نکسل ازم کی تمام شکلوں کو، چاہے وہ بندوق والی ہوں یا قلم والی، شکست دینی ہوگی: وزیر اعظم مودی

نئی دہلی، اکتوبر 28: وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کو ملک کی اندرونی سلامتی کے بارے میں بات کرتے ہوئے نکسل ازم کو ختم کرنے پر زور دیا۔

وزیر اعظم نے وزرائے داخلہ کے ’’چنتن شِوِر‘‘ میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’نکسل ازم کی ہر شکل، چاہے وہ بندوق والی ہو یا قلم والی، انھیں ملک کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے سے روکنے کے لیے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پچھلے آٹھ سالوں میں ملک میں نکسل ازم سے متاثرہ اضلاع کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جموں و کشمیر ہو یا شمال مشرق، آج ہم مستقل امن کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب ہمیں انفراسٹرکچر سمیت ان تمام شعبوں میں تیز رفتار ترقی پر توجہ دینی ہوگی۔‘‘

وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ جعلی خبریں قومی تشویش کا معاملہ بن سکتی ہیں۔ انھوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ معلومات کو دوسروں تک پہنچانے سے پہلے اس کا تجزیہ اور تصدیق کرنے کے بارے میں خود کو آگاہ کریں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں جعلی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تکنیکی ترقی کے ساتھ آنا ہوگا۔‘‘

اس بات کی نشان دہی کرتے ہوئے کہ جرائم اب مقامی نہیں رہے، مودی نے ریاستی اور مرکزی ایجنسیوں کے درمیان باہمی تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو جرائم سے نمٹنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ کام کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ اسمارٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے امن و امان کے نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

مودی نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت نے امن و امان کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے کئی اصلاحات متعارف کروائی ہیں، جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ ان سے ملک میں پرامن ماحول کو برقرار رکھنے میں مدد ملی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’UAPA [غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ] جیسے قوانین نے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں نظام کو طاقت بخشی ہے۔‘‘

سخت قانون سازی کی دفعات کے تحت تفتیشی ایجنسیوں کو کیس کی تحقیقات کے لیے 180 دن ملتے ہیں، جب کہ عام فوجداری قانون کے تحت 60-90 دن ملتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ملزم چھ ماہ کے بعد ہی ضمانت کی درخواست دینے کا اہل ہے۔

معلوم ہو کہ انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کئی کارکنوں اور صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں اسٹین سوامی، اریندرو لیچومبم، عمر خالد اور فہد شاہ شامل ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں اور سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ سابق ججوں نے بھی اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی سخت دفعات کو اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے اندھا دھند استعمال کیا جا رہا ہے۔