آئین مذہبی اکثریت کے ساتھ ترجیحی سلوک کی اجازت نہیں دیتا: جسٹس بی وی ناگارتھنا

نئی دہلی، مئی 31: سپریم کورٹ کی جج جسٹس بی وی ناگارتھنا نے پیر کے روز کہا کہ ریاست کسی مذہب کے ساتھ وفاداری کا پابند نہیں ہے اور آئین اس کی اجازت نہیں دیتا کہ مذہبی اکثریت کسی بھی ترجیحی سلوک سے لطف اندوز ہو۔

انھوں نے کہا ’’ملک کے بانیوں کا وژن یہ تھا کہ ایک ایسی قوم جو انصاف، سماجی، معاشی اور سیاسی پہلوؤں پر مبنی ایک نیا سماجی نظام لانے کے لیے مذہب، ذات اور عقیدے کے تمام تنوع سے بالاتر ہو۔‘‘

ایک کتاب کے اجراء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے ناگارتھنا نے یہ بھی نوٹ کیا کہ بنیادی فرائض کا نچوڑ مثالی شہریت حاصل کرنا ہے جس کے لیے آئین کی اقدار پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئینی اقدار میں سالمیت سب سے اہم ہے۔ ’’لیکن افسوس! ہر گزرتے سال کے ساتھ سالمیت ہمارے کل ویلیو سسٹم میں اپنی قدر کھو رہی ہے۔ رشوت خوری، بدعنوانی اور ناجائز دولت کی خوشامد کرنا روز کا معمول بن گیا ہے اور ہندوستانی معاشرے میں چھایا ہوا ہے۔‘‘

جج نے یہ بھی کہا کہ کوئی ملک اتنا ہی آزاد ہو سکتا ہے جتنا کہ اس کے ادارے جیسے الیکشن کمیشن، عدلیہ، مرکزی بینک اور دیگر آزاد ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’’اس طرح کے زیادہ تر ادارے متضاد مفادات کے درمیان عادلانہ توازن برقرار رکھنے اور احتساب کے نفاذ کے ذریعے حکمرانی کے نظام کو تبدیل کرنے کے چیلنجنگ کام کو انجام دینے کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ ادارہ جاتی آزادی کا حکام پر بیرونی اثرات کے ساتھ الٹا تعلق ہے۔ اثر و رسوخ جتنا کم ہوگا، فعال خود مختاری کی گنجائش اتنی ہی زیادہ ہوگی۔‘‘

ناگارتھنا نے کہا کہ عدلیہ کسی بھی حکومتی کارروائی کی جانچ پڑتال میں اہم کردار ادا کرتی ہے جو ممکنہ طور پر بنیادی انسانی حقوق یا ذاتی آزادیوں کی خلاف ورزی کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ کو اختیارات کی علاحدگی کے اصول پر عمل کرنا چاہیے اور ’’لکشمن ریکھا‘‘ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’منتخب حکومتوں اور سیاسی ایگزیکٹو کو قانون کی حکمرانی پر مبنی جمہوریت میں عدلیہ کع آئینی طور پر دیے گئے کردار کو تسلیم کرنا اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔ اسی طرح عدلیہ کو بھی بین الانسٹی ٹیوشنل توازن کی آئینی لکشمن ریکھا کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے۔‘‘