اروناچل پردیش اور ناگالینڈ میں حد بندی کی مشق پر غور کیا جا رہا ہے، مرکز نے سپریم کورٹ کو بتایا

نئی دہلی، ستمبر 19: مرکز نے پیر کو سپریم کورٹ کو مطلع کیا کہ وہ اروناچل پردیش اور ناگالینڈ میں حد بندی کی مشق کرنے کے لیے کمیشن قائم کرنے پر غور کر رہا ہے۔

حد بندی کی مشق سے مراد اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کے ساتھ ساتھ شہری وارڈوں کی حدود کا تعین کرنا ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ منی پور، آسام، ناگالینڈ اور اروناچل پردیش میں حد بندی کی درخواست کی سماعت کر رہی تھی۔

سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کی طرف سے جاری نوٹس کا جواب دیا اور کہا کہ ’’واضح وجوہات‘‘ کی بنا پر حد بندی کا عمل منی پور میں تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔

شمال مشرقی ریاست 3 مئی سے کوکیوں اور میتیوں کے درمیان نسلی تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ تقریباً 60,000 افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ریاست میں عصمت دری اور قتل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں اور مرکزی سیکورٹی فورسز کی بھاری موجودگی کے باوجود ہجوم نے پولیس کے اسلحہ خانے کو لوٹ لیا اور کئی گھروں کو آگ لگا دی۔

پیر کی سماعت میں سپریم کورٹ نے مرکز سے کہا کہ وہ دو ہفتے بعد اس معاملے میں ہوئی پیش رفت کے بارے میں مطلع کرے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ اروناچل پردیش، منی پور اور ناگالینڈ میں گزشتہ 51 سالوں سے حد بندی کی مشق نہیں کی گئی ہے۔

گذشتہ ماہ الیکشن کمیشن نے آسام میں پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی حد بندی پر اپنا حتمی حکم نامہ جاری کیا تھا۔ پولنگ پینل نے اسمبلی سیٹوں کی کل تعداد 126 اور لوک سبھا کی 14 سیٹ بیںرقرار رکھیں۔

تاہم الیکشن کمیشن نے درج فہرست قبائل کے لیے مخصوص حلقوں کی تعداد 16 سے بڑھا کر 19 کر دی ہے اور درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد 8 سے بڑھا کر 9 کر دی ہے۔ ایک لوک سبھا حلقہ اور 19 اسمبلی حلقوں کے نام بھی تبدیل کیے گئے ہیں۔

تاہم اپوزیشن نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے سے آسام اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کم ہو سکتی ہے، جس سے ریاست میں مسلم کمیونٹی مزید پس ماندہ ہو سکتی ہے۔