مرکز چین کو لداخ میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتا، لیکن مجھے کارگل میں جانے کی اجازت نہیں دے گا: عمرعبداللہ

نئی دہلی، نومبر 1: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے پیر کو دعویٰ کیا کہ لداخ انتظامیہ نے انھیں کارگل میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔

عمر نے کارگل شہر کے قریب دراس قصبے میں اپنے حامیوں سے کہا ’’انھوں نے مجھے یہاں نہ آنے کے لیے کہا۔ وہاں [مشرقی لداخ] میں چین آیا ہے، آپ انھیں نہیں روک سکے، آپ انھیں واپس نہیں بھیج سکے۔ ہم صرف دراس کے راستے سری نگر سے کارگل جا رہے ہیں۔ ہم یہاں شہر پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں آئے تھے۔‘‘

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انھیں کارکنوں کی میٹنگ میں مائیکروفون استعمال کرنے اور دراس میں ڈاک بنگلہ استعمال کرنے سے بھی روک دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ میں چھ سال تک جموں و کشمیر کا وزیر اعلیٰ رہا ہوں، لیکن میں ان کے بعض فیصلوں کو سمجھنے میں ناکام ہوں۔ میں صرف ڈاک بنگلے کو تازہ دم ہونے کے لیے استعمال کرتا۔‘‘

عبد اللہ نے دی ہندو کو بتایا کہ مقامی سب ڈویژنل مجسٹریٹ ان کی ٹیم کی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے تھے۔

انھوں نے کہا ’’یہ ظاہر کرتا ہے کہ انتظامیہ جموں و کشمیر کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے اپنے فیصلے کے بارے میں کتنی متزلزل ہے۔ ہمارے پاس کسی عوامی اجتماع یا جلوس کا کوئی منصوبہ نہیں تھا اور پھر بھی وہ مائیک چھیننے جیسی چھوٹی موٹی حرکتوں کا سہارا لیتے ہیں۔‘‘

عبداللہ نے سوال کیا کہ مرکز نے کارگل اور لیہہ کے شہریوں کے مطالبات کا حوالہ دے کر 5 اگست 2019 کے اپنے فیصلوں کو درست قرار دیا تھا تو پھر حکومت ان کے ذریعے انھیں علاقوں کا دورہ کرنے سے کیوں ڈر رہی ہے؟

لداخ کو 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر سے الگ کر دیا گیا تھا، جب مرکز نے دفعہ 370 کے تحت سابقہ ​​ریاست کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔

نیشنل کانفرنس کے رہنما نے یہ بھی کہا کہ حکومت سرحدیں کھینچ کر جموں و کشمیر اور لداخ کے باشندوں کے درمیان صدیوں پرانے تعلقات کو نہیں توڑ سکتی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارے تعلقات بہت مضبوط ہیں اور یہ جعلی لائنیں اسے کمزور نہیں کر سکتیں۔ ہم آپ کے درد کو محسوس کر سکتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ آپ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘‘