ججوں کی تقرری کا کالجیم نظام ’لاء آف دی لینڈ‘ ہے اور اس پر عمل کیا جانا چاہیے، سپریم کورٹ نے مرکز سے کہا

نئی دہلی، دسمبر 8: سپریم کورٹ نے جمعرات کو مرکز سے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا کالجیم نظام لاء آف دی لینڈ ہےاور اس پر عمل کیا جانا چاہیے۔

جسٹس ایس کے کول کی زیرقیادت بنچ نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی سے کہا کہ ’’معاشرے میں ایسے طبقات ہیں جو پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین سے متفق نہیں ہیں۔ کیا عدالت کو اس بنیاد پر ایسے قوانین کو نافذ کرنا بند کر دینا چاہیے؟ اگر معاشرے میں ہر کوئی یہ طے کر لے کہ کس قانون پر عمل کرنا ہے اور کس قانون پر عمل نہیں کرنا ہے تو خرابی پیدا ہو گی۔‘‘

بنچ کے یہ ریمارکس اس کے ایک دن بعد آئے ہیں جب نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکھر نے راجیہ سبھا میں 2015 میں نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ کو ختم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔

اس قانون میں چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز، وزیر قانون، چیف جسٹس،

وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے ذریعے نامزد کردہ دو دیگر نامور افراد پر مشتمل ایک باڈی کے ذریعے عدالتی تقرریاں کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

مجوزہ قانون کالجیم نظام کو تبدیل کرنا تھا، جس کے تحت سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین جج بشمول چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرریوں اور تبادلوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔

بنچ کے تبصرے ججوں کی تقرری پر مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان نئے سرے سے پیدا ہونے والے تنازعہ کے درمیان آئے ہیں۔

مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے 26 نومبر کو نیوز چینل ٹائمز ناؤ سے کہا تھا کہ کالجیم نظام آئین کے مطابق نہیں ہے۔ اس کے دو دن بعد سپریم کورٹ نے اس بیان پر اعتراض کیا تھا۔

جسٹس ابھے ایس اوکا اور وکرم ناتھ پر مشتمل بنچ نے کہا ’’آپ کو انھیں مشورہ دینا ہوگا۔ اس عدالت کے ذریعہ اعلان کردہ کوئی بھی قانون تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے لازمی ہے۔‘‘

بنچ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مرکز نے حال ہی میں 19 ناموں کو واپس بھیج دیا ہے، جن میں سے 10 نام سپریم کورٹ کے کالجیم کے ذریعہ دہرائے گئے ہیں۔

بنچ نے کہا ’’بعض اوقات ناموں کو تیزی سے منظوری دی جاتی ہے اور کچھ کو مہینوں تک زیر التوا رکھا جاتا ہے۔ یہ پنگ پونگ جنگ کب تک چلے گی؟‘‘

بنچ نے مزید کہا ’’ہم اٹارنی جنرل سے توقع کرتے ہیں کہ وہ قانونی پوزیشن کے بارے میں حکومت کو مشورہ دینے میں سینئر ترین لاء آفیسر کا کردار ادا کریں گے۔‘‘