بی جے پی نےکانگریس کو ہراکرکانگریسی کوکامیاب کر دیا

مخالفین کو توڑ کر اپنی پارٹی میں شامل کرنے سے بھگوا پارٹی کمزور ہورہی ہے

ڈاکٹر سلیم خان

شیو کمارکی بدولت کانگریس ہماچل پردیش میں اقتدار بچانے میں کامیاب لیکن جمہوریت پر شب خون کاخطرہ برقرار
گوتم گمبھیر اور جینت سنہا نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا!
27فروری کو ہماچل پردیش میں ایوانِ بالا کا انتخاب ہوا اور اس میں بی جے پی کے امیدوارہرش مہاجن نے کانگریس کے ابھیشک منو سنگھوی کو شکست دےدی ۔ اس طرح ریاست کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جب حکم راں جماعت کا امیدوار راجیہ سبھا کے رکن کے طورپر منتخب ہوکر دہلی نہیں جاسکا۔ بی جے پی کے امیدوار ہرش مہاجن کو جملہ 68میں سے 34ووٹ اور کانگریس کے امیدوار ابھیشیک منو سنگھوی کو بھی اتنے ہی ووٹ ملے مگر قرعہ اندازی نے کمل کا ساتھ دیا اور کانگریس ہاتھ ملتی رہ گئی۔ ہرش مہاجن کواس لیے کامیابی ملی کیونکہ 6؍ کانگریسی ارکان اسمبلی نے اپنی ہی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔ اس سے کانگریس کی طاقت 40سے گھٹ کر 34پر آگئی۔ بی جے پی نے 3 آزاد میدواروں کو پہلے ہی اپنے ساتھ کرلیا تھا اور ان 6؍ کانگریسیوں کے ساتھ آنے سے اس کے پاس بھی 34 ووٹ آگئے۔ان 6؍ باغیوں کے علاوہ ویر بھدر سنگھ کے بیٹے وکرمادتیہ سنگھ وزیر کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ دے کر اپنی ناراضی کا اظہار کرچکے تھے ۔ اس طرح بی جے پی کے ہاتھ حکومت گرانے کا نادر موقع آگیا۔
ایوان اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اور اس میں فائنانس بل کی منظوری باقی تھی۔ امیت شاہ اگر اپنے پتے ٹھیک سے کھیلتے تو ان کے لیے ہماچل پردیش کی حکومت گرانا دائیں ہاتھ کا کھیل تھا کیونکہ وکرمادتیہ کے جاتے ہی کانگریس33؍ پر آجاتی اور بی جے پی35؍ پر پہنچ جاتی۔ فائنانس بل کی نامنظوری تحریک عدم اعتماد کے مترادف مانی جاتی اور سکھو سرکار گرجاتی ۔ اس نازک موقع پر برطانیہ میں کیمبرج میں خطبہ دینے کے لیے پہنچے ہوئے راہل گاندھی نے شیوکمار کو یاد کیا۔ پانچ گھنٹے کا ہوائی سفر کرکے موصوف شملہ پہنچے تو بی جے پی ڈر گئی اور اس نے باغی کانگریسیوں کوہریانہ پولیس اور نیم سرکاری حفاظتی دستوں کی معیت میں پنچکولا روانہ کردیا۔ شیوکمار نے اس کا فائدہ اٹھاکر پارٹی وہپ کو سارے ارکان سے بجٹ اجلاس میں شریک ہونے کاحکم جاری کروا دیا۔ اب جولوگ ڈر کے مارے اجلاس میں نہیں آسکے انہیں اپنی اسمبلی کی رکنیت گنوانی پڑی اور ان کی حالت کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنا جیسی ہوگئی۔ کانگریس کے پاس اب بھی بی جے پی کے مقابلے میں نو ارکان زیادہ ہیں اس لیے اس کی حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ہماچل پردیش کے بحران سے نمٹنے کے لیے کانگریس نے ڈی کے شیوکمارکے ساتھ ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ بھوپندر ہڈا کوشملہ روانہ کیا۔ ان دونوں نے اپنے ارکانِ اسمبلی سے فرداً فرداً ملاقات کی اور انہیں اعتماد میں لیا۔ اس گفت و شنید کا نتیجہ یہ نکلا کہ صبح کو استعفیٰ دینے والے وکرمادتیہ نے شام کو اعلان کردیاکہ سرکار مستحکم ہے۔ اس طرح گویا صبح کا ناراض بھولا شام کو گھوم پھر کے گھر لوٹ آیا ۔ اس کے بعد پارٹی کے وہپ نے ارکان اسمبلی کو بجٹ سیشن میں حاضر رہنے کے لیے حکم نامہ جاری کردیا۔ پارٹی کے ارکان کا اپنے امیدوار کے خلاف ووٹ دینا تو کوئی جرم نہیں تھا مگر بغیر کسی اطلاع کے ایوان کے اجلاس میں شریک نہ ہونا تادیبی کارروائی کو دعوت دیتا ہے۔ بی جے پی اگر ان باغی کانگریسیوں کوپنچکولا بھیجنے کے بجائے شملہ کے کسی محفوظ مقام رکھتی تو دوسرے دن وہ حاضری لگا کر اپنی رکنیت بچا سکتے تھے اور سکھو سرکار کے خلاف ووٹ دے کر اسے گرا بھی سکتے تھے۔ اس صورت میں نئی حکومت کے اندر وہ یقیناً انعام و اکرام سے نوازے جاتے مگر شیوکمار کے خوف نے بی جے پی سے ایک بہت بڑی حماقت سرزد کروا دی ۔
ہماچل پردیش میں کانگریس کو یہ جھٹکا اس لیے لگا کیونکہ اس نے بی جے پی سے لاحق خطرے ہلکے میں لینے کی چوک کی ۔ وزیر اعلیٰ سکھویندر سنگھ سکھو یہ کہہ کر بغاوت کے امکان کا اعتراف کرچکےتھے کہ اگر ہمارے لوگوں نے غداری نہیں کی تو ابھیشیک منو سنگھوی جیت جائیں گے لیکن اس کے باوجود وہ معقول احتیاطی تدابیر کرنے میں ناکام رہے۔ وہ اس قدر بے خبر تھے کہ پڑوسی ریاست سے پولیس آکر ان کے ارکان کو ساتھ لے گئی مگر وہ انہیں روک نہیں سکے ۔ کانگریس پارٹی نے اگر رائے دہندگی سے قبل احتیاط کے طور پر شیوکمار کو روانہ کردیا ہوتا تو ابھیشیک منو سنگھوی کو ناکامی کا منہ دیکھنے سے بچایا جاسکتا تھا لیکن ان لوگوں نے راجیو شکلا اور سکھویندر سنگھ پر بھروسا کیا جو اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام رہے۔ ایوان بالا میں وقفہ وقفہ سے انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ اس بار 65 نشستوں کوپُر کیا جانا تھا ان میں سے 15پر الیکشن ہونا تھا ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بی جے پی نے ابھیشیک منو سنگھوی کو ہرانے میں اتنی زیادہ دلچسپی کیوں لی؟
اس سوال کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ فی الحال ہر ہفتہ کسی نہ کسی معاملے میں سپریم کورٹ حکومتِ وقت کے لیے مشکلات کھڑی کررہی ہے۔ انتخابی بانڈز سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اس سرکار کے خلاف دوسرا کڑا فیصلہ چنڈی گڑھ کا تھا اور اب بابا رام دیو کو دی جانے والی دھمکی بھی سرکار کے لیے ہے کیونکہ بابا کی چولی اور حکومت کا دامن ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اندر حکومت کے خلاف سب سے طاقتور آواز ابھیشیک منو سنگھوی کی ہے۔ انہوں نے راہل گاندھی کی رکنیت بحال کروا کے بی جے پی کو جھٹکا دیا ہے اسے وہ کبھی بھی بھول نہیں سکتی کیونکہ سورت کی نچلی عدالت نے ان کی چھٹی کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا دی تھی اور اور احمد آباد ہائی کورٹ نے اس کی توثیق کردی تھی۔ اس کے بعد ابھیشیک منو سنگھوی کی کوششوں سے عدالتِ عظمیٰ نے اس ناانصافی کو مسترد کردیا۔ بی جے پی کی کینہ پروری نے اسے ہر حال میں ابھیشیک سنگھوی کو ایوان بالا میں جانے سے روکنے پر مجبور کردیا۔ اس داو میں اسے کامیابی تو ملی لیکن اس کے عوض زبردست ذلت بھی ہا تھ آئی۔
بی جے پی والے بڑے خوش ہیں کہ انہوں نے کانگریس کے امیدوار ابھیشیک منو سنگھوی کو ہرا دیا مگر جس کو کامیاب کیا وہ ہرش مہاجن بھی نیکر دھاری سنگھی نہیں ہے۔ ہرش مہاجن کو کانگریس پارٹی وراثت میں ملی ۔ وہ سابق ودھان سبھا اسپیکر اور کابینی وزیر دیس راج مہاجن کے بیٹے ہیں ۔ یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ دن رات موروثی سیاست کی مخالفت کرنے والی بی جے پی نے ایک ایسے آدمی کو اپنا امیدوار بنایا جو ہماچل پردیش میں کانگریس سرکار کے اندر وزیر حیوانات رہا ہے ۔اس طرح سنگھی تو بیچارے دری پچھاتے رہ گئے اور کانگریسی سرخ قالین پر چل کر ایوان بالا میں پہنچ گئے۔ہرش مہاجن اس معاملے میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ مہاراشٹر میں بھی بی جے پی نےدو پیدائشی کانگریسیوں کو اپنے ٹکٹ پر کامیاب کرکے ایوان بالا میں روانہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک تو ملند دیورا ہیں جن کے والد مرلی دیورا ساری عمر کانگریس میں رہےاور طویل عرصہ تک خزانچی کی ذمہ داری بھی ادا کی۔
ملند دیوار کے علاوہ اشوک چوہان کے والد شنکر راو چوہان بھی نہ صرف مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بلکہ مرکزی وزیر داخلہ بھی تھے۔ کانگریس نے جب اشوک چوہان کو وزیر اعلیٰ بنایا تو بی جے پی والوں نے ان پر آدرش بدعنوانی میں کارگل کے شہیدوں سے غداری کا الزام لگا کر استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور اب اسی تھوکے ہوئے کو چاٹ کر انہیں اپنے ٹکٹ پر ایوان پارلیمان میں روانہ کردیا۔ یہ ہے بی جے پی کی دھلائی مشین جس میں نہ صرف بدعنوانی کو دھویا جاتا ہے بلکہ اس پر نیک نامی کا تمغہ بھی سجا دیا جاتا ہے۔ مودی کی اس نئی حکمت عملی سے دن بہ دن بی جے پی کانگریس یکت اور سنگھ مکت ہوتی جارہی ہے۔ اپنے اقتدارکو مضبوط کرنے کے لیے یہ حرکت وہ لوگ کررہے ہیں جو ملک کو کانگریس مکت کرنے کا نعرہ لگاتے تھے لیکن فی الحال اس میں وزیر اعظم مودی کا ذاتی مفاد ہے۔ سنگھ پریوار سے بی جے پی آنے والوں کے پیچھے مادر تنظیم کا ہاتھ ہوتا ہے اور وہ مودی کی شکایت سرسنگھ چالک سے کرسکتے ہیں مگر کانگریس سے نکل کر آنے والے بدعنوان لوگوں کا تو کوئی مائی باپ نہیں ہوتا۔ اس لیے ان سے غیر مشروط تابعداری کی توقع آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی ان کو اپنی پارٹی میں بھر رہے ہیں مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ابن الوقت توہمیشہ ابن الوقت ہی ہوتا ہے۔ آج آسکتا ہے تو کل جا بھی سکتا ہے۔
تھالی کے بیگن کی مانند اِدھر اُدھر ہوتے رہنے والے نتیش کمار کو موقع پرستوں کی سرداری کا اعزاز حاصل ہے مگر اس معاملے میں ہرش مہاجن بھی بے مثال ہیں ۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز یوتھ کانگریس سے کیا اور 1986 سے 1995 تک اس تنظیم کے ریاستی صدر بھی رہے۔ پہلی بار نومبر 1993 میں انہیں ریاستی قانون ساز اسمبلی کے انتخاب میں کامیابی ملی اور اس کے بعد 1998 اور 2003 میں بھی انہوں نے جیت درج کرائی ۔ 1994 سے 1998 تک وہ پارلیمانی سکریٹری اور حیوانات کے کابینی وزیر بنےرہے۔ ہرش مہاجن 6 مرتبہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے والے ویر بھدر سنگھ سے بہت قریب رہے ہیں اسی لیے سکھویندر سنگھ سکھو نے انہیں کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ اس سے بد دل ہوکر صرف ڈیڑھ سال قبل 28 ستمبر 2022 کو انہوں نے ہماچل پردیش ریاستی کانگریس کے کارگزار صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ ایسے کانگریسی کو بی جے پی نے اس سیٹ پر انتخاب لڑایا جہاں سے پچھلی بار پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا منتخب ہوئے تھے ۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ بی جے پی کے قومی صدر کو ایوان بالا میں جانے کے لیے اپنا آبائی صوبہ چھوڑ کر گجرات جانا پڑا۔ اس سے نام نہاد وشو گرو کی پول کھل گئی اور پتہ چل گیامودی کے وزیر اعظم بننے کے دس سال بعد بھی گجرات سمراٹ ہی ہیں ۔ جنوبی ہند کی ایک بھی ریاست میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو فی الحال سب سے زیادہ پریشانی راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا سے ہے۔ اس سے کانگریس کو دوہرا فائدہ ہورہا ہے۔ اول تو یاترا جہاں بھی جاتی ہے کانگریس پارٹی حرکت میں آجاتی ہے ۔ اس کے کارکنان میں ایک نیا جوش بھر جاتا ہے۔ انڈیا وفاق میں شامل پارٹیوں کے لوگ بھی کام میں لگ جاتے ہیں اور اس کےنتیجے میں بڑے پیمانے پر عوام سے رابطہ بھی ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے بی جے پی نے قدم قدم پر اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں ۔ منی پور میں امن عامہ کا بہانہ بناکر جلسہ عام کی اجازت نہیں دی گئی۔ آسام میں تشدد کا سہارا لیا گیا مگر ان اوچھی حرکات سے یاترا کی مقبولیت میں الٹا اضافہ ہی ہوا۔ اس کے بعد راہل گاندھی کی حوصلہ شکنی کے لیے انڈیا محاذ میں شامل پارٹیوں کو توڑنے کی مہم کا آغاز شروع ہوگیا۔
نتیش کمار کو توڑ کر ان کے ساتھ حکومت بنائی گئی تو آر جے ڈی کے تیجسوی یادو نے مورچہ سنبھال لیا اور پٹنہ میں بے مثال مہا ریلی کرکے ثابت کردیا کہ وہ مقبولت کے معاملے میں نتیش کمار کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں ۔ جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے جیل جاکر آپریشن لوٹس کو فیل کردیا۔ یوپی میں جینت چودھری کو الگ کیا گیا تو اکھلیش یادو نے کانگریس کا ہاتھ تھام لیا اور مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کے ساتھ کمل کھلانے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ۔بھارت جوڑو نیائے یاترا کے ذریعہ حزب اختلاف کا انڈیا وفاق متحد ہورہا ہے اور اس کو کمزور کرنے کے لیے مخالفین کو توڑ کر اپنی پارٹی میں شامل کرنے کے سبب بی جے پی کمزور ہورہی ہے۔ یہ محض کو مفروضہ نہیں ہے بلکہ اس کو ثابت کرنے والے کئی مظاہر آئے دن سامنے آرہے ہیں ۔ مشرقی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمان گوتم گمبھیر کی سیاسی میدان چھوڑ کر کرکٹ کی دنیا میں لوٹنے کا اعلان اس کی تازہ مثال ہے۔ گوتم گمبھیر نے خود سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے درخواست کردی کہ وہ اب صرف کرکٹ پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ بی جے پی کی لوک سبھا انتخابات کے لیے اپنی پہلی فہرست میں اپنا نام ندارد پاکر اگر وہ ایسا فیصلہ کرتے تو یہ قابلِ فہم بات تھی لیکن انہوں نے تو شادی کی پانچویں سالگرہ سے پہلے ہی تین طلاق دے کر اپنی جان چھڑا لی۔
فی الحال یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس بار کئی موجودہ ارکان کا ٹکٹ کٹے گا مگر گوتم گمبھیر کو پتہ ہے کہ اگر کانگریس اور عآپ ایک ساتھ دہلی میں الیکشن لڑتے ہیں تو ان کا کمل ہرگز نہیں کھلے گا اور وہ زیرو پر کلین بولڈ ہوجائیں گے اس لیے انہوں نے پہلے ہی کنی کاٹ لی ۔ یہ انڈیا اتحاد کا اثر ہے کہ بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ میدان چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کررہے ہیں۔ گوتم گمبھیر نے 2019 میں مشرقی دہلی لوک سبھا سیٹ پر کانگریس کے ارویندر سنگھ لولی اور عام آدمی پارٹی کی آتشی کو شکست دی تھی لیکن اس بار ان میں سے ایک میدان میں ہوگا اسی لیے گمبھیر پیویلین میں جاکر چھپ گئے۔ ورلڈ کپ کے فائنل میں ہندوستانی ٹیم کے لیے 91 رنز بنانے والے گمبھیر فی الحال آئی پی ایل میں کولکاتا نائٹ رائیڈرز (کے کے آر) کے سرپرست ہیں اور وہاں سے ان کی کمائی سیاست سے کہیں زیادہ ہے اس لیے وہ سیاسی جھنجھٹ پالنا نہیں چاہتے ۔ امیت شاہ کے بیٹے جئے شاہ بھی کرکٹ چھوڑ کر سیاست میں اسی وجہ سے آنا نہیں چاہتے۔یہ ہے بی جے پی کی دھن بھکتی۔
گوتم گمبھیر کے سیاسی میدان کو خیرباد کہنے کے بعد ہزاری باغ سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ جینت سنہا نے بھی پارٹی سے درخواست کی کہ انہیں انتخابی ذمہ داریوں سےفارغ کردیا جائے۔ انہوں نے پارٹی سربراہ جے پی نڈا کو مطلع کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر لکھاکہ ’’میں نے پارٹی صدر جے پی نڈا سے مجھے میری براہ راست انتخابی ذمہ داریوں سے آزاد کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ میں ہندوستان اور دنیا بھر میں عالمی ماحولیات کی تبدیلی سے نمٹنے کی اپنی کوششوں پر توجہ مرکوز کر سکوں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’میں پارٹی کے ساتھ معاشی اور گورننس سے متعلق معاملات پر کام کرتا رہوں گا۔ مجھے پچھلے دس سالوں سے ہندوستان اور ہزاری باغ کے لوگوں کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ، مجھے وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی قیادت کی طرف سے بہت سارے مواقع سے نوازا گیا ۔ میں ان سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ جئے ہند۔‘‘ بی جے پی کے سابق وزیر مالیات اور وزیر خارجہ یشونت سنہا کے فرزند و ارجمند کی انتخابی سیاست سے بے زاری اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی کے اندر مایوسی اور بے چینی کا ماحول ہے۔ وزیر اعظم کی کھوکھلی تقاریر ان کو متاثر کتنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔گوتم گمبھیر اور جینت سنہا نے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب بی جے پی لوک سبھا انتخابات کے لیے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کرنے والی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ منوج سنگھ نے بھی بی جے پی کے ٹکٹ کو لوٹا کر اس کی ناک کا ٹ دی ۔ اس طرح کی مایوسی کو ابھیشیک منو سنگھوی کو ایوان پارلیمان میں جانے سے روک کر دور نہیں کیا جاسکتا ۔ پرچار منتری نریندر مودی کے پاس اس مرض کا واحد علاج بھاشن بازی ہے مگر وہ بھی اب بے اثر ہوچکا ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 وزیر اعظم نریندر مودی کو فی الحال سب سے زیادہ پریشانی راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا سے ہے۔ اس سے کانگریس کو دوہرا فائدہ ہورہا ہے۔ اول تو یاترا جہاں بھی جاتی ہے کانگریس پارٹی حرکت میں آجاتی ہے ۔ اس کے کارکنان میں ایک نیا جوش بھر جاتا ہے۔ انڈیا وفاق میں شامل پارٹیوں کے لوگ بھی کام میں لگ جاتے ہیں اور اس کےنتیجے میں بڑے پیمانے پر عوام سے رابطہ بھی ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے بی جے پی نے قدم قدم پر اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں ۔ منی پور میں امن عامہ کا بہانہ بناکر جلسہ عام کی اجازت نہیں دی گئی۔ آسام میں تشدد کا سہارا لیا گیا مگر ان اوچھی حرکات سے یاترا کی مقبولیت میں الٹا اضافہ ہی ہوا۔ اس کے بعد راہل گاندھی کی حوصلہ شکنی کے لیے انڈیا محاذ میں شامل پارٹیوں کو توڑنے کی مہم کا آغاز شروع ہوگیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 مارچ تا 16 مارچ 2024