بنگال میں سی اے اے اہم مسئلہ

سی اے اے کے تحت مرکزی حکومت کسی کو بھی ہندوستانی شہریت دے سکتی ہے، ریاستی حکومتیں بے بس

شبانہ جاوید

سماجی کارکنوں کا ممتا بنرجی پر عوام کو گم راہ کرنے کا الزام
کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں کی سی اے اے مخالف موقف کے ذریعہ ووٹروں کو متوجہ کرنے کی کوشش
لوک سبھا الیکشن کے لیے ووٹنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ یہ ووٹنگ سات مرحلوں میں ہو گی۔ آخری مرحلے کی ووٹنگ یکم جون کو ہوگی۔ عوام کی رائے اپنے حق میں بنانے کے لیے انتخابی ریلیاں زور و شور سے چلائی جا رہی ہیں۔ ہر امیدوار اپنے اپنے انتخابی نعروں کے ساتھ ووٹروں کے قریب جانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس بار الیکشن میں یوں تو کئی ایسے موضوعات ہیں جنہیں مختلف پارٹیوں نے اپنے اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا ہے تاہم مغربی بنگال کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان سب میں سب سے اہم موضوع سی اے اے اور این آر سی کا ہے۔ بی جے پی نے الیکشن سے پہلے سی اے اے کو لاگو کرکے واضح کر دیا ہے کہ ہے کہ وہ اس کے ذریعہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتوں کو جن میں ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، بودھ اور جین شامل ہیں، بھارتی شہریت دے گی اور اس سلسلے میں قدم اگے بڑھایا جا چکا ہے اور کئی لوگوں کو شہریت بھی دی جا چکی ہے۔ وہیں اپوزیشن پارٹیاں سی اے اے کے خلاف آواز بھی اٹھا رہی ہیں۔ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی سی اے اے کے خلاف احتجاج درج کرایا تھا۔ ممتا بنرجی نے اپنی پارٹی ترنمول کانگریس کے انتخابی منشور میں سی اے اے اور این آر سی کو ناقابل قبول بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سی اے اے کو بنگال میں لاگو نہیں کریں گی۔ ممتا بنرجی کی انتخابی ریلیوں میں بھی اس بات کو زور و شور سے اٹھایا جا رہا ہے کہ سی اے اے کے خلاف وہ اور ان کی پارٹی احتجاج کرتی رہیں گی۔ ممتا بنرجی نے حالیہ ایک انتخابی ریلی میں سی اے اے پر مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی سی اے اے کے ذریعہ لوگوں کو تقسیم کرنے کی سیاست کر رہی ہے، مسلمانوں میں ڈر و خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لہٰذا وہ جب تک زندہ رہیں گی سی اے اے کو بنگال میں لاگو نہیں ہونے دیں گی۔ ترنمول کانگریس نے ’’دیدی کی قسم‘‘ کے نام سے اپنے انتخابی منشور میں شہریت ترمیمی ایکٹ قانون کو منسوخ کرنے اور ملک میں کبھی بھی این آر سی اور یونیفارم سیول کوڈ نافذ نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔اس کے علاوہ ترنمول کانگریس نے کئی فلاحی اسکیمیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سی اے اے کی مخالفت کرنے والی اپوزیشن پارٹیاں اپنی اپنی ریاستوں میں کیا اسے روک پائیں گی؟ سماجی کارکن عبدالعزیز نے صاف طور پہ کہا کہ سی اے اے بل پاس ہونے کے بعد اسے لاگو نہ کرنا کسی بھی ریاست کے لیے ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سی اے اے کے نام پر بی جے پی ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہیں ممتا بنرجی بھی سی اے اے کے نام پر مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دونوں ہی پارٹیاں سیاست کر رہی ہیں جس میں نقصان صرف عوام کا ہی ہوگا۔ سی اے اے کو لے کر ممتا بنرجی نے سڑک پر اتر کر احتجاج کیا سخت بیانات بھی دیے لیکن پارلیمنٹ میں بل کو روکنے کے لیے ممتا بنرجی کی حکمت عملی یا ان کی پارٹی کی حکمت عملی مایوس کن رہی۔ انہوں نے کہا کہ شہریت دینے کا معاملہ مرکز پر منحصر ہے، مرکزی حکومت ہی شہریت حاصل کرنے کے لیے جمع ہونے والی درخواستوں میں کسی کو بھی منظور کر سکتی ہے، اس سے کسی بھی ریاستی حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ شہریت کی درخواست کو قبول کرنا یا رد کرنا مرکز کے اختیار میں ہے، ریاستی حکومتوں کا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں ہو گا۔ سماجی کارکن سنیل چٹرجی کے مطابق بنگال میں متوا طبقہ کی ایک بڑی آبادی ہے جو بنگال کی سات لوک سبھا سیٹوں پر اثر انداز ہوتی ہے، اس نے سی اے اے بل کے پاس کا خیر مقدم کیا تھا۔ امید کی جا رہی ہے کہ بی جے پی کو اس کا فائدہ لوک سبھا الیکشن میں ہو گا، کیونکہ بنگال کی 35 اسمبلی اور لوک سبھا کی سات سیٹوں پر متوا کمیونٹی کا اثر ہے۔ کون ہے متوا برادری اور کیوں سیاسی طور پر اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں؟ آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔متوا کمیونٹی ہندوستان کے مغربی بنگال میں ایک اہم سماجی و مذہبی برادری ہے۔ یہ برادری ہری چند ٹھاکر اور ان کے بیٹے گرو چند ٹھاکر کی زندگی اور تعلیمات سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ متوا طبقے کے بانی ہری چند ٹھاکر orakandi بنگلہ دیش میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے وشنو مت کی ایک ہم آہنگ مذہب کی تبلیغ کی۔ ہری چند ٹھاکر نے سماجی مساوات کی وکالت کی، ذات پات کے امتیاز کو مسترد کیا، وہ ’’نام دھرم‘‘ کے تصور پر یقین رکھتے تھے۔ بیسویں صدی کے اوائل کے دوران، مشرقی بنگال (موجود بنگلہ دیش) میں متوا برادری کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو مذہبی ظلم و ستم اور سماجی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی کمیونٹی کے لیے بہتر مواقع اور محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں مغربی بنگال سمیت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہجرت کر گئے۔ متوا برادری مغربی بنگال کے شمالی 24 پرگنہ، جنوبی 24 پرگنہ، نادیہ اور کولکاتا کے اضلاع میں آباد ہیں۔ وہ اپنے مخصوص تہذیب و ثقافتی طریقوں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ متوا برادری کے لوگ سماجی و سیاسی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں اور مختلف شعبوں میں نمائندگی کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں متوا کمیونٹی نے مغربی بنگال کے سیاسی منظر نامے میں خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ ان کی آبادیاتی طاقت اور سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے سیاسی جماعتیں انتخابات کے دوران ان کی حمایت کے لیے سرگرم عمل رہی ہیں۔ بنگلہ دیش سے متوا پناہ گزینوں کو شہریت کے حقوق کی فراہمی کا مطالبہ اہم رہا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون سی اے اے کو نافذ کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر متوا برادری نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جشن منایا تھا- یہی وجہ ہے کہ سمجھا جا رہا ہے کہ اس بار لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو متوا برادری کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ سنیل چٹرجی نے اس بات پر بھی حیرانی کا اظہار کیا کہ ممتا بنرجی نے اپنے انتخابی ریلیوں میں صاف طور پہ کہا ہے کہ ان کا مقابلہ صرف بی جے پی سے ہے کوئی دوسری پارٹی یہاں نہیں ہے۔ یعنی ترنمول کانگریس بی جے پی کے خلاف لڑائی لڑ رہی ہے اس لیے لوگ کسی اور پارٹی کو ووٹ نہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ ممتا بنرجی کے اس بیان سے دوسری اپوزیشن پارٹیاں جن میں کانگریس اور لیفٹ کی پارٹیاں شامل ہیں، انہیں نقصان پہنچایا ہے جبکہ بی جے پی کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔
سی اے اے کے مسئلے پر لیفٹ اور کانگریس بھی زور و شور سے انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ کانگریس اور لیفٹ نے سی اے اے کے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے بی جے پی اور ترنمول کانگریس پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ سی پی آئی ایم امیدوار محمد سلیم نے کہا کہ سی اے اے کے خلاف سی پی آئی ایم شروع سے لڑتی رہی ہے اور ہمیشہ لڑتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ عوام ان پارٹیوں کے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ جب کہ کانگریس لیڈر محمد اشفاق نے کہا کہ کانگریس کا موقف سی اے اے پر واضح ہے۔ ہم سی اے اے کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ لیفٹ اور کانگریس سی اے اے کے علاوہ ممتا حکومت میں ہونے والی بدعنوانی پر بھی ووٹروں کے قریب جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے صرف بہرام پور سیٹ سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ لیفٹ ایک بھی سیٹ پر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ بنگال پر برسوں حکومت کرنے کے باوجود گزشتہ لوک سبھا اور اسمبلی الیکشن میں کانگریس و لیفٹ دونوں اپوزیشن پارٹیاں عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار لوک سبھا الیکشن میں کانگریس و لیفٹ کی انتخابی مہم بھی زور دار طریقے سے چلائی جا رہی ہے۔ سنیل چٹرجی نے کہا کہ سی اے اے کے نام پر لوگوں کو گم راہ کرنے کے بجائے ضرورت تھی کہ اس معاملے پر اپوزیشن پارٹیاں پارلیمنٹ میں دباؤ ڈالتیں اور اس بل کو پاس ہونے سے روکنے میں اہم کردار ادا کرتیں۔ سی اے اے کے نام پر لوگوں کا ڈر و خوف آج بھی برقرار ہے اور سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے طور پر اس کا فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترنمول کانگرس نے اپنے انتخابی منشور میں بھی سی اے اے اور این آر سی کو بنگال میں لاگو نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس انتخابی منشور کو جاری کرنے کے لیے نہ تو ممتا بنرجی موجود تھی اور نہ ہی پارٹی کے دوسرے نمبر کے لیڈر ابھیشیک بنرجی موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے اقتصادی مشیر امیت مترا نے ترنمول بھون سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے انتخابی منشور جاری کیا اور پارٹی کے دس وعدوں کو پڑھ کر سنایا۔ ساتھ ہی ترنمول کانگریس، جس نے بنگال میں انڈیا اتحاد کو منتشر کر دیا ہے، کانگریس اور بائیں محاذ کی سخت تنقید کر رہی ہے۔ جب کہ دوسری طرف انتخابی منشور میں وعدہ کیا جا رہا ہے کہ انڈیا اتحاد کی حکومت بنتی ہے تو ترنمول کانگریس ان وعدوں پر عمل درآمد کرائے گی۔ اس اہم انتخابی منشور میں، جس میں کئی وعدے کیے گئے ہیں جس میں سب سے اہم وعدہ سی اے اے اور این آر سی کے بارے میں ہے۔ الغرض بنگال میں سی اے اے ایک بڑا سیاسی موضوع ہے جس پر بی جے پی اور ترنمول کانگریس دونوں ہی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ بی جے پی، سی اے اے کے نام پر مسلمانوں میں ڈر و خوف پیدا کر کے بنگال کی سیاست میں اپنے قدم مضبوط بنانا چاہتی ہے تو ممتا بنرجی سی اے اے کے ڈر و خوف میں مبتلا طبقے کی مسیحا بننا چاہتی ہیں۔ بہرحال اس بار بنگال میں لوک سبھا انتخابات سی اے اے کے نام پر لڑے جائیں گے جس کی باز گشت 2026 کے اسمبلی انتخابات تک سنائی دیتی رہے گی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مئی تا 11 مئی 2024