دفعہ 35A نے جموں و کشمیر کے غیر مقامی باشندوں کے بنیادی حقوق کو کم کیا: سپریم کورٹ

نئی دہلی، اگست 29: سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ آئین کی دفعہ 35A، جسے 2019 میں مرکز نے منسوخ کر دیا تھا، اس نے جموں و کشمیر کے غیر باشندوں کے بنیادی حقوق کو چھین لیا تھا۔

آئین کی دفعہ 35A نے سابقہ ریاست میں مقننہ کو اپنے مستقل باشندوں کی وضاحت کرنے کا اختیار دیا تھا۔

دفعہ 35A کے مطابق وہ تمام لوگ جو 14 مئی 1954 سے پہلے سے ریاست میں رہ رہے تھے، جب یہ قانون نافذ ہوا، اور جو لوگ اس سال کے بعد سے کسی بھی وقت 10 سال تک ریاست میں رہ چکے ہوں، ان کو جموں کے مستقل باشندوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس نے مستقل رہائشیوں کو مراعات بھی دی ہیں، جن میں زمین خریدنے اور سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا خصوصی حق بھی شامل ہے۔

یہ قانون ریاست کی مخصوص آبادی کے تحفظ کے لیے لایا گیا تھا۔

تاہم پیر کے روز چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں آئینی بنچ نے کہا کہ قانون نے ریاستی ملازمت کے مساوی مواقع، جائیداد حاصل کرنے اور غیر رہائشیوں کے لیے جموں و کشمیر میں آباد ہونے کے حقوق کو کم کیا ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس قانون نے ریاست کو ان خصوصی مراعات پر عدالتی نظرثانی سے استثنیٰ دیا ہے۔

بنچ دفعہ 370 کی منسوخی اور 2019 میں جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کرنے کو چیلنج کرنے والی 20 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔

سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے پیر کو کہا کہ حقوق کی اس طرح کی تقسیم آئینی جمہوریت میں ’’ناقابل تصور‘‘ ہے۔ مہتا نے کہا کہ حکومت نے اگست 2019 میں اپنی غلطی کو درست کیا جب اس نے دفعہ 370، جس نے سابقہ ریاست کو خصوصی درجہ دیا تھا، اور دفعہ 35A کو منسوخ کر دیا۔

مہتا نے عدالت سے کہا ’’میں یہ یا وہ حکومت نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں ’’ہماری حکومت‘‘ کہہ رہا ہوں۔ ماضی کی غلطیاں آئندہ نسلوں پر نہیں تھوپنی چاہئیں۔‘‘

سالیسٹر جنرل نے یہ بھی کہا کہ مرکز کی جانب سے دفعہ 35A کو ختم کرنے کے بعد مرکز کے زیر انتظام علاقے میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اس نے عدالت کو بتایا کہ سابقہ ریاست کے مستقل باشندے یہ مان کر ’’گمراہ‘‘ ہوئے تھے کہ وہ ایک ایسا اعزاز حاصل کر رہے ہیں جو کوئی بھی ان سے چھین نہیں سکتا۔