بابری مسجد انہدام کیس: الہ آباد ہائی کورٹ نے ایل کے اڈوانی اور 31 دیگر ملزمین کو بری کرنے کے خلاف دائر عرضی خارج کردی

نئی دہلی، نومبر 10: الہ آباد ہائی کورٹ نے بدھ کے روز اس اپیل کو مسترد کر دیا جس میں ایک خصوصی سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کیا گیا تھا جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر لال کرشن اڈوانی، کلیان سنگھ اور 30 ​​دیگر کو بابری مسجد انہدام کیس میں بری کر دیا گیا تھا۔

سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے تقریباً تین دہائیوں پرانے مجرمانہ معاملے میں گذشتہ سال ستمبر میں تمام ملزمین کو بری کر دیا تھا، جن میں بی جے پی لیڈر مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی بھی شامل تھے۔ ان پر 1992 میں بابری مسجد کے انہدام میں مجرمانہ سازش اور دیگر الزامات عائد کیے گئے تھے۔

درخواست گزار حاجی محبوب احمد اور سید اخلاق احمد نے سی بی آئی عدالت کے فیصلے کے خلاف فوجداری اپیل دائر کی تھی۔ ستمبر میں سی بی آئی نے اس درخواست کی مخالفت کی تھی۔ اس نے استدلال کیا تھا کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے کیوں کہ درخواست گزار اس کیس میں متاثر نہیں ہوئے تھے۔

تاہم درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ جرائم کے گواہ بھی ہیں اور انھیں اپنی تاریخی عبادت گاہ بابری مسجد کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ آتش زدگی اور لوٹ مار کی وجہ سے ان کے گھر تباہ ہونے کے سبب انھیں مالی نقصان بھی پہنچا۔

اپیل کنندگان نے ہائی کورٹ کو یہ بھی بتایا تھا کہ سی بی آئی عدالت نے ملزمین کو مجرم نہ ٹھہرانے میں غلطی کی ہے کیوں کہ ریکارڈ پر کافی ثبوت موجود ہیں۔

ہائی کورٹ نے 31 اکتوبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

واضح رہے کہ اتر پردیش کے ایودھیا میں واقع بابری مسجد کو ہندوتوا انتہا پسندوں نے 6 دسمبر 1992 کو منہدم کر دیا تھا، کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ یہ اس زمین پر کھڑی ہے جو ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش تھی۔ اس واقعے نے پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی تھی۔

گذشتہ سال ملزمین کو بری کرنے کے حکم میں خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے کہا تھا کہ سی بی آئی نے 32 ملزمین کے خلاف جو ثبوت فراہم کیے ہیں وہ اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ مرکزی ایجنسی کی طرف سے فراہم کردہ آڈیو اور ویڈیو شواہد کی صداقت کو ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ انہدام کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی اور مسجد کو گرانے والے لوگ ’’ملک دشمن عناصر‘‘ تھے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم لیڈران درحقیقت ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔