حمایت میں جرسیاں لہرائی جا رہی ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر قطر کی میزبانی سے مغرب کو پریشانی کیا ہے؟ قطرنے حقوق انسانی کے حوالے سے کن جرائم کا ارتکا ب کیا ہے؟ آخر قطر کو فٹ بال کی میزبانی کیوں نہیں ملنی چاہیے تھی؟کیا قطر نے عالمی فٹ بال کی میزبانی کے حصول کے لیے رشوت دی تھی؟صرف ایک عالمی مقابلے کے لیے 220 بلین ڈالر خرچ کرنے کا کوئی جواز بھی ہے؟ اس سے قطر کو کیا حاصل ہو گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ان سوالوں کے جواب پر غور کرنےسے قبل یورپی ممالک اور مغربی میڈیا کی تنقیدوں کے پس پشت عوامل کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر انہوں نے اس قدر جارحانہ رخ کیوں اختیار کر رکھا ہے؟ دراصل مغرب صدیوں سے نفسیاتی برتری کا شکار ہے۔اسے گمان ہے کہ فضیلت و برتری کا وہ اکیلے ہی مستحق ہے۔اس کے علاوہ کوئی بھی بہترین انداز سے بڑے پروگرام بالخصوص فٹ بال جیسے عظیم کھیل کے عالمی مقابلے کی میزبانی اور انتظام و انصرام نہیں کرسکتا ہے۔ مشرقی ممالک کو وہ کسی خاطر میں لانے کو تیار نہیں کیوں کہ مشرقی ممالک کو اس نے کئی دہائیوں تک اپنی کالونی بنارکھا تھا، نوآبادیاتی نظام کے تحت ہر طرح کے ظلم و تشدد کو روا رکھا تھا،وہاں کے عوام سے انسان ہونے کا حق چھین لیاتھاکہ تاکہ وہ کبھی ان کی ہمسری کے قابل نہ ہوسکیں۔ چناں چہ 2010 میں جب قطر نے عالمی فٹ بال کی میزبانی حاصل کی اس وقت سے ہی تنقیدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ آخر ایک چھوٹے عرب ملک کو جہاں ایک بھی فٹ بال اسٹڈیم تک نہیں ہے میزبانی کیسے مل سکتی ہے؟اس کے لیے رشوت دینے کا بھی الزام لگایا گیا ۔
یہ جاننے کے باوجود عالمی فٹ بال کپ کی میزبانی سے معاشی طور پر قطرکو نقصان ہونے کے علاوہ کوئی فائدہ ہونے والا نہہں ہے قطر نے عالمی فٹ بال مقابلوں کی تیاریوں اور انعقاد پر 220 بلین ڈالر خرچ کیا ہے ۔یہ اب تک کا سب سے مہنگا فٹ بال کپ ہے۔ماضی میں کئی ممالک اس سے تین چوتھائی کم بجٹ پر فٹ بال کا انعقاد کر چکے ہیں ۔آخر قطر کو اتنے روپے کیوں بہانے پڑے؟ عالمی فٹ بال کپ کی میزبانی ایک چھوٹے سے ملک( قطر) کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟ دراصل دنیا کا سب سے مال دار ملک اس میزبانی کے ذریعہ عالمی نقشے پر اپنی سماجی اور اقتصادی اہمیت کو ثابت کرنا چاہتا ہے۔ لیکن مغربی میڈیا نے قطر کی ثقافت، سیاسی نظام اور کارکنوں کے حالات وغیرہ پر تنقید کرکے قطر کی خوشیوں پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ہے۔اسی وجہ سے امیر قطر نے عالمی فٹ بال کے افتتاح سے چند دن قبل کہا کہ ایک میزبان ملک کی حیثیت سے قطر کی جس طریقے سے تنقید کی گئی اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔مغربی میڈیا نے ہمارے مقاصد ،ہماری کاوشوں اور کھیل کے فرو غ کے لیے ہمارے جذبات کی پذیرائی کرنے کے بجائے ہمیں کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ عالمی فٹ بال کپ کی میزبانی قطر کے 2030 کے ترقیاتی اور خودکفیل منصوبے کا حصہ ہے‘‘
گزشتہ چند دہائیوں میں روس، جنوبی افریقہ، جرمنی، برازیل، انگلینڈ اور دیگر ممالک میں ہونے والے عالمی فٹ بال کپ کے اخراجات اور قطر فٹ بال کپ کے اخراجات کا موازنہ کر کے قطر پر تنقید کی جا رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا قطر نے یہ اخراجات صرف فٹ بال کپ کے انعقاد کی تیاریوں پر کیے ہیں؟ قطر نےعالمی فٹ بال کی میزبانی حاصل کرنے کے بعد ایر پورٹس، ہوٹلس، شاپنگ مالس، میٹرو اسٹیشنس اور 8 اسٹیڈیمس کی تعمیر پر اتنی بڑی رقم خرچ کی ہے۔ ظاہر ہے کہ عالمی فٹ بال کپ کے بعد یہ انفراسٹکچر قطرکی ترقی کے لیے سنگ میل ثابت ہو گا۔ انفراسٹکچر کی تعمیر کی وجہ سے لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقع ملے اور اس کی وجہ سے پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان، فلپائن اور تیسری دنیا کے کئی ممالک کے لاکھوں افراد کو اپنے ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ معاوضہ ملا۔ خلیجی ممالک میں کفالہ نظام اور اجرت کی رقم، غیر ملکی ورکرں کے ساتھ سلوک ہمیشہ سے اہم مسئلہ رہا ہے۔ زیادتیاں ہوتی رہی ہیں جس کی کوئی بھی حمایت نہیں کرتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ زیادتیاں صرف عالمی فٹ بال کپ کی تیاریوں کے دوران ہوئی ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کی زیادتیاں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ قطر نے ان دس سالوں میں انٹرنیشنل لیبر کمیشن کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے کئی اصلاحات نافذ کیے اور کفالہ کے نظام کو ختم کر دیا۔ برطانوی اخبار دی گارجین نے پہلی مرتبہ 2016 میں قطر میں غیر مقیم بیرون ممالک کے ورکروں سے متعلق رپورٹ شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اب تک 26 ہزار ورکروں کی موت ہو چکی ہے۔دی گارجین نے یہ دعویٰ کن بنیادوں پر کیا تھا اور یہ اعداد و شمار کہاں سے حاصل کیے تھے وہ اس نے ظاہر نہیں کیا۔ اس کے بعد برطانوی اخبارات دی اکنامسٹ، دی ٹیلی گراف، ڈیلی میل اور دیگر یورپی اخبارات کی کوریج گزشتہ سالوں میں اس طرح کے دعوؤں سے بھری گئی۔ حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے متعلق قطر میں عالمی فٹ بال کے انعقاد پر ہی سوالیہ نشان لگایا جانے لگا اور فیفا پر دباؤ ڈالا گیا کہ چوں کہ قطر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اس لیے 2022 کے عالمی فٹ بال کپ مقابلے کو رد کر دیا جائے۔ حالانکہ قطر میں ہونے والی مبینہ حقوق انسانی کی یہ خلاف ورزیاں روس، چین، برازیل اور جنوبی افریقہ میں ہونے والی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں سے بہت کم ہے۔جب عالمی فٹ بال کپ مقابلے ہٹلر کی موجودگی میں جرمن میں اور مسولینی کی موجودگی میں اٹلی میں ہو سکتے ہیں اور ان دونوں کو عالمی فٹ بال کپ کے دوران اپنے فسطائی ایجنڈے کا پروپیگنڈہ کرنے کی اجازت مل سکتی ہے تو قطر میں عالمی مقابلے کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگانے والوں کو ایک مرتبہ آئینہ ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے باوجود اگر چین میں اولمپک مقابلے ہو سکتے ہیں، روس کی علاقائی جارحیت کے باوجود فٹ بال مقابلے ہو سکتے ہیں تو پھر قطر میں کیوں نہیں ہو سکتے؟
برطانیہ نے کئی صدی تک درجنوں ممالک کو اپنی کالونی میں تبدیل کردیا تھا، وہاں کی رعایا کے ساتھ ظلم و زیادتی کی تھی اور وہاں کی دولت لوٹ لی اس کے باوجود برطانیہ حقوق انسانی کا چمپئن بنا ہوا ہے۔فرانس اور پرتگال نے افریقی ممالک میں جو مظالم ڈھائے ہیں وہ تاریخ کا حصہ ہے۔کیا برطانوی اخباروں میں یہ جرأت ہے کہ وہ اپنے ملک سے ان گناہوں پر معافی مانگنے کا مطالبہ کریں۔فٹ بال کا اگلا عالمی مقابلہ امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو میں ہونے والا ہے۔امریکہ جس نے عراق اور افغانستان کے شہروں کو کھنڈروں میں تبدیل کردیا ہے، جس نے بے گناہوں پر لاکھوں ٹن بم برسا کر انہہں موت کی نیند سلا دیا۔امریکہ جس نے نیوکلیائی ہتھیاروں کو استعمال کر کے انسانیت کی تذلیل کی اس کے باوجود وہ اگلے عالمی کپ کی میزبانی کا مستحق بنا ہے۔
مشہور شامی ناول نویس وفا علوش ترکی کے سرکاری ویب سائٹ ٹی آر ٹی کی عربی ویب سائٹ پر عالمی فٹ بال کے انعقاد کے متعلق مغربی میڈیا کی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’اگر یہ عالمی مقابلہ کسی غیر عرب ملک میں ہوتا تو شاید مغربی میڈیا میں اس قدر ہنگامہ برپا نہیں ہوتا۔ قطرکی یونیورسٹی میں پروفیسر خالد الحروف اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ قطر میں ایسے بہت سارے امور ہیں جن پر تنقید ہونی چاہیے مگر مغربی میڈیا میں جس طرز سے تنقید کی جارہی ہے اس نے حقوق انسانی کے تحفظ کی پوری بحث کے رخ کو ہی موڑ دیا ہے۔اب یہ بحث مغربی تہذیب بنام مشرقی تہذیب کی جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام تنقیدیں مغربی تہذیب کی برتری کوثابت کرنے اور مشرقی تہذیب کو نیچاد کھانے کے لیے کی جارہی ہیں۔اس کے تار نسل پرستانہ ذہنیت اور مسلم فوبیا سے بھی ملتے ہیں۔چناں چہ عالمی فٹ بال کپ کی شروعات سے عین قبل ایک فرانسیسی میگزین نے قطری فٹ بال ٹیم کا ایک کارٹون دہشت گردوں کی شکل میں شائع کیا۔ برطانوی اخبار، ٹائمز نے ایک تصویر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ ’قطری خواتین مغربی طرز کے لباس میں ملبوس خواتین کو دیکھنے کی عادی نہیں ہیں۔ ایک فرانسیسی صحافی دوحہ سے رپورٹنگ کرتے ہوئے سوال پوچھتا ہے کہ آخر قطر میں اس قدر مساجد کیوں ہیں؟لوگ مساجد میں کیا کرتے ہیں؟ قطری شہریوں نے بتایا کہ مغربی دنیا سے رپورٹنگ کرنے کے لیے آئے ہوئے صحافی قطری خواتین سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ انہیں کو اسکارف پہننے کی ضرورت کیا ہے؟ کیا انہیں مجبور کیا گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ سوالات مغربی میڈیا کے عدم معلومات، تعصب اور نفرت کو ظاہر کرتے ہیں۔ قطر نے تو آج تک دنیا کے کسی ملک میں فوج کشی تو دور اس کے معاملات میں دخل اندازی تک نہیں کی ہے۔ اس کے باوجود قطر کی فٹ بال ٹیم دہشت گرد اور ہزاروں برس تک مظالم ڈھانے والے ممالک امن کے پیامبر بنے ہوئے ہیں۔
قطر میں فٹ بال شائقین پرپابندیوں کی تاریخ :
غیر مقیم مزدوروں کی حق تلفی کے علاوہ عالمی فٹ بال کپ کے دوران چند پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔قطر نے دنیا کے سامنے واضح کر دیا ہے کہ وہ 28 دنوں کے لیے اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اقدار سے دست بردار نہیں ہو سکتا ہے۔ دنیا ہماری تہذیب و ثقافت اور اقدار کے ساتھ قبول کرے اور یہی بقائے باہمی کا تقاضا بھی ہے ۔ان پابندیوں میں سے ایک اسٹیڈیم میں شراب کے فروخت پر پابندی شامل ہے۔پہلے یہ تاثر قائم تھا کہ اسٹیڈیم میں شراب نوشی کی کھلے عام اجازت ہو گی، شراب فروخت کرنے کےلیے کارنر لگائے جائیں گے مگر عالمی کپ کی شروعات سے محض دو دن قبل اسٹڈیم میں شراب کی فروخت پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی گئی ۔اس پر بھی خوب واویلا مچا گیا ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسٹڈیم میں پہلی مرتبہ شراب پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اگر عالمی فٹ بال کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو 1985 میں پہلی مرتبہ انگلینڈ نے کارپوریٹ ایریا کے علاوہ اسٹیڈیم کے تمام حصوں میں شراب کی فروخت پر پابندی عائد کی تھی ۔اسکاٹ لینڈ میں 1980سے ہی اسٹیڈیم میں شراب کے فروخت پر پابندی عائد ہے۔فرانس کے اسٹیڈیم میں بھی جزوی طور پر شراب کے فروخت پر پابندی عائد ہے۔ 2018کے روس میں منعقد عالمی کپ کے دوران بھی اسٹیڈیم میں شراب کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی تھی ۔(بحوالہ بی بی سی) سوال یہ ہے کہ اس وقت کیوں نہیں مسائل کھڑے کیے گئے تھے اور اب قطر نے اپنی تہذیب و کلچر کا حوالہ دے کر پابندی عائد کی ہے تو اس پر کیوں واویلا مچایا جا رہا ہے ؟
ہم جنس پرست جوڑوں پر بھی پابندی کے علاوہ اس کی حمایت میں نعرے، اسٹیکرز اور نشانات کے مظاہرے پر پابندی عائد ہے۔اسٹیڈیم میں برہنہ ملبوسات کے استعمال پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ہیجان انگیز لباس پہننے سے روکا گیا ہے جو مشرقی تہذیب و تمدن میں اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔جنسی بے راہ روی مغربی کلچر کا جز بن چکا ہے۔حقوق کے نام پر ہم جنسی پرستی کی حمایت مغرب کا شیوہ ہے۔ہم جنسی پرستی اور جنسی بے راہ روی کا نتیجہ ہے کہ مغرب میں خاندان کا ادارہ تباہ و برباد ہوچکا ہے۔دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ایسے بچوں کی اکثریت ہوجائے گی جن کے والد کا کوئی پتہ نہیں ہے۔جرمن اور برازیل میں منعقد ہونے والے عالمی فٹ بال کپ کے دوران فلپائن، تھائی لینڈاور بنکاک جیسے ممالک سے بڑی تعداد میں جسم فروش خواتین کو لایا گیا تھا تاکہ فٹ بال شائقین جنسی تسکین پوری کرسکیں۔قطر جیسے تہذیب و کلچر اور اسلامی اقدار کے حامل ملک سے اس طرح کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔چناں چہ قطر نے غیر شادی شدہ جوڑوں کو ایک کمرہ الاٹ کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔جنسی بے راہ روی، خواتین کا جنسی استحصال مغربی تہذیب کا حصہ ہے۔فرانس کی سڑکوں پر مسلم خواتین کو اسکارف پہننے پر معتوب کیا جاتا ہے ۔یورپ کے کئی ممالک میں اسکارف پر پابندی ہے۔ اسے حقوق انسانی کی خلاف ورزی نہیں بلکہ خواتین کی آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کھلی منافقت ہے۔اپنے ممالک میں آنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان کی تہذیب و ثقافت کا احترام کریں مگر یورپ کے شہریوں پر مشرقی اقدار کا احترام کرنا ضروری نہیں ہے۔
انڈیا و پاکستان کے پرجوش مسلم شیدائی اورڈاکٹر نائک پر تنازع
قطر عالمی کپ کی افتتاحی تقریب کا آغاز امریکی اداکار فریمن جن کا تعلق افریقی نسل سے ہے اور قطر کے معذور نوجوان الغانم کے درمیان دنیا میں امن وا مان، بھائی چارہ اور بقائے باہمی جذبے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ایک عمدہ گفتگو سے ہوا۔ امریکی اداکار کے سوال پر الغانم کی قرآن کی آیت کریمہ کی تلاوت نے دنیا میں امن وامان اور بقائے باہمی کے پیغام کو پہنچایا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر مسلم شیدائیوں نے قطر کو اسلام کے احیائے ثانی کا ہیرو کہنا شروع کر دیا۔ قطر کے شاہی خاندان کا بنو تمیم کے قبیلے سے تعلق ہے اور بنو تمیم سے متعلق حضرت محمد ﷺ کی پیشن گوئی گردش کرنے لگی کہ قطر کا شاہی خاندان ہی مسلمانوں کا مسیحا اور مسلم تہذیب و ثقافت کی بقا کا ضامن ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حد درجہ غلو کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ اردو اخبارات میں عالمی کپ کے دوران قبول اسلام کے حوالے سے بھی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ ممبئی سے شائع ہونے والے ایک اردو اخبار نے پہلے صفحے کی لیڈ خبر شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ صرف ایک دن میں قطر میں 800 سے زائد افراد نے اسلام قبول کیا۔کچھ سوشل میڈیا صارفین تو امریکی اداکار فریمن کے قبول اسلام کا بھی دعویٰ کرنے لگے۔ اگرچہ ان دعوؤں اور اعداد و شمار کی کسی مصدقہ ذرائع نے تصدیق نہیں کی ہے۔ اس طرح کے بے بنیاد دعوے ان الزامات کی تصدیق کرتے ہیں جو قطر پر لگائے جارہے ہیں اور قطر عالمی فٹ بال کپ کو تہذیبی برتری کی جنگ میں تبدیل کردینے والے بیانیہ کو تقویت ملتی ہے۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا میں قطر عالمی کپ کے متعلق ہیجان انگیز اور نفرت پر مبنی مہم چلائی جا رہی ہے کہ عالمی فٹ بال کپ میں اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو کیوں مدعو کیا گیا؟ میڈیا کی خواہش ہے کہ حکومت ہند اس بہانے قطر سے دو دو ہاتھ کرے۔ ایک طرف یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ قطر ڈاکٹر ذاکر نائیک سمیت دنیا بھر سے سیکڑوں مبلغین کو مدعو کر کے اسلامی حمیت کا ثبوت پیش کر رہا ہے تو دوسری طرف بھارتی میڈیا کی چیخ و پکار ہے۔ معتدل رپورٹنگ اور نیوز پیش کش کے لیے مشہور این ڈی ٹی وی بھی اس معاملے میں کسی سے کم نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت میں قطر کا سفارت خانہ موجود ہے تو کیا زہریلے اور گمراہ کن رپورٹنگ کرنے سے قبل بھارتی میڈیا کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ قطری سفارت خانے سے اس خبر کی تصدیق حاصل کر لیتا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک قطر حکومت کی سرکاری دعوت پر قطر میں ہیں یا پھر ان کا نجی دورہ ہے یا کسی غیر سرکاری تنظیم کی دعوت پر وہ قطر گئے ہیں؟ ملک کی دولت لوٹ کر فرار ہونے والے کئی صنعت کار ان دنوں برطانیہ میں مہمان نوازی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
وجے مالیا پر بینکوں کے ہزاروں کروڑ روپے کے بقایا جات وصول طلب ہیں وہ اسٹیڈیم میں میچ دیکھتا ہوا نظر آتا ہے اس پر بھارتی میڈیا برطانیہ کے خلاف مورچہ کیوں نہیں کھولتا؟ دراصل بھارتی میڈیا مغربی میڈیا کے بیانیہ کو من و عن قبول کرکے قطری حکومت اور بھارتی حکومت کے تعلقات کو خراب کرنے کا متحمل نہیں تھا اس لیے ذاکر نائیک کے بہانے سے مسلم دشمنی کا ثبوت پیش کر رہا ہے۔ اگرچہ حکومت ہند نے باضابطہ ذاکر نائک کے معاملے میں نہ کوئی رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے اور نہ ہی کوئی سفارتی احتجاج درج کرایا ہے پھر بھی قطر نے اپنے دوست ملک میں پائے جانے والی تشویش کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک سرکاری دعوت پر مدعو نہیں ہیں۔
قطر کی چند کامیابیاں اور فلسطین کے تئیں عرب نوجوانوں کا جوش ایک نئی صبح کی نوید سنا رہا ہے۔
عالمی وبا کورونا وائرس کے اثرات اور پڑوسی ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے ساتھ ساڑھے تین سال کے بائیکاٹ اور اس کی وجہ سے اربو ں روپے کے ہونے والے نقصانات کے باوجود قطر نے عالمی کپ کے کامیاب انعقاد کے ذریعہ دنیا کو بتا دیا ہے کہ اگرچہ وہ ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس کی صلاحیت، ثقافت و کلچر اور اس کی آزادانہ پالیسی پر کوئی طاقت اثر انداز نہیں ہو سکتی ہے۔ اسلامی اقدار اور تہذیب و تمدن کے تحفظ کے متعلق اس کے عزائم دنیا کو یہ پیغام دینے میں کامیاب رہے کہ بڑے ممالک محض مادی طاقت کے بل بوتے پر کسی بھی ملک کی تہذیب و تمدن اور اس کے اقدار پر حملہ آور نہیں ہو سکتے۔ اگر و دنیا پر امن بقائے باہمی چاہتے ہیں تو انہیں قوت برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن کا احترام کرنا سیکھنا ہو گا۔
اگرچہ اسرائیل کے فٹ بال شیدائی اور اس کے میڈیا کو بلا تفریق ویزا دیا گیا ہے مگر قطر اور عرب ممالک کے نوجوانوں نے جس طریقے سے فلسطین کے تئیں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہ خود عرب ممالک کے لیے ایک سبق ہے جو معمولی اقتصادی فائدے اور امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فلسطینی کاز سے دستبردار ہو کر اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی سمت قدم بڑھا رہے ہیں۔ یہ جذبہ ایک پیغام ہے کہ آج بھی عرب نوجوانوں کے دل و دماغ پر فلسطین کی آزادی اور مسجد اقصی کا احترام چھایا ہوا ہے۔ حکمراں اسے طاقت کے ذریعہ ختم نہیں کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’’ قطر عالمی فٹ بال کپ‘‘ کے نام پر مغرب اور اس کے میڈیا نے تہذیبی و ثقافتی برتری کی جو جنگ چھیڑ دی ہے وہ کس انجام کو پہنچتی ہے۔ اس مہم سے دنیا مزید تقسیم کے دہانے پر پہنچ جائے گی یا پھر قطر کے اسٹیڈیم سے معذور قطری نوجوان کا پیغام دنیا کو تہذیبی و ثقافتی جنگ سے نکال کر بقائے باہمی کی طرف لے جائے گا۔اس کا سارا انحصار مشرق سے زیادہ مغرب پر ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا مغرب زمینی حقائق اور نوشتہ دیوار کو پڑھ سکے گا۔
***

 

***

 جگہ جگہ فلسطینی پرچم نمایاں ۔ صحافیوں کا گروپ کوریج کے لیے دوحہ میں موجود
دنیا کے دیگر ممالک کے صحافیوں کے ساتھ میڈیا سنٹر ہال میں بیٹھ کر عالمی فٹ بال کپ کی رپورٹنگ کے حسین احساسات سے فلسطینی صحافیوں کا دل لبریز ہے اور ان کے لیے یہ کسی خواب سے کم نہیں تھا۔ 2010 میں جب قطر کو عالمی کپ کی میزبانی ملی تھی اس وقت فلسطینی شہر غزہ میں محصور اسپورٹس صحافی ولید جواد نے اپنے فیس بک پر لکھا تھا کہ وہ عالمی کپ کی رپورٹنگ کے لیے دوحہ ضرور جائیں گے۔ اس وقت ان کے ساتھیوں کے لیے یہ مذاق سے کم نہیں تھا۔اسرائیل کے محاصرے اور دنیا سے غزہ کے انقطاع کی وجہ سے اس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا اس لیے دوست ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ لیکن 12 سال بعد ولید دوحہ میں ہیں اور دوحہ کے اسٹیڈیم میں فلسطینی جھنڈا لہرا کر اپنے جذبات کا اظہار کر کے خوش ہو رہے ہیں۔ان کے لیے حقیقتا یہ کسی خواب سے کم نہیں ہے۔ ولید غزہ سے تعلق رکھنے والے 25 صحافیوں کے گروپ کا حصہ ہیں جو قطر عالمی کپ کی کوریج کر رہا ہے۔ انہیں اسی سال جنوری میں پاسپورٹ ملا ہے۔ پہلی مرتبہ وہ غزہ سے باہر نکلے ہیں۔ ولید کہتے ہیں کہ انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ دوحہ میں ہر جگہ فلسطین کے جھنڈے لہراتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ولید پر جوش انداز میں کہتے ہیں کہ 32 شریک ممالک سے زیادہ فلسطین کے جھنڈے ہیں۔تقریباً تمام کھیلوں میں عرب شائقین فلسطینی جھنڈے لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں اور قطری انتظامیہ کے اہلکار فلسطین کی حمایت میں بازو پر پٹیاں باندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ولید اور ان کے ساتھی غزہ سے مصر اور وہاں سے دوحہ پہنچے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان کے ساتھ اسرائیلی صحافی بھی آئے ہیں مگر دوحہ میں اسرائیل کا کوئی بھی جھنڈا نہیں ہے۔ قطر فلسطین کا زبردست حامی رہا ہے۔ قطر کے معاون وزیر خارجہ لولواح الخطر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین ہمیشہ قطر کے ضمیر میں رہے گا۔ ہم فلسطین سے اپنے ہزاروں بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ جشن منانے کی توقع رکھتے ہیں اور ہم یہاں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کا مقصد اور فلسطین میں ہمارا منصفانہ مقصد ہمیشہ ہمارے ضمیر میں موجود رہے گا۔
قطر نے عالمی فٹ بال کے لیے دنیا کے تمام ممالک کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کو بھی میچ دیکھنے کے لیے ویزے جاری کیے جا رہے ہیں۔ اسرائیل اس کے لیے عارضی طور پر دوحہ میں اپنا سفارت خانہ قائم کرنا چاہتا تھا مگر قطر نے اجازت نہیں دی۔ اسرائیل کو ایک پرائیوٹ ٹریول کمپنی کے ذریعہ خدمات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس سال کی شروعات میں جب ٹکٹ کی بکنگ کا سلسلہ شروع ہوا تو بکنگ سائٹ پر اسرئیل کے نام کے ساتھ مقبوضہ فلسطین لکھا ہوا تھا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 ڈسمبر تا 10 ڈسمبر 2022