مذہبی تبدیلی کے الزام میں عیسائی پادری اور اس کی بیوی کو غازی آباد میں گرفتار کیا گیا

نئی دہلی، فروری 28: اتوار کو غازی آباد میں ایک پادری اور اس کی بیوی کو مبینہ طور پر رہائشیوں کو عیسائی بنانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

پادری سنتوش جان اور ان کی اہلیہ جیجی کو ہندوتوا گروپ بجرنگ دل کے ارکان کی طرف سے درج کردہ شکایات کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔

تاہم جان اور ان کی اہلیہ کی مدد کرنے والی ایک عیسائی کارکن میناکشی سنگھ نے ان الزامات کی تردید کی۔

سنگھ نے دعویٰ کیا کہ پادری اور ان کی اہلیہ اتوار کو ایک سماجی خدمت کر رہے تھے جب ’’غنڈوں کے ہجوم نے دخل اندازی کی اور مذہبی تبدیلی کے الزامات لگائے۔‘‘

سنگھ نے کہا کہ ہجوم نے پولیس کو بلایا جو پادری اور ان کی بیوی کو تھانے لے گئی لیکن پوچھ گچھ کے بعد انھیں چھوڑ دیا گیا۔

سنگھ نے مزید کہا کہ پولیس نے دوبارہ جان اور جی جی کو حراست میں لے لیا جب تقریباً 40-50 آدمیوں کے ہجوم نے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن پر احتجاج کیا۔

کارکن نے کہا ’’پولیس غنڈوں کے دباؤ میں آگئی اس لیے انھوں نے انھیں دوبارہ اٹھایا۔ ان کے فون اور لیپ ٹاپ بھی قبضے میں لے لیے گئے۔‘‘

تاہم اسکرول کی خبر کے مطابق ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ جوڑے کے خلاف کارروائی ’’مناسب ثبوت‘‘ کی بنیاد پر کی گئی ہے اور ان الزامات کی تردید کی کہ محکمہ ہجوم کے دباؤ میں تھا۔

پہلی معلوماتی رپورٹ غازی آباد کے رہائشی پروین نگر کی شکایت پر جوڑے کے خلاف درج کی گئی تھی۔ ان کے خلاف اتر پردیش انسداد غیر قانونی مذہبی تبدیلی آرڈیننس 2020 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اپنی شکایت میں ناگر نے الزام لگایا ہے کہ جان اور ان کی اہلیہ ’’کالونی کے کچھ غریب اور لاچار لوگوں کو لالچ دے کر اپنا مذہب تبدیل کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر کے ایک منظم طریقے سے مذہب کی تبدیلی کا کام کر رہے ہیں۔‘‘

اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ملزم پادری نے اسے اور ایک دوسرے شخص کو رقم کی پیشکش کی تھی۔

سنگھ کے مطابق اتوار کی رات تقریباً 9.30 بجے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پیر کو پادری اور ان کی اہلیہ کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، جس نے ان کی ضمانت مسترد کر دی۔