بھارتی کف سیرپ پینے کی وجہ سے گیمبیا میں 66 بچوں کی موت، تحقیقات جاری

نئی دہلی: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)نے متنبہ کیا ہے کہ افریقی ملک گیمبیا میں گردے میں زخم کی وجہ سے 66 بچوں کی موت کا تعلق ان چار کف سیرپ سے ہو سکتا ہے، جو بھارت کی ایک دو ساز کمپنی نے  کھانسی اور سردی سے بچنے کے لیے تیار کیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اڈھانوم گیبریئسوس نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صحت سے متعلق اقوام متحدہ کا ادارہ بھارتی ریگولیٹرز اور ہریانہ کی دوا ساز کمپنی ‘میڈن فارماسیوٹیکل’ کے ساتھ مل کر اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے  ان چار کف سیرپ کے تعلق سے ریگولیٹرز کو تاکید کی ہے کہ وہ بھارتی دوا ساز کمپنی  کی جانب سے بنائے گئے چاروں کف سیرپ کو مارکیٹ سے فوری طور پر ہٹا دیں۔

اس الرٹ کے مطابق ابھی تک ایسی دواؤں کی شناخت صرف گیمبیا میں ہوئی ہے، تاہم ہو سکتا ہے کہ غیر رسمی طریقوں سے یہ دوائیں دیگر ممالک میں بھی پہنچا دی گئی ہوں۔

ڈبلیو ایچ او نے متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ ”دوا بنانے والوں نے ان دواؤں کے علاوہ اسی طرح کا آلودہ مواد دوسری مصنوعات میں بھی استعمال کیا ہو اور انہیں مقامی طور پر فروخت کیا ہو یا پھر دوسرے ممالک میں برآمد بھی کیا ہو، اس لیے عالمی سطح پر اس کی دستیابی ممکن ہے۔ان چاروں کف سیرپ کو مارکیٹ سے فوراً ہٹانا ہوگا تاکہ اس کے مضر اثرات سے مریضوں کو بچایا جاسکے۔”

عالمی ادارہ صحت نے جن چار کف سیرپ کی نشاندہی کی  ہےوہ یہ ہیں: Promethazine Oral Solution,  Kofexmalin Baby Cough Syrup, Makoff Baby Cough Syrup اور Magrip N Cold Syrup۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کہا کہ اس کے لیبارٹری کے تجزیے سے ان دواؤں میں ڈائی تھیلین گلائکول اور ایتھیلین گلائکول کی بہت زیادہ مقدار کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے الرٹ کے مطابق، یہ دونوں مادے انسانوں کے لیے زہریلے ہیں اور گردے کو شدید طور پر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

الرٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”مذکورہ مینوفیکچرر نے ان مصنوعات کے تحفظ اور معیار  سے متعلق آج تک کوئی ضمانت بھی فراہم نہیں کی۔”

بھارتی حکومت کی تفتیش

عالمی ادارہ صحت کے الرٹ کے بعد بھارتی حکومت نے بھی ان دواؤں کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ بھارتی خبر رساں اداروں کے مطابق اس دوا ساز کمپنی کا تعلق دہلی سے متصل ریاست ہریانہ کے شہر سونی پت سے ہے، جو دارالحکومت دہلی کے مضافات میں واقع ہے۔

بھارتی میڈیا نے سرکاری حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق دوا ساز کمپنی نے یہ سیرپ صرف گیمبیا ہی برآمد کیا۔ تاہم کمپنی کی جانب سے اس بارے میں تا حال کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

گیمبیا اموات کی تحقیقات کر رہا ہے

گیمبیا میں جولائی کے اواخر میں پانچ برس سے کم عمر کے بچوں میں گردے میں شدید زخم کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جب کم از کم 28 بچوں کے گردے فیل ہو جانے سے موت ہو گئی تو گزشتہ ماہ حکومت نے ان اموات کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان واقعات کے بعد ملک کی وزارت صحت نے اسپتالوں پر زور دیا تھا کہ وہ شربت پر مبنی پیراسیٹامول والی ادویات کا استعمال بند کر دیں۔

گیمبیا خسرہ اور ملیریا جیسی متعدد خطرناک بیماریوں کی ہنگامی صورتحال سے پہلے ہی دوچار ہے اور ان سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے اعلیٰ ذرائع نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او نے ڈرگ کنٹرولر جنرل آف انڈیا (ڈی سی جی آئی) کو کھانسی کےسیرپ کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سنٹرل ڈرگس اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن نے فوری طور پر ہریانہ ریگولیٹری اتھارٹی کے ساتھ معاملہ اٹھایا اور اس کی  تفصیلی جانچ شروع کر دی ہے۔کھانسی کے سیرپ سونی پت، ہریانہ میں میسرز میڈن فارماسیوٹیکل لمیٹڈ کے ذریعہ تیار کیے جاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرم نے یہ مصنوعات صرف گیمبیا کو برآمد کی تھیں۔ کمپنی نے ابھی تک ان الزامات کا جواب نہیں دیا ہے۔

ہریانہ حکومت نے سونی پت کی ایک فرم کی طرف سے تیار کردہ کھانسی کے چاروں سیرپ کے نمونے جانچ کے لیے کولکاتہ کی سنٹرل فارماسیوٹیکل لیبارٹری کو بھیجے ہیں۔

ریاست کے وزیر صحت انل وج نے جمعرات کو کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے انتباہ کے ایک دن بعد کہ اس دوا کی جانچ کی جانی چاہئے۔

گیمبیا میں 66 بچوں کی ہلاکت پر انل وِج نے کہا کہ نمونے ڈرگ کنٹرولر جنرل آف انڈیا (DCGA)اور ہریانہ کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک ٹیم نے اکٹھے کیے ہیں اور جانچ کے لیے CDL، کولکاتہ کو بھیجے ہیں۔

انل وج نے کہا کہ مرکز کے فارماسیوٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینئر افسر نے ہریانہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (صحت)سے بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارما کمپنی کے ذریعہ تیار کردہ کھانسی کے سیرپ کو برآمد کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ یہ ملک میں فروخت یا مارکیٹنگ کے لیے دستیاب نہیں ہے۔

سی ڈی ایل کی رپورٹ آنے کے بعد جو بھی کارروائی کرنی ہے، وہ کی جائے گی۔ رپورٹ آنے کے بعد ہی ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ گیمبیا میں ہونے والی اموات ان ادویات کی وجہ سے ہوئیں یا کوئی اور وجہ ہے۔

ایک پریس کانفرنس میں جب اس معاملے کے بارے میں پوچھا گیا تو وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے کہا کہ مرکز اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ جب کہ ان ادویات کو تیار کرنے والی کمپنی نے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، اس کی ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ 30 سال سے زائد عرصے سے ادویات تیار اور سپلائی کر رہے ہیں۔