امریکا۔چین تعلقات،کیاکشیدگی دور ہوگی؟

بائیڈن۔ شی جن پنگ ملاقات میں ماحولیاتی تبدیلی کے سوا کسی مسئلہ پر اتفاق نہیں ہوسکا

اسد مرزا

امریکی اور چینی صدور کے درمیان ورچول ملاقات میں کوئی نئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ تاہم ملاقات سے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے سے چند ایک عالمی مسائل پر دونوں ممالک اتفاقِ رائے قائم کرنے پر راضی نظر آئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے امریکی صدر جوبائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ورچول ملاقات میں ایک طریقے سے دونوں رہنماؤں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی تاہم ماحولیاتی تبدیلی کے علاوہ کسی اور موضوع پر اتفاقِ رائے قائم ہوتا نظر نہیں آیا۔ اپنے دفاع میں امریکی وزارتِ خارجہ اور وہائٹ ہاؤس کے حکام کے بقول ملاقات کسی خاص مقصد کو حاصل کرنے کے لیے طلب نہیں کی گئی تھی بلکہ اس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان موجود کشیدگی کے امور کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ انہیں کس طرح بامعنی طریقہ سے حل کیا جاسکتا ہے اس بارے میں تبادلہ خیال کرنا اور اعلیٰ سطح پر مذاکرات شروع کرنا تھا۔
جنوری میں جوبائیڈن کے امریکی صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے امریکا نے چند ایک ایسے فیصلے لیے تھے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ بھی ہورہا تھا اور مبصرین کے بقول امریکا چین کے ساتھ نفسیاتی جنگ کی پہل کر رہا تھا۔ ان اقدامات میں معاہدہ اربع (QUAD) میں نئی جان ڈالنا اور آسٹریلیا میں جوہری آبدوز کی بیس بنانا شامل تھا۔ اس کے علاوہ وقفے وقفے سے تائیوان اور جنوبی چینی سمندر کی بابت بیانات جاری کرکے چین کو مشتعل کرنا بھی ان میں شامل تھا۔
امریکی موقف
ملاقات کے بعد جاری امریکی اعلامیہ میں کہا گیا کہ:
٭ امریکا تائیوان کی موجودہ حیثیت کی بابت کسی بھی یکطرفہ کوشش کے خلاف ہے۔
٭ امریکا چین کے زی جیانگ صوبے، ہانگ کانگ اور تبت میں چینی حکومت کی جانب سے اقلیتوں اور جمہوریت پسند عناصر کے حقوقِ انسانی کی پامالی کے تئیں تشویش رکھتا ہے اور ان کی مذمت کرتا ہے اور
٭ امریکا’ ایک متحد چین‘ کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔
دراصل صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد جوبائیڈن اور ان کے وزراء نے ایسے کئی بیانات دیے ہیں جو کئی مرتبہ متضاد رہے ہیں۔ اکتوبر 23 کو سی این این کے ایک ٹی وی پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے اسی طریقے کا ایک بیان دیا تھا ۔ایک سوال کے جواب میں کہ آیا کسی ممکنہ چینی کارراوئی کے پیشِ نظر امریکہ تائیوان کا تحفظ کرنے میں موجودہ تائیوانی حکومت کا ساتھ دے سکتا ہے؟ صدر بائیڈن نے کہا کہ جی ہاں، امریکا اس کے لیے پابندِ عہد ہے اور وہ ہر طریقے سے تائیوان کی مدد کرے گا۔تائیوان کے مسئلے پر ہی صدر بائیڈن نے ورچول ملاقات کے اگلے دن ہی پھر ایک ایسا بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکا تائیوان کی آزادی کے حق میں ہے۔ جب ان سے صحافیوں نے اس کی مزید تفصیل چاہی تو انہوں نے پھر واضح کیا کہ تائیوان کے تئیں امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اور تائیوان- امریکا تعلقات ماضی کے Taiwan Act کے خدوخال پر ہی جاری رہیں گے۔
صدر بائیڈن کے اس چونکا دینے والے بیان کا منفی اثر امریکا-چین تعلقات پر کافی گہرا ثبت ہوسکتا ہے۔ ماضی کے ہر امریکی صدر کی یہی پالیسی رہی ہے کہ تائیوان کے سوال پر انہوں نے ہمیشہ ابہام سے کام لیا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا کوئی بھی واضح جواب دے کر کوئی بھی امریکی صدر چین کے ساتھ کھلے طور پر دشمنی لینے کی بابت نہیں سوچ سکتا۔ ماضی میں جب سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے کچھ اسی طریقے سے تائیوان کے موضوع پر اپنا ردِ عمل ظاہر کیا تھا، تو اس وقت جو بائیڈن نے صدر کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’الفاظ کا استعمال احتیاط سے کرنا چاہیے کیونکہ الفاظ کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ بھی صدر بائیڈن اور ان کے اعلیٰ سفارتی اہل کاروں اور حکام نے گزشتہ دس مہینوں میں ایسے کئی بیانات دے ہیں جن میں ان کا کہنا تھا کہ چین کو عالمی قوانین کی پاسداری کرنا چاہیے جبکہ وہ صاف دیکھ رہے تھے کہ تقریباً ہر شعبے میں چین امریکا کو پیچھے چھوڑتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ صدر بائیڈن اور ان کے وزراء کا موقف رہا ہے کہ وہ چین کو علاقائی طور پر محدود کرنا چاہتے ہیں۔
عالمی کنسلٹنگ ادارے McKinsiv کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں اس وقت چین 120 ٹریلین ڈالر کی قومی معیشت قائم کرچکا ہے۔ جبکہ امریکا کی قومی معیشت کی مالیت صرف نوے ٹریلین ڈالر ہے۔ اس اطلاع کے مطابق اب چین دنیا کا سب سے امیر ترین ملک بن چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت بھی موجود ہے۔ اس پس منظر میں امریکی حکام کو چین کے تئیں اپنی پالیسی کو اور واضح کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں ابہام یا متضاد بیانات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
مجموعی طور پر اگر بائیڈن اور بلنکن واقعی چینی اثرورسوخ کو کم کرنے اور اسے علاقائی طور پر محدود کرنے کے لیے کمربستہ ہیں تو پھر انہیں اپنے قول وفعل میں کوئی فرق نہیں رکھنا ہوگا بلکہ مؤثر طریقے اور حکمت عملی اپناتے ہوئے چین کے ردِ عمل کی فکر کیے بغیر ایسی پالیسی مرتب کرنا ہوگی کہ جس سے چینی حکام خوف کھائیں اور اپنی جارحیت پر نکیل کسنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اندیشہ یہی ہے کہ پھر علاقائی اور عالمی سطح پر چین اپنی آمریت قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے جو عالمی سطح پر جمہوریت کی ہار کے مترادف ہی ہوگا۔ ابھی بھی وقت ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنی چین پالیسی پر نظر ثانی کرکے اس میں موجودہ حالات کے مطابق تبدیلی لائے اور ایسے حالات پیدا کرے کہ چینی حکام عالمی تنظیموں اور رہنماؤں کی بات کو سنجیدگی سے لیں اور ان پر عمل پیرا رہیں۔
ملاقات کے بعد بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہمیں عملی طور پر تعلقات کی حد بندی کرنا چاہیے اور اپنے اختلافات کی کھل کر نشان دہی کرنا چاہیے اور مشترکہ مسائل جیسے کہ ماحولیاتی تبدیلی پر مل کر کام کرنا چاہیے، کیونکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا اثرصرف ہم دونوں پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر ہوتا ہے اور امریکا کسی نئی سرد جنگ کی شروعات نہیں کرنا چاہتا ہے۔
چینی موقف
چینی صدر شی جن پنگ نے ملاقات کے دوران تین رہنما اصولوں اور چار ترجیحی شعبوں کی نشان دہی کی۔
٭ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سماجی نظام اور ترقی کی کوششوں کو احترام سے دیکھیں۔
٭ ایک دوسرے کے بنیادی مفادات اور خدشات کو سمجھیں اور
٭ ایک دوسرے کے ترقی کرنے کے حق کو تسلیم کریں۔
شی جنپنگ کا کہنا تھا کہ دنیا اتنی وسیع ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بہ شانہ ترقی کر سکتے ہیں اور عالمی استحکام قائم کر سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے اقدام کی گواہ تاریخ رہتی ہے اور اگلے پچاس سال میں تاریخ بتائے گی کہ کون رہنما غلط یا صحیح تھا اور امید ظاہر کی کہ صدر بائیڈن سیاسی اور قائدانہ صلاحیت دکھاتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے تئیں ایسی پالیسی مرتب کریں گے جو کہ ان کی عملیت اور حقیقت پسندی ظاہر کر سکے۔
چار ترجیحات کی بابت شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک بڑے ملک کی حیثیت سے ذمے داری نبھانی چاہیے اور عالمی مسائل کو سلجھانے کے لیے عملی طور پر کوشاں ہونا چاہیے۔ ہمیں برابری کی بنیاد پر اور باہمی فوائد کو مدِنظر رکھ کر کام کرنا چاہیے اور چین-امریکا تعلقات کو مثبت سمت دینی چاہیے۔ ورچول میٹنگ کے بعد جاری ایک بیان میں صدر شی جنپنگ نے میٹنگ کے دوران قائم دوستانہ ماحول کے برعکس سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا تائیوان کی آزادی کے تعلق سے کوئی نئی بات کہتا ہے یا کرتا ہے تو وہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔
صدر بائیڈن ایک تجربہ کار سیاست داں ہیں، اور ان سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ اگر وہ امریکا کی چین پالیسی میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں خاطر خواہ تیاری پہلے سے کرنی ہو گی کہ امریکا ان بدلے ہوئے حالات میں کس طرح چین کی جارحیت اور حقوقِ انسانی کی پامالی سے کیسے بااثر طور پر نمٹ سکتا ہے۔ اس کے لیے انہیں چین کے ساتھ باہمی تعلقات اور تائیوان کے مسئلے پر اپنی پالیسی کو صاف الفاظ میں واضح کرنا ہوگا اور چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت سے امریکی معیشت کس طرح مقابلہ کرسکتی ہے اس کو بھی واضح کرنے کے علاوہ، امریکی معیشت اور صنعت کو عالمی سطح پر صفِ اول کی طاقت بنائے رکھنے کے لیے مزید کوششیں کرنا ہوں گی۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com
***

 

***

 صدر بائیڈن ایک تجربہ کار سیاست داں ہیں اور ان سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ اگر وہ امریکہ کی چین پالیسی میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں خاطر خواہ تیاری پہلے سے کرنی ہو گی کہ امریکا ان بدلے ہوئے حالات میں کس طرح چین کی جارحیت اور حقوقِ انسانی کی پامالی سے کیسے بااثر طور پر نمٹ سکتا ہے۔ اس کے لیے انہیں چین کے ساتھ باہمی تعلقات اور تائیوان کے مسئلے پر اپنی پالیسی کو صاف الفاظ میں واضح کرنا ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021