بلقیس بانو کیس: عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کو جیل سے رہا کر دیا گیا

نئی دہلی، اگست 16: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے گیارہ افراد کو پیر کو گودھرا جیل سے رہا کر دیا گیا، کیوں کہ گجرات حکومت نے معافی کی پالیسی کے تحت ان کی درخواست منظور کر لی ہے۔

گجرات کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (ہوم) راج کمار نے اخبار کو بتایا کہ حکومت نے ان کی معافی کی درخواست پر غور کیا، کیوں کہ مجرموں نے 14 سال جیل میں گزارے ہیں اور ساتھ ہی دیگر عوامل جیسے ’’عمر، جرم کی نوعیت، جیل میں سلوک‘‘ کی بنیاد پر یہ درخواست منظور کی گئی۔

بلقیس بانو کو 3 مارچ 2002 کو گجرات میں فسادات کے دوران اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ اس وقت 19 سال کی تھیں اور حاملہ تھیں۔ احمد آباد کے قریب فسادیوں نے اس کی تین سالہ بیٹی سمیت اس کے خاندان کے چودہ افراد کو قتل کر دیا تھا۔ ایک آدمی نے لڑکی کو اس کی ماں کے بازو سے چھین لیا تھا اور اس کا سر پتھر پر مار دیا تھا۔

2002 کے فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ بانو کا کیس بڑے پیمانے پر ہونے والے تشدد کی سب سے ہولناک اقساط میں سے ایک تھا۔

منگل کو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ مجرموں کی رہائی کے بعد ان کے رشتہ داروں کی طرف سے ان کا استقبال مٹھائی سے کیا جا رہا ہے۔ رشتہ داروں نے ان کے پاؤں بھی چھوئے۔

ملزمان کو سن 2008 میں سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

پیر کو کمار نے وضاحت کی کہ قانون کے مطابق عمر قید کا مطلب ہے کم از کم 14 سال قید کی سزا بھگتنا اور اس کے بعد مجرم معافی کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ کمار نے کہا کہ حکومت اہلیت کے ساتھ ساتھ جیل ایڈوائزری کمیٹی اور ضلعی قانونی حکام کی سفارشات کی بنیاد پر قبل از وقت رہائی کا فیصلہ کرتی ہے۔

پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق مجرموں میں سے ایک، رادھے شیام شاہ نے 14 سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد معافی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ کمیٹی کی سربراہی کرنے والے پنچ محل کے ضلع کلکٹر سوجل مایاترا نے کہا کہ مئی میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت سے اس کی درخواست پر فیصلہ کرنے کو کہا جس کے بعد اس نے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے ایک پینل تشکیل دیا۔

انھوں نے کہا ’’چند ماہ قبل تشکیل دی گئی ایک کمیٹی نے اس کیس کے تمام 11 مجرموں کی سزا معاف کرنے کے حق میں متفقہ فیصلہ لیا تھا۔ یہ سفارش ریاستی حکومت کو بھیجی گئی تھی اور کل ہمیں ان کی رہائی کے احکامات موصول ہوئے۔‘‘

وہیں فسادات کے متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل شمشاد پٹھان نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ بڑی تعداد میں ایسے مجرم، جنھوں نے اجتماعی عصمت دری کیس کے ملزمین سے کم گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا ہے، بغیر کسی معافی کے جیلوں میں بند ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب کوئی حکومت ایسا فیصلہ لیتی ہے تو نظام میں متاثرہ کی امید ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ان کی معافی پر غور کرنے کی ہدایت دی تھی، تب بھی اسے معافی کی اجازت دینے کے بجائے اس کے خلاف غور کرنا چاہیے تھا۔

بانو کے شوہر یعقوب رسول نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ انھیں میڈیا سے مجرموں کی رہائی کے بارے میں معلوم ہوا۔

رسول نے کہا ’’ہمیں اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا کہ انھوں [مجرموں] نے اپنی درخواست پر کب کارروائی کی اور ریاستی حکومت نے کس فیصلے پر غور کیا۔ ہم صرف اتنا کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے قریبی اور عزیزوں کی روح کے سکون کے لیے دعا کریں جنھوں نے فسادات میں اپنی جانیں گنوائیں۔ ہر روز ہم ان لوگوں کو یاد کرتے ہیں جو اس واقعے میں مارے گئے تھے، بشمول ہماری بیٹی کے۔‘‘

4 مئی 2017 کو بمبئی ہائی کورٹ نے جنوری 2008 کے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا جس میں 11 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بنچ نے تاہم کہا تھا کہ چوں کہ مجرم مقدمے کی سماعت سے پہلے ہی ساڑھے چار سال حراست میں گزار چکے ہیں، اس لیے انھیں چھوڑ دیا جانا چاہیے۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت کی تھی کہ بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ کے ساتھ ساتھ اس کی پسند کی نوکری اور رہائش بھی دی جائے۔ یہ مبینہ طور پر بھارت میں عصمت دری کی متاثرہ کو دیا جانے والا سب سے زیادہ معاوضہ تھا۔