نبی کریم اور حضرت عائشہ کے کردار پر حملہ کی روایت

تحقیق تو ہوتی رہے گی، شر پسندوں کے ایجنڈے کو سمجھیے

ایاز احمد اصلاحی، لکھنؤ

ایودھیا کی شہید و مدفون بابری مسجد سے شروع ہوا سلسلہ گیان واپی مسجد اور اس کے بعد ایک فرضی غیر مصدقہ شیولنگ کی کہانی تک اور وہاں سے توہین رسالت تک پہنچ گیاہے۔ یہ نفرت کی ایک منصوبہ بند سنامی ہے جس کا مرکز فسطائیت کا داعی ہندوتو ہے اور جس کا اولین ہدف بھارتی مسلمان اور ان کا دین ہے۔ کہانی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد میں دیگر فریق کے سروے کنندگان کے ذریعے مسجد کے فوارے میں لگے ایک پتھر کو شیولنگ بتا کر پیش کیا گیا تو وہاں کی مقامی عدالت نے بغیر کچھ دیکھے اور سمجھے آناً فاناً پہلی بار وہاں نمازیوں پر پابندیاں لگانے اور پتھر کی جگہ کو گھیرنے کا حکم جاری کرکے ہندوتو ٹولیوں کی خواہش کے عین مطابق اسے بھی بابری مسجد کے انجام کی طرف ڈھکیل دیا۔ ان حادثوں کی تہ میں اترنے پر یہ تسلیم کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اب بھی ان غیر جمہوری، غیر قانونی اور غیر انسانی واقعات کا مرکز ہندوتو ہے اور اس کا ہدف پہلے ہی کی طرح بھارتی مسلمان ہے۔ البتہ تمام بدلتی تصویروں کا اشارہ یہی ہے کہ ہندوتو کی یہ دوسری لہر ملک کو اس سے بھی زیادہ بد تر حالات کی طرف لے جائے گی جس کا مشاہدہ ہم نے 1992 اور 2020 کے درمیان کیا ہے اور جسے اہل بصیرت نے 1942 میں ہی ’’وطنی استعمار‘‘ اور ’’برہمنی استعمار‘‘ کا نام دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ہندوتو پہلے سے زیادہ طاقت اور اثر کے ساتھ اقتدار پر قابض ہے اور دوسری طرف کا حال یہ ہے کہ نہ تو مسلم دشمن ہندوتو کی ترجیحات میں کوئی فرق آیا ہے اور نہ ہی مسلم قیادت نے ہوش کے ناخون لیے ہیں۔ حالانکہ نازک حالات کا مقابلہ وہی قومیں کرپاتی ہیں جو آزمائشوں سے نکھرتی ہیں اور خود کو اس درجہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوتی ہیں جہاں ’’ملت‘‘ فروشوں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہتی اور نا اہلوں سے قیادت چھین لی جاتی ہے۔
نوپورشرما اور اور نوین جندل کے ذریعہ رسول کی شان میں گستاخی کے حالیہ واقعے نے دنیا کے سامنے ایک بار پھر بھارت کی ملت اسلامیہ کی خوبیاں اور خرابیاں اجاگر کردی ہیں۔ اس بار جہاں عوام نے نتائج اور بلڈوزری استعمار کی دھمکیوں سے بے پروا ہوکر باطل کو کڑی ٹکر دی ہے وہیں ان کے رہنمائوں اور دانشوروں کی ایک تعداد حضرت عائشہ کی نکاحی عمر طے کرنے میں اب تک لگی ہے اور اپنے اس عمل سے بزعم خویش ان لوگوں کو مطمئن اور راضی کرنے کا سامان کر رہی ہے جن کی مسلم دشمنی دلائل کی نہیں بلکہ نفرت و عناد کی پروردہ ہے۔ عقل کا مارا اور تحقیق بےجا کا مریض یہ گروہ اپنے اس رویے یا الٹی چال سے کتنی مہلک غلطی کر رہا ہے،آگے کا تجزیہ اسی پر مبنی ہے۔
سب سے پہلے یہ یاد رکھیے کہ اس دنیا میں ہر کام کا ایک موقع و محل ہوتا ہے۔
تحقیق کے وقت تحقیق کی جاتی ہے اور مزاحمت (انکار طاغوت) کے وقت صرف مزاحمت کی جاتی ہے۔ کشمکش کے دوران تحقیق کی پوتھیوں کی مدد سے زاویے طے کرنا ایسا ہی ہے جیسے دوران جنگ جنگی اسکیم پر مشاورت کرنا اور دشمن کو سیدھا وار کرنے کا موقع دیتے رہنا۔
آخر اس سے بڑی حماقت کیا ہوگی کہ جب وقت مقابلے اور اقدام کا ہوتا ہے تو ہمارے کچھ لوگ اکثر باطل کے اکسانے پر داد تحقیق دینے لگتے ہیں جب کہ خود باطل ہماری جڑیں کھودنے میں مصروف رہتا ہے۔ باطل جب طلاق اور حجاب کے بہانے براہ راست ہماری شریعت میں مداخلت کرتا ہے تو کوئی قلم سنبھال کر تو کوئی یو ٹیوب پر بیٹھ کر مصروف تحقیق ہوجاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس سے دشمن مزید حملے اور مداخلت سے باز آجائے گا۔ انہیں اپنی اس خدمت سے یہ غلط فہمی بھی رہتی ہے کہ گویا مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ظلم و زیادتی کا سب سے بڑا حل یہی ہے جو وہ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں۔ بے چارہ عام مسلمان کیا کرے ، وہ بھی کاپی پیسٹ اور فارورڈ کرنے میں اس وقت تک مشغول رہتا ہے جب تک کوئی نیا مسئلہ اسے موضوع بدلنے پر مجبور نہ کردے۔
تحقیق کے جواب میں تحقیق، معقول سوال کا معقول جواب اور کسی انسان کو مطمئن کرنے کے لیے حقیقت کی تلاش ایک مہذب اور سنجیدہ معاشرے کی پہچان ہے، یہ تدبیر اور طرز عمل یقینا بہتر اور قابل تعریف ہے، لیکن اس کی ضرورت اس وقت سامنے آتی ہے جب آپ کے کسی نظریے یا اس کے کسی پہلو پر اعتراض ( نہ کہ حملہ) کرنے والا شخص سچ میں اپنی نیت میں صاف ہو اور اس کے اعتراض کا مقصد بس افہام و تفہیم ہو، الزام تراشی یا ایک مخصوص فرقے کے دین کے خلاف مذموم پروپیگنڈا اس کا ہدف نہ ہو۔ اس کے برعکس اگر اس کی حرکتوں کا مقصد محض لوگوں کے سامنے دین حق کی تصویر بگاڑنا اور اسے بدنام کرنا ہو تو بجائے اس کے ہم اس کا جواب دینے کے اقلیدسی تحقیق پیش کریں اس کو لاجواب کرنا اور اس کے سد باب کے لیے مناسب اقدام کرنا زیادہ اہم اور ضروری ہوجاتا ہے۔
اب اسی پر بی جے پی کے سابق لیڈران، نوپور شرما اور نوین جندل کے ذریعہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہذیان بکنے کی موجودہ مثالوں کو قیاس کرلیں جس نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو سراپا احتجاج بنا دیا اور ان کی بیہودہ گوئی کے خلاف عالم اسلام کے شدید رد عمل اور سخت احتجاج کے نتیجے میں پہلی بار بی جے پی کو اپنے رہنمائوں کے خلاف کاروائی کرنی پڑی۔ اب ذرا سوچیے اور خوب غور و خوض کے بعد بتائیے کہ کیا ان دونوں مسلم مخالف افراد نے محض جستجو یا تحقیق کی نیت سے یہ سوال اٹھایا تھا کہ حضور کا نکاح حضرت عائشہ سے اتنی کم سنی میں کیوں ہوا تھا؟ یا پھر اس میدان کے ماہرین کے سامنے نبی کرم کے تعلق سے اپنی معلومات کو انہوں نے اس غرض سے پیش کیا تھا کہ سچ کا پتہ چلے، بات غلط ہو تو اسے درست کرلیا جائے اور صحیح ہو تو اس کی اصل وجہ معلوم کی جائے؟ یا پھر غرض وہ تھی جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے یعنی اسلام کے خلاف اپنی خباثتوں کا مظاہرہ اور بغرض عناد اس ذات پر کیچڑ اچھالنا جس کے اخلاق و کردار کی گواہی خود اس کے رب نے یہ کہہ کر دی ہے کہ ’’بے شک تم ایک عظیم کردار کے حامل ہو‘‘۔ سوال یہ ہے کہ رسول کریم کے خلاف ان بدبختوں کے بیانات کا منشا بحث وجستجو یا ایک تاریخی مسئلے کے تعلق سے اپنی رائے کا اظہار تھا یا ایک خاص دین اور اللہ کے نبی کو مذموم مقاصد کے لیے نشانہ بنانا؟ ۔۔۔ ظاہر ہے یہ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ ان دونوں کے گھٹیا اور خبیث ریمارکس کے پیچھے کوئی مثبت مقصد ہر گز نہیں تھا اور نہ ہی ان کا گستاخانہ لہجہ ایک مثبت سوچ اور مثبت مقصد سے ہم آہنگ تھا ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحافت و سفارت اور سیاست کے متعدد ماہرین و مبصرین نے اسے ’’ہتک آمیز تبصرہ‘‘ یا ایک ’’انتہائی اشتعال انگیز حرکت‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ خود شدید مخالفتوں اور اپنی پارٹی سے معطلی کے بعد نوپور شرما نے جو وضاحتی بیان جاری کیا ہے وہ بھی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ ایک ٹی وی چینل پر مباحثے کے دوران نبی رحمت کے خلاف اس کے مذموم تبصرے کا مقصد اسلام و اور پیغمبر اسلام کی ذات کو نشانہ بنانے اور بدلہ لینے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔ واضح ہوا کہ مدعا یہ نہیں ہے کہ حضرت عائشہ سے شادی کے وقت آپ کی عمر کیا تھی، اس پر تو خود مسلم علماء و فقہاء کے درمیان مباحثے ہوتے رہے ہیں، کوئی صحیح بخاری اور دیگر مآخذ حدیث کی روایات کی صحت و استناد کو روایتاً اور درایتاً پوری طرح قابل قبول مانتے ہوئے یہ رائے رکھتا ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر ۶ اور رخصتی کے وقت ۹ سال تھی اور یہ اس زمانے کے لحاظ سے کوئی معیوب بات نہیں تھی، جب کہ بعض دوسرے ماہرین سیرت و تاریخ اس کے برخلاف رائے کے حامل ہیں اور وہ تاریخی دلائل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ نکاح کے وقت ام المومینین کی عمر اتنی کم نہیں تھی۔
ظاہر ہے جب سیرت نبوی کے ایک واقعے کے تعلق سے خود مسلمانوں میں دو رائیں ہیں اور اس سے ذات رسول پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر عام حالات میں ایک غیر مسلم رہنما کی طرف سے اسی مسئلے میں اپنی رائے کے اظہار پر مسلمان کیوں ناراض ہوں گے، لیکن اگر وہ ناراض ہیں تو ان کی ناراضگی کی وجہ جاننا بھی ضروری ہے۔ دراصل اخلاق نبوی پر بی جے پی لیڈروں کے قابل اعتراض بیانات کے خلاف ان کی ناراضگی اور عالمی احتجاج کی وجہ محض اظہار رائے نہیں بلکہ کچھ اور ہے اور وہ ہے جانتے بوجھتے دن دھاڑے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے خلاف گستاخی کرکے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کرنا۔ یہ ایک جرم ہے جو مجرم کی سزا کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ ایک نئی تحقیق کا، یہ ایک ایسا گناہ ہے جس میں اگر مگر لگا کر صرف معافی مانگ لینا کافی نہیں ہے بلکہ سماج کو اس گناہ کے چھوت سے بچانے کے لیے گنہگار کو اس کے کیے کی سزاملنا بھی لازمی ہے جس کے لیے عدالت کے سامنے ان حقایق کو رکھنا اور آئینی طریق سے مقدس شخصیات کی بے ادبی کے قصورواروں کو قرار واقعی سزا دلوانا خود حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ سوال پھر دہرا رہا ہوں کہ کیا کسی تاریخی واقعے کے حوالے سے ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ذات رسول کے خلاف گستاخی کرتا پھرے، کروڑوں مسلمانوں کا دل ٹوٹے اور ہم اسے صرف معافی اور تحقیق کا موضوع بنا کر اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کریں، یا اظہار رائے کی آزادی اور مصلحت کے نام پر شہری خاموش رہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہر اسلام دشمن رہنما کو یہ اجازت ہے کہ وہ اپنی گندی زبان ذات رسول پر گندگی اچھالنے کے لیے استعمال کرے اور ہر بار صرف مسلمانوں کو اپنا دل بڑا کرنے کا مشور دیا جائے، وہ تو اپنا دل بڑا کرلیں اور اس ملک میں بارہا کیا بھی ہے لیکن ان چھوٹے دل والوں کا کیا ہوگا جو ان کے دلوں کو ہر دن ایک نیا زخم لگانے کا منصوبہ لے کر بیٹھے ہیں؟
ظاہر ہے اگر کسی کی کوئی غلط حرکت بغض و عناد کی پیداوار ہو، نہ کہ طلب حق کی، تو اس کے خلاف ہمارا رویہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے جو مستقبل میں اس پر قدغن لگانے میں مدد کرے اور جس سے اچھی طرح یہ پیغام جائے کہ ہماری طرف سے اسلام اور نبی اکرم کے تعلق سے دشمنان اسلام کے لیے سرخ لکیر کہاں سے شروع ہوتی ہے جسے پار کرنے کی اجازت نہ تو کسی فرد کو ہے اور نہ ہی دنیا کی کسی سرکار کو۔ لاکھوں انسانوں کا احاطہ کرنے والا ’’إلا رسول الله یا مودی‘‘ والےہیش ٹیگ کا احتجاجی ٹویٹ اور اس کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں کا اصل پیغام یہی ہے۔ بے شک یہ رویہ وہ ہے جو فسطائی کیڑوں کی خوش فہمیاں دور کرنے والا اور ہر گستاخ رسول کے لیے باعث عبرت ہو سکتا ہے۔۔
مگر اس کی بجائے ہر ایسے موقع پر درست عمر کی تحقیق کا دفتر لےکر بیٹھ جانا بالکل عقل مندی نہیں کہی جائے گی۔۔۔ ایک بار پھر یاد رکھیے تحقیق ہمیشہ تحقیق کے جواب میں کارآمد ہوتی ہے، لیکن جن حرکتوں کے خلاف سخت موقف کی ضرورت ہو وہاں اسی پر اپنی قوت صرف کرنی چاہیے۔ خود عہدنبوت میں کفار و مشرکین کی جانب سے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم پربہت سے ایسے اعتراضات کیے گئے جن کا قرآن میں ذکر ہے۔ ان اعتراضات میں جو واقعتا سنجیدہ اور جواب کے لائق تھے ان کا قرآن مجید نے انتہائی عقلی اور منطقی جواب دیا ہے، جیسے اشہر حرم میں جنگ کا مسئلہ یا سود کا مسئلہ۔ لیکن جن اعتراضات کا مقصد محض ذات رسول کو نشانہ بنانا اور اپ کی رسالت کا استہزا تھا اس کا جواب دینے کی بجائے شرارتی عناصر کو جواباً سخت تنبیہات کی گئیں اور انہیں ان کی حرکتوں کے خطرناک منطقی نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے، جیسے ان کی طرف سے وحی الہی کو سحر کہنا، یا نبی کریم کو ساحر، یا کاہن یا شاعر یا مجنون قرار دینا۔ ان الزامات کو اہمیت دینے کی بجائے قرآن نے انہیں محض صاف طور سے مسترد کردینا کافی سمجھا، انہوں نے کہا یہ سحر یا شاعری ہے قرآن نے کہا یہ اللہ کا کلام ہے نہ کہ سحر یا شاعری، انہوں نے کہا یہ رسول نہیں بلکہ کوئی ساحر یا جادو گر ہے جو ایک جادوئی کلام گھڑ کر پیش کرتا ہے اور اسے کلام اللہ بتاتا ہے، قرآن نے جواب دیا، یہ تمہاری اپنی من گھڑت باتیں ہیں، محمد اللہ کے رسول ہیں نہ کہ ساحر یا شاعر، بلکہ یہ چیزیں تو اس کے شایان شان بھی نہیں ہیں۔ (سورہ یٰسین: ۶۹) انہوں نے کہا محمد تو مجنون ہیں اور یہ نیا دین بس ان کی اسی کیفیت کا نتیجہ ہے۔ اس کے جواب میں قرآن مجید میں ان کے سامنے رسول اللہ کی دماغی صحت کی تحقیقی دستاویز نہیں پیش کی گئی اور نہ ہی ان کے الزام کو اتنا بھی دوخور اعتنا سمجھا گیا کہ لوگوں کو نبی کے صحیح الدماغ ہونے پر بطور گواہ پیش کیا جاتا بلکہ اس الزامی افواہ کو ان کے منھ پر مارتے ہوئے جواب میں ان کے سامنے خود باطل کی تاریخ رکھ دی گئی کہ باطل اہل حق کو ہر دور میں ایسی ہی تہمتوں کا نشانہ بنا کر حق کو بدنما کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ دیکھیے:الذاريات (۵۲، ،الطور، ۲۹ القمر ۹، القلم ۲)
اس قسم کی آیات میں اہل ایمان کے لیے بھی ایک دائمی نصیحت ہے کہ وہ باطل کی ہر خرافات کو سنجیدگی سے نہ لیں اور نہ ہی اس کے پیچھے اپنی صحت خراب کریں کیوں کہ یہ ان کا ایک پرانا حربہ ہے اور اس حربے کو کند کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم ان کی حقیقت پہلے ان پر اور پھر دوسروں پر پوری طرح آشکار کریں۔
ایک جگہ حضرت محمد پر جنون کی تہمت لگانے پر ان کا جواب کچھ یوں دیا گیا ہے: ’’ تمہارے ساتھی کو کوئی جنون نہیں لگا ہے، وہ تو بس تمہیں اللہ کے سخت عذاب سے خبردار کرنے والا ہے‘‘ ۔ دیکھا آپ نے کہ کس طرح آپ کے تعلق سے مشرکین قریش کی ایک بے سروپا تہمت میں الجھنے کی بجائے انہیں آخرت کے برے انجام کی تنبیہ دینا (مستقبل کے حالات سے آگاہ کرنا) زیادہ ضروری سمجھا گیا۔
مزید دیکھیے، انہوں نے کہا محمد تو ایک معمولی اور بے حیثیت شخص ہیں جب کہ قرآن تو عرب کے کسی باوقار و سرکردہ و نمایاں (عظیم) شخص پر نازل ہونا چاہیے (الزخرف۳۰)۔ اس کا جواب دینے کی بجائے ان کے اس بیانیہ کو ان کے اندرونی بغض و حسد اور استکبار پر محمول کیا گیا اور اس کے پیچھے ان کی جو منفی ذہنیت کار فرما تھی اسے بہت اچھی طرح طشت از بام کیا گیا اور کہا گیا اللہ تعالی اپنے فیصلے کے مطابق جسے چاہتا ہے اپنی رحمت و فضل سے نوازتا ہے اور اس کے نزدیک اس فضیلت میں محمد سے بڑا اور ان سے زیادہ سزاوار کوئی نہیں ہے(الزخرف: ۲۹-۳۳)۔ قرآن کا انداز دیکھیے جو نہ صفائی دینے والا ہے اور نہ معذرت خواہانہ بلکہ مکمل اقدامی ہے، ایک آیت میں نبی کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ ان کی ہذیانی باتوں پر بالکل دھیان نہ دو ’’ تم اپنے رب کے فضل سے کسی جنون میں مبتلا نہیں ہو‘‘ ( ما انت بنعمة ربك بمجنون) اور اس کے بعد اسی سورہ میں وہ بات کہی گئی جو ان کی ساری اسلام مخالف افواہوں اور الزام تراشیوں کی ہوا نکالنے کے لیے کافی ہے’’ بے شک تم اخلاق و کردار کے عظیم مرتبے پر فائز ہو‘‘ (القلم: ۴)
یہی نہیں بلکہ اللہ تعالی نے خود نبی کو مخاطب کرکے ان کی عظمت کردار پر اپنی یہ دائمی گواہیاں بھی ثبت کردیں: ’’ و ما ارسلنٰک الا رحمة للعالمين ‘‘۔۔۔ یہی رویہ ان تمام لوگوں کے حق میں مناسب تر ہے جن کی باتوں کا مقصد محض اسلام اورپیغمبر اسلام کی کردار کشی ہو۔ لیکن مجھے لگتا ہے بھارت میں باطل کی تہمتوں کو لیکر ہمارے لوگوں کا رویہ اتنا دفاعی اور شرمناک حد تک معذرت خواہانہ ہے کہ اگر دور رسالت میں انہیں اسلام کی نمائندگی کا موقع ملتا تو وہ طبی حقائق کے حوالوں سے پورا زور یہ ثابت کرنے میں لگا دیتے کہ آپ ’’مجنون‘‘ نہیں ہیں اس لیے کہ تمام طبی حقائق نبی کی شخصیت میں موجود کسی ’’جنون‘‘ کی نفی کرتے ہیں۔ جہاں کچھ نہیں ثابت کر پاتے وہاں الٹا یہ سوال کر ڈالتے کہ اللہ تعالی نے کیوں نہیں فرشتوں کے ذریعہ ایک طبی سرٹیفکیٹ اتار کر صاف صاف یہ بتا دیا کہ آپ کو کوئی جنون لاحق نہیں ہے۔ یا پھر ان کا بس چلتا تو ’’ اسلام پر طعنہ زن گروہ کو مطمئن کرنے کے لیے قرآن سے مجنون کا لفظ ہی نکال دیتے۔ بہر حال اس دفاعی روش کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ کم فہم خیرخواہان اسلام کذب و فریب پر منحصر ہندوتو کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجائے ہر بار اسلام کو ہی ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں۔
اس غلط طرز دفاع یا دفاعی طریقہ جنگ کا نقصان یہ ہے کہ ہم اخلاق و کردار کے لحاظ سے کمزور ترین اور مذہب کے لحاظ سے گمراہ ترین دشمنوں کو بھی اپنے اوپر غالب آنے کا موقع دیتے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنا کیس خود ہی کمزور کر دیتے ہیں۔اس خطرناک کمزوری کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے یہ قائدین یا دانشور لوگ برسوں سے رونما ہورہے واقعات کے تسلسل میں موجود یکسانیت کو یا تو سمجھ نہیں پارپے ہیں یاجان بوجھ کر ظالم قوتوں پر تنقید سے بچنے کے لیے اس سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ چاہے تین طلاق کا معاملہ ہو، یا بابری مسجد کا، یا گیان واپی مسجد کا یا حجاب کا یا پھر بی جے پی کے نمائندوں کے ذریعہ نبی اکرم پر تہمت بازی کا تازہ واقعہ ہو، یہ تمام مسلم دشمن واقعات ہندوتو کی ایک ہی سوچ اور ایک خاص منصوبے کی پیداوار ہیں لیکن وہ ہر نئے واقعہ کے رونما ہونے کے بعد اپنی دفاعی دکان کھول کر اس کا تجزیہ اتنے معصوم انداز سے کرتے ہیں جیسے وہ بھارت ہی نہیں دنیا میں پہلی بار آنکھیں کھول کر آئے ہوں اور انہیں ان واقعات کے اسباب و عوامل کا کچھ پتہ نہ ہو۔ اس فہرست سے حامد انصاری، نصیرالدین شاہ اور تحریک اسلامی کو بمشکل مستثنٰی کردیں تو زیادہ تر بہی خواہان اسلام کا حال ایسا ہی ہے۔ ان سے بہتر تو کپل سبل اور پرشانت بھوشن جیسے ہندو رہنما ہیں جو اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ہندوتو کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور کھل کر یہ کہتے تو ہیں کہ نئے شہری قوانین سے لے کر اہانت رسول تک کے تمام شرمناک واقعات کی جڑ میں آر ایس ایس کی سیاہ سوچ کارفرما ہے اور جب تک یہ سوچ بھارت میں پھلتی پھولتی رہے گی یہاں کے مسلمانوں کو اسی طرح حاشیے سے لگایا جاتا رہے گا اور یہاں ہردن اسی طرح فرقہ پرستی اور ذہنی فساد کا طوفان اٹھتا رہے گا ۔ لیکن ہمارے معذرت خواہ احباب کا رویہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ یہ لوگ ہر واقعے کو ایک اولین و علاحدہ واقعے کی طرح دیکھتے ہیں اور جب مناسب اقدام کا وقت ہوتا ہے تو بڑی ہوشیاری سے قوم کو تحقیق کے میز پر بٹھا دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میری قوم کے یہ سادہ لوح لوگ نوپور شرما کے اہانت رسول والے بیان کے بعد ہندوتو کے مکروہ چہرے پر ضربیں لگانے کی بجائے حضرت عائشہ کی نکاحی عمر کی تحقیق میں نہ لگ جاتے اور مسلم عوام کو یہ تاثر دے کر گمراہ نہ کرتے کہ گویا ایک بار یہ مسئلہ حل ہوجائے تو کسی نوپور شرما، یا نوین جندل یا پُش پیندر کو قرآن مجید یا سیرت پاک کےکسی پہلو پر انگلی اٹھانے کی کبھی ہمت نہیں ہو گی۔
اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا
ان کی ایسی ہی حرکتوں سے یہاں فسطائیت دن بدن مضبوط ہورہی ہے اور بحیثیت ملت مسلمانوں کی قوت کمزور پڑ رہی ہے۔ رہی بات تحقیق کی تو اس کا نہ تو کوئی وقت ہے اور نہ میعاد، کرتے رہیے تحقیق، کس نے آپ کو روکا ہے؟ لیکن ایسا نہ ہو کہ ہم تحقیق کرتے رہ جائیں اور شر پسند ٹولیاں ہماری ہر مسجد سے اپنے فرقے کے مطابق کوئی نہ کوئی مذہبی علامت دھونڈ کر اور اسلام پر کوئی نہ کوئی الزام جڑ کر ہمیں ہمارے شعائر اور مذہبی آزادی دونوں سے بے دخل کرنے کا کام پورا کرتے رہے۔ اپنی قوم کے ہر فرد سے گذارش ہے کہ اگر سچ میں آپ سچ کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں اور آپ ایک خدا کی عبادت کے لیے قیام کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنا قبلہ درست کرلیں۔

 

***

 نوپورشرما اور اور نوین جندل کے ذریعہ رسول کی شان میں گستاخی کے حالیہ واقعے نے دنیا کے سامنے ایک بار پھر بھارت کی ملت اسلامیہ کی خوبیاں اور خرابیاں اجاگر کردی ہیں۔ اس بار جہاں عوام نے نتائج اور بلڈوزری استعمار کی دھمکیوں سے بے پروا ہوکر باطل کو کڑی ٹکر دی ہے وہیں ان کے رہنمائوں اور دانشوروں کی ایک تعداد حضرت عائشہ کی نکاحی عمر طے کرنے میں اب تک لگی ہے اور اپنے اس عمل سے بزعم خویش ان لوگوں کو مطمئن اور راضی کرنے کا سامان کر رہی ہے جن کی مسلم دشمنی دلائل کی نہیں بلکہ نفرت و عناد کی پروردہ ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022