بھارت ’صفر کاربن‘ کے لیے پرعزم لیکن حکمت عملی غیر واضح

ہدف کو چھونے کے لیے ملک کو 2030 تک 85 ٹریلین ڈالر درکار

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

کرہ ارض اور انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لیے صنعتی دنیا کو ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت
گزشتہ سال سی او پی۔ 26 کے گلاسگو کانفرنس میں بھارت نے دو اہم مسائل پر خود کو پابند عہد کیا ہے کہ 2030تک فضلاتی توانائی (Fossil Produced energy)کے پچاس فیصد استعمال کو شفاف توانائی میں تبدیل کرے گا اور ملک کو 2070 تک صفر کاربن اکانومی کے معیار پر لے آئے گا اس طرح ہمارا ملک قلیل مدتی ہدف کی حصولیابی کے لیے بھرپور طور پر کوشاں رہے گا۔ مگر اس کے حصول کے لیے ملک کو بڑے ہی سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے کہ 2070 تک صفر کاربن کے ہدف کے لیے اربوں ڈالرس کی ضرورت ہو گی جس کی وضاحت شرم الشیخ میں منعقدہ ہونے والے سی او پی- 26میں بڑی حد تک ہوئی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں 2030 تک 85 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی ضرورت پڑے گی۔ اسٹریٹیجی ڈاکیومنٹس میں اس مسئلہ پر کوئی وسط مدتی ہدف طے نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی واضح حکمت عملی سامنے آئی ہے جس سے اندازہ ہو کہ صفر کاربن کے حصول کے لیے ہماری حکمت عملی کیا ہو گی؟ ویسے the National Hydrogen Mission کا افتتاح بھی کیا گیا ہے جس کی وساطت سے بھارت کو گرین ہائیڈروجن ہب بنایا جا سکے گا۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں شفاف توانائی کے حصول کے لیے پٹرول میں بیس فیصد الکوحل کی ملاوٹ کر کے 2025 تک الکٹرک گاڑیوں کو متبادل کے طور پر لایا جا سکے گا جس سے پٹرول کی کھپت کم کرتے ہوئے گیسوں کے اخراج کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔ مگر اس متبادل کو بروئے کار لانے کے لیے بڑے پیمانے میں صنعتوں کی ضرورت ہو گی اور ٹکنالوجی کو کارآمد بناکر بڑی صنعتی تبدیلیاں بھی لانی ہو گی۔ صنعتی توانائی میں الکٹریسٹی توانائی کی حصہ داری 2070 تک تین گنا زیادہ بڑھانا ہو گا۔ فی الحال ہمارے ملک میں برقی توانائی کی بڑی مقدار کوئلہ سے حاصل کی جاتی ہے۔ EV سپلائی چین کے شعبہ میں چین کو بازار میں ہر طرح کی برتری حاصل ہے جہاں Carbon Capture Storage ٹکنالوجی کو کام میں لگایا جارہا ہے جس سے گرین ہاوس گیسوں کو Atmosphere میں داخل ہونے کے پہلے ہی الگ کرلیا جاتا ہے۔ یہ ٹکنالوجی کافی مہنگی ہے اور اس کا زیادہ استعمال غیر یقینی بھی ہے۔ فی الحال سی سی ایس طریقہ کار سے برطانیہ میں کاربن سے نجات پایا جاتا ہے۔ بھارت کو بھی اس میدان میں ترقی یافتہ ممالک سے مدد لے کر اس ٹکنالوجی کو کاربن کی صفائی کے لیے کام میں لانا ہوگا۔
واضح رہے کہ ماحولیاتی آلودگیوں کو بڑھانے میں صنعتی اداروں اور کاروباری کمپنیوں کا بڑا رول ہوتا ہے جس کی وجہ سے گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان صنعتی اداروں کو دنیا کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے کے لیے جیسی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے وہ نہیں کر رہے ہیں۔ آج تک ان کا وعدہ محض وعدہ ہی رہا ہے۔ اس لیے مصر کے شرم الشیخ کے ماحولیاتی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گٹریس نے کمپنیوں کے اطوار اور طور طریقوں میں پائی جانے والی بے ترتیبی پر بھرپور روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کمپنیاں گیسوں کے اخراج میں کٹوتی اور مقررہ اوقات میں اسے مقام صفر پر لانے کی باتیں خوب کرتی ہیں مگر دوسری طرف وہ فضلاتی ایندھن(Fossil Fuel) مثلاً تیل اور کوئلہ کے میدان میں سرمایہ کرتی ہیں۔ یہ لوگ اپنی سرگرمیوں اور حرکتوں سے جنگلوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں اور اپنی خود غرضی سے اخراج کم کرنے کے بجائے بڑھاتے ہیں ان کی ایسی طفل تسلی اور ان کا جھوٹا وعدہ قابل مذمت و ملامت ہے جس پر وقت رہتے ہوئے قدغن لگانا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے ماہرین متعینہ نکات پر شہروں اور اپنے اپنے علاقوں کا تجزیہ کرکے ایک سال میں اپنی رپورٹ پیش کرنے والے ہیں۔ بہت سے ممالک میں شفاف توانائی کے حصول اور اس کے استعمال پر خاطر خواہ توجہ دی جا رہی ہے جو قابل ستائش ہے۔ اس کا نتیجہ بھی بہتر آ رہا ہے۔ مثلاً ہمارے ملک میں شمسی توانائی پینلوں پر کام تیزی سے ہو رہا ہے۔ لوگ پٹرول و ڈیزل کے متبادل کے طور پر برقی توانائی والی گاڑیوں کے استعمال میں بھی کافی دلچسپی لے رہے ہیں۔ محض ایک ملک یا ایک خطہ میں اس رفتار سے کام ہو گا تو ممکن نہیں ہے کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں کمی کا ذریعہ بن سکے اور نہ موسمیاتی تبدیلی پر کسی طرح کا اثر ڈال سکے۔ گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو ہر ممکن کوشش کے ذریعہ روکنا ہو گا اور اس میں شہروں اور صنعتوں کا رول اقدامی ہو گا۔ اس لیے کہ وہی منبع ہیں جہاں سے کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھتا ہے۔ اس لیے عالمی معیشت کے تقریباً 90 فیصد ممالک نے اسے کم کرنے کا حلف لیا ہے۔ آئندہ دہائیوں میں اگر اخراج کی سطح کو صفر تک لانا ہے تو اس میدان میں بڑی کمی کرنی ہو گی اور شفاف توانائی کے حصول میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ مشکل یہ ہے کہ کمپنیاں اس سمت میں کیا کر رہی ہیں اس کا اندازہ لگانا انتہائی دشوار ہے۔ کیونکہ کمپنیوں کی دلچسپی کا دائرہ مختلف ہے جس میں شفافیت بڑھانے کی ضرورت ہے کمپنیوں پر بھروسہ کرنا دنیا کے لیے خود کشی کے مترادف ہے۔ پیرس سمجھوتہ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ماقبل صنعت انقلاب کی سطح سے درجہ حرارت میں اضافہ کو 1.5 سنٹی گریڈ تک محدود کرنے کے لیے 2030 تک اخراج کو نصف کرنا ہو گا۔ کرہ ارض اور انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لیے صنعتی دنیا کو بر وقت اور ٹھیک طرح سے اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہو گی۔
ایک طرف ہمارا ملک معاشی نمو میں بہتری کے لیے کوشاں ہے تو دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے کئی طرح کے چیلنجز بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اس کے مد نظر بھارت گلوبل وارمنگ کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے اقدامی کردار نبھانے کے لیے پابند عہد ہے۔ اس ضمن میں طویل مدتی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ ضروری تبدیلیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جس میں بجلی کی حسب ضرورت پیداوار کے لیے کم کاربن کا اخراج صنعتی وسعت کو ممکن بنانا ہو گا۔ روزگار کی فراہمی کو بڑھاوا دینا اور خود کفیل بھارت کی تعمیر کے لیے بجلی شعبہ کی ترقی کافی اہم ہے۔ اس کے علاوہ حمل و نقل کے نظام میں لازمی تبدیلی ہے۔ جی ڈی پی میں اضافہ کے لیے حمل و نقل کا بڑا دخل ہے۔ اس کے لیے پبلک میں حمل و نقل کے مختلف آلات کا الیکٹریفیکیشن، طلب، آمد ورفت کا بہتر نظم اور ہنر مندی کے ساتھ سسٹم کو فعال اور مضبوط کیا جا رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے سخت اثرات سے نمٹنے کے لیے نقصان اور تباہی فنڈ (loss and damage fund) کے قیام پر گزشتہ اتوار کو اتفاق ہو گیا ہے۔ اس سمجھوتے کے ساتھ ہی مصر میں اقوام متحدہ موسمیاتی چوٹی کانفرنس سی پی او 27 تکمیل کو پہنچا۔ یہ ایک تاریخی قدم ہے کیونکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے خسارہ کی تلافی کے لیے 30 سالوں سے اس فنڈ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سمجھوتے کے تحت اب ترقی یافتہ ممالک ان غریب ممالک کے لیے ایک الگ سے لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ بنائیں گے جنہیں ان امیر اور ترقی یافتہ ممالک کے کاربن اخراج کے نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں قحط، سوکھا، بدترین سیلاب، گرم لہریں (Heat Waves) اور طوفان جیسی تباہیوں کا سامنا یہ ممالک مسلسل کررہے ہیں۔ جبکہ موسمیاتی آلودگی میں ان ممالک کا حصہ امیر ممالک کے مقابلے میں کافی اہم ہے۔ اسفنڈ کا قیام کم ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے طویل مدت سے فنڈ بھی طلب کر رہے ہیں۔ امیر ممالک کی ہٹ دھرمی کا حال ’چوری اور سینہ زوری‘ جیسا ہے۔ وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ماحولیاتی آلودگیوں میں ان کا بھی حصہ ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کے علاوہ دیگر ترقی پذیر ممالک طویل عرصہ سے خسارہ کی تلافی کے لیے امیر ممالک پر دباو ڈال رہے تھے کیونکہ غریب ممالک کا ماننا ہے کہ امیر مالک کی جانب سے خارج کردہ کاربن کے ہی سبب موسم سے منسلک حالات بدتر ہوئے ہیں جس کے لیے انہیں معاوضہ ملنا ضروری ہے۔ سمجھوتے کے مطابق اس فنڈ میں ابتداء میں ترقی یافتہ ممالک، نجی یا سرکاری تنظیمیں اور عالمی مالی تنظیمیں اپنا حصہ دیں گی۔ حالانکہ امریکہ اور یوروپی یونین کا مطالبہ تھا کہ چین اور دیگر آلودگی پھیلانے والے بڑے ممالک کو اس میں حصہ لینا چاہیے۔

 

***

 ہمارے ملک میں برقی توانائی کی بڑی مقدار کوئلہ سے حاصل کی جاتی ہے۔ EV سپلائی چین کے شعبہ میں چین کو بازار میں ہر طرح کی برتری حاصل ہے جہاں Carbon Capture Storage ٹکنالوجی کو کام میں لگایا جارہا ہے جس سے گرین ہاوس گیسوں کو Atmosphere میں داخل ہونے کے پہلے ہی الگ کرلیا جاتا ہے۔ یہ ٹکنالوجی کافی مہنگی ہے اور اس کا زیادہ استعمال غیر یقینی بھی ہے۔ فی الحال سی سی ایس طریقہ کار سے برطانیہ میں کاربن سے نجات پایا جاتا ہے۔ بھارت کو بھی اس میدان میں ترقی یافتہ ممالک سے مدد لے کر اس ٹکنالوجی کو کاربن کی صفائی کے لیے کام میں لانا ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 ڈسمبر تا 10 ڈسمبر 2022