ہائی کورٹ کے جج کے طور پر وکٹوریہ گووری کی تقرری پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے: مرکزی حکومت

نئی دہلی، فروری 9: مرکزی وزیر پیوش گوئل نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں کہا کہ وکٹوریہ گووری کی مدراس ہائی کورٹ کے جج کے طور پر تقرری پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے۔

گوئل نے راجیہ سبھا میں وقفہ سوالات کے دوران گووری کی تقرری پر ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ جواہر سرکار کے بیانات کے جواب میں یہ تبصرہ کیا۔

جواہر سرکار نے کہا ’’آپ کہتے ہیں کہ صرف مناسب لوگوں کو ہی جج کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے۔ کیا آپ وکٹوریہ گووری کو واقعی ایک مناسب شخص سمجھتے ہیں، جس پر عوام میں ذات پات پر مبنی بیانات دینے کا الزام لگایا گیا ہے؟‘‘

گوئل نے جواب میں کہا کہ گوری کی تقرری ایک مناسب طریقۂ کار کے مطابق کی گئی ہے۔

گووری نے منگل کو مدراس ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر حلف لیا، جب سپریم کورٹ ان کی تقرری کے خلاف دائر دو درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے وہ درخواستیں خارج کر دیں۔

17 جنوری کو سپریم کورٹ کے کالیجیم نے گووری اور چار دیگر کی تقرری کی سفارش مدراس ہائی کورٹ میں کی تھی۔ مرکز نے پیر کو ان کی تقرری کی اطلاع دی تھی۔ تاہم یہ تقرری اس وقت تنازعہ میں پڑ گئی جب سوشل میڈیا صارفین بشمول وکلاء نے نشان دہی کی کہ گووری بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن رہی ہیں اور اس سے قبل عیسائیوں اور مسلمانوں کے بارے میں نفرت انگیز تبصرے کر چکی ہیں۔

جمعرات کو پیوش گوئل کے علاوہ، نائب صدر جگدیپ دھنکھرنے بھی، جو راجیہ سبھا کی صدارت کر رہے تھے، جواہر سرکار کے تبصروں کو مسترد کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب عدلیہ کی جانب سے فیصلہ آچکا ہے تو اس معاملے کو دور رکھا جانا چاہیے۔

معلوم ہو کہ گذشتہ ہفتے مدراس ہائی کورٹ بار کے اراکین نے کالیجیم اور صدر دروپدی مرمو کو خط لکھا تھا، جس میں ان کی توجہ اقلیتی برادریوں کے بارے میں گووری کے تبصروں کی طرف مبذول کرائی تھی۔

خطوط میں کہا گیا تھا کہ گووری کے ’’رجعت پسندانہ خیالات مکمل طور پر بنیادی آئینی اقدار کے خلاف ہیں اور ان کے گہرے مذہبی تعصب کی عکاسی کرتے ہیں‘‘، جو انھیں ہائی کورٹ میں تقرر کے لیے نااہل بناتے ہیں۔

مدراس ہائی کورٹ کے وکلا نے دو انٹرویوز کا حوالہ دیا۔ ایک جو گوری نے ایک یوٹیوب چینل کو دیا تھا جس کی مبینہ طور پر بی جے پی کے نظریاتی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے میزبانی کی تھی۔

انٹرویو کا عنوان ہے ’’بھارت میں عیسائی مشنریوں کی طرف سے ثقافتی نسل کشی‘‘۔

دوسرا انٹرویو ’’قومی سلامتی اور امن کو مزید خطرہ؟ جہاد یا عیسائی مشنری؟‘‘ کے عنوان سے ہے۔