کوئلے کی قلت ۔ بجلی کی مصیبت
مسئلے کی جلد یکسوئی ضروری۔جولائی۔ اگست میں توانائی بحران کا اندیشہ
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
جنوب مغربی مانسون کے جلد آجانے سے جھلسا دینے والی بے تحاشہ گرمی کی تپش سے ملک بھر کے لوگوں کو راحت ضرور ملی ہے جو خوش آئند ہے۔ مگر بارش کا پانی تو کوئلہ کے کانوں کو بھر دے گا اور جہاں کوئلہ کا ذخیر ہے وہ بھی نشیبی سطح پر ہے۔ اس لیے جولائی۔ اگست میں لوگوں کو توانائی بحران (Power Crisis) کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جو ڈیٹا سامنے آیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ برقی، توانائی کی طلب کو بری طرح متاثر کرے گی۔ اس لیے پیشگی کوئلے کا انتظام ضرور ہی کرنا ہوگا۔ دی سنٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایر (CREA) کی رپورٹ کے مطابق فی الوقت کوئلہ کا ذخیرہ 13.5ملین ٹن (MT) پاور اسٹیشنوں کے پاس ہے۔ جب کہ ملک بھر کے تمام پاور اسٹیشنوں کے لیے کوئلہ کی ضرورت 20.7ملین ٹن ہے۔ سنٹرل اتھاریٹی آف انڈیا (CEA) نے کہا کہ اگست میں 214GWتوانائی کی ضرورت ہوگی ۔ مانسون کے آنے سے کھدائی اور کوئلے کی حمل و نقل بری طرح متاثر ہوسکتی ہے کوئلہ کے ذخیرہ کا مناسب مقدار میں پہلے ہی انتظام نہیں کیا گیا تو ملک کو جولائی۔ اگست میں توانائی کے دوسرے بحران کو جھیلنا پڑے گا۔ سی آر ای ای نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ ہم نے اپریل میں اس بحران پر قابو پایا اب تو توانائی کی قلت پر سر پر ہے۔
کوئلے کی قلت سے نمٹنے کے لیے اب حکومت ان کمپنیوں کے ساتھ سختی کرنے کی تیاری میں ہے جو کوئلہ کی پیداوار کے لیے سمجھوتوں کے شرائط کوپورا کرنے میں تاخیر کررہی ہیں۔ دراصل حکومت نے ملک میں کوئلہ کی پیداوار میں اضافہ کے لیے کوئلہ بلاک کی سپلائی کو مہمیز دیا ہے ۔ وزارت کوئلہ نے بتایا ہے کہ کئی کوئلہ بلاکوں میں آپریشن منصوبہ سے پیچھے چل رہا ہے۔ این ٹی پی سی جے ایس ڈبلیو اسٹیل، ویدانتا، ہینڈالکو اور نالکو کے ساتھ 16کمپنیوں کو کوئلہ بلاک کے آپریشن میں تاخیر کے لیے وجہ بتاو نوٹس جاری کی گئی ہے۔ وزار ت کوئلہ نے کہا ہے کہ جانچ کمیٹی نے اپنی 17ویں نشست میں 24کوئلہ کانوں کے معاملوں کا محاسبہ کیا ہے۔ کمیٹی نے 22کوئلہ بلاک کے لیے 16کمپنیوں کو وجہ بتاو نوٹس جاری کردی ہے۔ این ٹی پی سی اور ویدانتا کو تین تین بلاکوں کی پیداوار میں تاخیر کے لیے نوٹسیں جاری کی گئ ہیں جبکہ برلا کارپ لمیٹیڈ اور کرناٹک پاور کارپوریشن لمیٹیڈ کو دو دو بلاک کے لیے وجہ بتاو نوٹس دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کمپنیوں کو بھی نوٹسیں جاری کی گئی ہیں ان میں دامودر گھاٹی نگم ۔ ویسٹ بنگال پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن۔ ٹی ایس اسپاٹ لمیٹیڈ اور سن فلیگ آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی لمیٹیڈ شامل ہیں۔ کوئلہ کی قلت سے بچنے کے لیے حکومت گھریلو پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ درآمدات بڑھانے پر بھی غور کررہی ہے۔ منصوبہ کے مطابق حکومت نے کول انڈیا کو آئندہ سال جولائی تک 12کروڑ ٹن کوئلہ درآمد کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کول انڈیا 2015کے بعد پہلی بار کوئلہ درآمد کرے گی۔ صنعتی ماہرین کے مطابق حکومت کوئلے کے فقدان کی وجہ سے اپریل میں ہونے والی بجلی کی قلت سے بچنے کے لیے ایندھن کا ذخیرہ تیار کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کررہی ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ مانسون کے فوری بعد اکتوبر میں کوئلہ کی قلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ویسے کول انڈیا لمیٹیڈ (CIL) نے جاریہ مالی سال کے ابتدائی دو ماہ میں 10.82کروڑ ٹن کوئلہ کی پیداور کی سالانہ بنیاد پر اس میں 28.8فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ کمپنی نے اس سے قبل گزشتہ مالی سال اپریل۔ مئی کی مدت میں 8.4کروڑ ٹن کوئلہ کی پیداوار کی تھی۔ ریگولر نوٹس کے مطابق کمپنی کی پیداوار مئی 2022میں بڑھ کر 5.47کروڑ ٹن ہوگئی ۔ ایک سال قبل اسی ماہ میں یہ 4.21کروڑ ٹن تھی۔ کول انڈیا نے کہا ’’اپنی پیداوار میں تیزی لاتے ہوئے کمپنی نے مئی 2022میں 30فیصد کا اضافہ کیا ہے ۔ اس مدت میں سالانہ بنیاد پر 1.26کروڑ ٹن زیادہ کوئلہ کی پیداوار ہوئی اور اس کے علاوہ سی آئی ایل نے گزشتہ ماہ شعبہ بجلی کو 5.24کروڑ ٹن کوئلہ کی سپلائی کی۔ مئی 2021میں یہ 4.45کروڑ ٹن تھا۔ ایک اعلامیہ میں کہا گیا کہ سی آئی ایل نے مئی 2022میں شعبہ بجلی کے پاور پلانٹس کو یومیہ 16.9لاکھ ٹن کے اوسط سے کوئلہ سپلائی کیا جو 16.6لاکھ کوئلہ کی طلب سے زیادہ ہے۔ اس سے مئی میں برقی پلانٹس میں کوئلے کا ذخیرہ بڑھ کر 16000ٹن یومیہ ہوگیا ہے۔
مئی 2022کو ہی بجلی وزارت نے بجلی قانون کے آرٹیکل11کو نافذ کرتے ہوئے ملک کے سبھی پاور پلانٹس کو کل کوئلہ کی کھپت میں 10فیصد باہر سے درآمد کرنے کا نشانہ دیا تھا اس کے بعد وزارت بجلی نے سبھی ریاستوں کو خطوط لکھ کر مئی 2022کے اخیر تک ضروری کوئلہ کا آرڈر کرنے کا حکم دیا ہے۔ مگر ریاستوں نے مرکز کی طرف سے جاری کردہ خطوط پر کوئی خاص دھیان نہیں دیا۔ مہاراشٹرا اور اترپردیش جیسی ریاستوں میں کہا جاتا ہے کہ جاری کردہ خطوط پر کوئی خاص دھیان نہیں دیا۔ ان ریاستوں میں درآمداتی کوئلہ ابھی بھی گھریلو کوئلے سے 4تا5 گنا مہنگا ہے۔ ریاستوں کے اس رویے کو دیکھ کر ہی وزارت بجلی نے مجبور ہوکر کول انڈیا کو ہی غیر ممالک سے کوئلہ درآمد کرنے کا آرڈر دیا ہے۔ گزشتہ چند دنوں کا ریکارڈ دیکھیں تو حرارت، گیس، ڈیزل، پن بجلی اور قابل جدید توانائی ملا کر 1.95-198 لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا ہورہی ہے جو موجودہ طلب کے حساب سے مناسب ہے۔ طلب بڑھنے پر 2.08لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ جولائی ۔ اگست میں بجلی کی طلب 2.2لاکھ میگا واوٹ تک پہنچنے کی توقع ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب جب ملک میں کوئلے کی قلت کی وجہ سے بجلی کی مصیبت آتی ہے توحکومت کے اندر گیس سے چلنے والے پلانٹس کو پرچہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں مگر کوئلہ کی سپلائی میں اصلاح ہوتے ہی پھر سے ان پلانٹس کو ٹھنڈے بستے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ تقریباً 18ہزار میگا واٹ صلاحیت کی گیس والی بجلی منصوبے گیس کی کمی سے کام نہیں کررہے ہیں۔ انہیں بھرپور گیس دینے کے لیے حکومت نے کئی اقدامات کیےمگر سب ضائع ہوئے۔ ایسے میں آخری امید کے جی بیسن سے نکلنے والی گیس پر ہے۔ اندازہ ہے کہ 2024کے وسط تک کے جی بیسن سے نکلنے والی گیس کی پیداوار دوگنا ہوسکتی ہے جس سے کئی پاور پلانٹس کو گیس سپلائی بڑھ جائے گی۔ یہ اضافی گیس کی مقدار بھی ان بند پڑے ہوئے گیس پاور پلانٹس کے لیے کافی نہیں ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ نجی شعبہ کی ریلائنس انرجی اور سرکاری شعبہ کی این جی سی دونوں نے کہا ہے کہ ایک سال کے اندر ہی ان کی پیداور میں اضافہ ہوجائے گااور 2023-24میں پیداوار بلندی پر ہوگی۔
***
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب جب ملک میں کوئلے کی قلت کی وجہ سے بجلی کی مصیبت آتی ہے توحکومت کے اندر گیس سے چلنے والے پلانٹس کو پرچہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں مگر کوئلہ کی سپلائی میں اصلاح ہوتے ہی پھر سے ان پلانٹس کو ٹھنڈے بستے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ تقریباً 18ہزار میگا واٹ صلاحیت کی گیس والی بجلی منصوبے گیس کی کمی سے کام نہیں کررہے ہیں۔ انہیں بھرپور گیس دینے کے لیے حکومت نے کئی اقدامات کیےمگر سب ضائع ہوئے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 جون تا 25 جون 2022