اڈانی دولت مند یا مقروض؟

ایک عام ہندوستانی شہری کی آمدنی اس وقت دوگنی ہو سکتی ہے جب اسے 18 سال لگاتار محنت کرنا پڑے لیکن اڈانی صاحب کی آمدنی محض ایک سال میں دگنی سے زیادہ ہو گئی؟ آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

آج ہم ذکر کریں گے دنیا کے دوسرے متمول ترین شخص کا۔ اس کا تعلق ہمارے ہی ملک سے ہے اور یہ اسی ریاست سے تعلق رکھتا ہے جس ریاست سے وزیر اعظم مودی کا تعلق ہے۔ اس کے دولت کمانے کا انداز نرالا ہے، یہ چند ہی مہینوں میں ارب پتی بن گیا ہے۔ پہلے وہ بھارت کا امیر ترین آدمی بن گیا پھر ایشیاء کا امیر ترین آدمی بنا اور اب وہ دنیا کا دوسرا امیر ترین آدمی ہے۔ یہ جس طریقے سے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ بہت جلد پہلے نمبر پر پہنچ جائے گا۔ اس وقت اس کی ایک دن کی آمدنی ایک ہزار چھ سو بارہ کروڑ روپے ہو چکی ہے۔ محض ایک سال میں اس کی دولت 5 لاکھ 88 ہزار 5 سو کروڑ روپے ہو گئی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 116 فیصد زیادہ ہے۔ اس وقت اڈانی کی دولت 10 لاکھ 94 ہزار 4 سو کروڑ روپے ہو گئی ہے۔
ایک ایسا شخص جسے دس پندرہ سال قبل شاید ہی کوئی جانتا تھا دس سال قبل جس کی آمدنی مکیش امبانی کی آمدنی کا صرف 1/6 حصہ تھی آج امبانی سے 40 فیصد آگے بڑھ چکا ہے۔ مکیش امبانی جو ریلائنس گروپ کے کرتا دھرتا ہیں جو کئی بڑی صنعتوں کے مالک ہیں، ان کی آمدنی 2021 اور 2022 کے دوران صرف 11 فیصد بڑھی ہے۔ گزشتہ 5 سالوں میں مکیش امبانی کی دولت میں 115 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ اڈانی کی دولت میں محض گزشتہ ایک سال میں 116 فیصد کا اضافہ ہوا، یعنی مکیش آمبانی نے 5 سالوں میں جتنی دولت جمع کی اتنی اڈانی نے صرف ایک سال میں ہی جمع کر لی۔ یہ تعجب کی بات نہیں تو اور کیا ہے۔ سیرم انسٹیٹوٹ آف انڈیا جو کہ ملک کا بہت ہی مشہور صنعتی گھرانہ ہے، اس نے کوویڈ کے زمانے میں دنیا بھر کے لیے ویکسین کی فراہمی کی تھی۔ اس کی آمدنی بھی پچھلے سال کے مقابلے میں 25 فیصد بڑھی ہے، یہ بھی کوئی معمولی اضافہ نہیں ہے۔ اس ادارے نے دنیا کو اس وقت ویکسین فراہم کی تھی جب دنیا میں کاروباری سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہوئی تھیں اس وقت صرف اسی ادارے کی دوائیں بک رہی تھیں۔ اس وقت بھی اس ادارے کی آمدنی میں اتنا اضافہ نہیں ہوا جتنا وزیر اعظم کے جگری دوست گوتم اڈانی کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ فطری ترقی ہے؟ کیا کوئی شخص اس قدر اندھا دھند طریقے سے دولت جمع کر سکتا ہے؟ آخر اس ترقی کے پس پردہ راز کیا ہے؟ دولت میں بے تحاشا اضافہ فطری تو نہیں کہلایا جا سکتا۔ دنیا کوویڈ سے بے حال ہے۔ اس بیماری نے بہت سے بڑی بڑی معیشتوں کو برباد کر دیا ہے، دنیا اس کے منفی اثرات سے ابھی تک ابھر نہیں پائی ہے۔ ہمارا ملک بھی اس میں شامل ہے۔ پھر کس طرح ایک شخص کی آمدنی میں اس قدر اضافہ ہوا؟
ایک ہندوستانی شہری کی آمدنی اس وقت دوگنی ہو سکتی ہے جب اسے 18 سال لگاتار محنت کرنا پڑے لیکن اڈانی صاحب کی آمدنی محض ایک سال میں دگنی سے زیادہ ہو گئی؟ آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟ تعجب اس بات پر ہے کہ ان کی دولت میں دگنا اضافہ اس وقت ہوا جب کہ ان کی دولت لاکھوں کروڑ ہے۔ کسی شخص کی آمدنی اگر دس ہزار روپے ہو تو وہ اسے تھوڑی بہت مشقت سے دگنی کر سکتا ہے اور اگر کسی کی آمدنی دس لاکھ ہو تو اسے دگنی کرنے میں بہت زیادہ مشکلات پیش آ سکتی ہیں لیکن اگر کسی شخص کی آمدنی ہزاروں کروڑ میں ہو اس کا دگنا ہونا تعجب خیز امر ہے۔ آپ کسی بھی زاویہ سے اس کا تقابل کر لیں اس اضافہ کو فطری اضافہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اس کے پیچھے کیا راز ہیں یہ تو خدا ہی جانے لیکن اگر کسی نے جاننے کی کوشش کی تو ہم نے دیکھا کہ اس کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا۔ یہاں کچھ واقعات، کچھ اتفاقات ایسے درج کیے جا رہے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے اور جو اخبارات کی سرخیاں بنیں۔ وزارت خزانہ کے کچھ ذمہ داروں نے بھی اس پر کچھ کہا اور نیتی آیوگ نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
پہلا واقعہ: نیتی آیوگ جو پہلا منصوبہ بندی کمیشن ہوا کرتا تھا اس نے اور وزارت خزانہ کے کچھ اداروں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہوائی اڈوں کا خانگی اداروں کو اور ان میں بھی ایک ہی ادارے کے حوالے کر دینا صحیح فیصلہ نہیں ہو گا اور اصولوں کے خلاف بھی ہو گا۔ پہلا اصول یہ ہے کہ ایک خانگی ادارے کو زیادہ سے زیادہ صرف دو ہی ہوائی اڈے دیے جا سکتے ہیں دو سے زیادہ نہیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ یہ ایسے ادارے کو نہیں دیے جا سکتے جسے اس میدان میں کوئی تجربہ نہ ہو۔ لیکن اڈانی کے معاملے میں مذکورہ دو اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پورے چھ ہوائی اڈے ان کے حوالے کر دیے گئے جبکہ انہیں اس میدان میں کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔ یہ نیتی آیوگ کی سفارشات کے بھی خلاف تھا اور یونین فائنانس کمیشن کی سفارشات کے خلاف بھی۔ لیکن مودی ہے تو ممکن ہے۔ ایک ہوائی اڈے کو لینے پر دو کمپنیوں جی وی کے اور اڈانی گروپ میں تنازعہ ہو گیا اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ دو تین کے اندر ہی جی وی کے پر ای ڈی اور سی بی آئی کے دھاوے پڑ گئے۔ جیسے ہی دھاوے پڑے جی وی کے اس معاملے سے باہر ہو گئی اور اس پروجیکٹ کو سستےداموں پر آندھرا پردیش حکومت نے اڈانی گروپ کے حوالے کر دیا۔
دوسرا واقعہ: سری لنکا میں اڈانی گروپ کو کسی بھی بولی کے بغیر دیدیا گیا، اس میں بھی حکومت کے ملوث ہونے کی خبریں آئیں۔ سری لنکا کی پارلیمنٹ میں اور میڈیا میں یہ بات آئی کہ وزیر اعظم مودی کے دباؤ کی وجہ سے یہ پروجیکٹ اڈانی گروپ کو دیا گیا۔ بینکس بھی اڈانی گروپ کو بڑی ہی راز داری اور بڑی فراخ دلی کے ساتھ قرض فراہم کر رہے ہیں۔ کیا ان بینکوں پر بھی کسی کا دباؤ تو نہیں؟ کریڈیٹ سائٹس نامی ادارے نے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ بینکوں نے انہیں بے دریغ قرض دیا ہے جو ان کی دولت میں اضافہ کی ایک وجہ ہے۔ فیچ گروپ جو کریڈیٹ سائٹس کا ہی ایک حصہ ہے، اس کا کہنا ہے کہ اڈانی گروپ نے اپنی استطاعت سے زیادہ قرض لیے ہیں۔ اس نے اپنے پاس موجود سارے اثاثوں سے کئی گنا زیادہ بینکوں سے قرض لیا ہے یعنی ایک روپے کے مقابلے میں بینکوں نے اسے دو ہزار دو سو روپے قرض دیا ہے۔ اگر اڈانی گروپ قرضوں کی واپسی نہیں کرے گا تو یہ نہ صرف کمپنی کا نقصان ہو گا بلکہ پورا بینکنگ شعبہ تباہ ہو جائے گا اور ملک کے معاشی نظام پر بھی شدید اثرات مرتب ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ ملک کا معاشی دیوالیہ نکل جائے۔ بینکوں کا کسی کمپنی کو اس قدر بھاری قرض دینا اور وہ بھی کسی اصول کے بغیر، اسے کسی بھی صورت میں صحیح نہیں کہا جا سکتا۔ یہ پیسہ جو بینکوں میں جمع ہے وہ عوام کا ہے نہ کہ حکومت کا؟ عوام کے جمع کیے ہوئے پیسے کو واپسی کی ضمانت کے بغیر ایک کمپنی کو دینا کہا تک درست ہے؟ کسانوں کو قرض دیا جاتا ہے تو ان سے ہزاروں ضمانتیں لی جاتی ہیں، پچاسوں ضوابط پورے کروائے جاتے ہیں اور وصولی بھی بڑی سختی کے ساتھ کی جاتی ہے جب کہ ان لاڈلوں کو مراعات دی جاتی ہیں، ان سے قرض کی وصولی میں نرمی کی جاتی ہے، مہلت پر مہلت دی جاتی ہے۔
ان سارے واقعات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اڈانی کی ترقی میں حکومت کا ہاتھ ہے۔ آثار وقرائن تو یہی بتاتے ہیں کہ حکومت کی چھتر چھایا میں ہی ان کی ترقی ہو رہی ہے۔ ایک طرف ملک میں بیس کروڑ عوام سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جنہیں کھانے کے لیے ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں جن کی آمدنی فی یوم محض تین سو روپے ہے ان کی آمدنیوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، اڈانی کی ایک دن کی آمدنی کو اگر پانچ کروڑ لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے تو وہ سطح غربت کے زمرے سے نکل جائیں۔ ملک کی اتنی بڑی آبادی کا یہ حال ہے اور دوسری طرف گنتی کے چند سرمایہ دار (وہ بھی ایسے سرمایہ دار جو اپنے پاس موجود دولت سے زیادہ مقروض ہیں) ان کی دولت دوگنی چوگنی ہوتی جاتی ہے۔ ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے تو دوسری طرف دولت میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی جنگ جاری ہے۔
اس موقع پر قارئین سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ سورہ التکاثر کا بغور مطالعہ کریں تاکہ دنیا کی حقیقت واضح ہو جائے۔ انسان کے اندر حرص و طمع ہی وہ چیز ہے جو اس کے اندر دولت جمع کرنے کی خواہش پیدا کرتی ہے، حالانکہ یہ دولت اس کے کچھ بھی کام نہیں آ سکتی اگر وہ ایمان اور عمل صالح کے بغیر دنیا سے جائے۔
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُتمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا۔ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ہرگز نہیں! (مال و دولت تمہارے کام نہیں آئیں گے) تم عنقریب (اس حقیقت کو) جان لو گے۔ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ پھر (آگاہ کیا جاتا ہے:) ہرگز نہیں! عنقریب تمہیں (اپنا انجام) معلوم ہو جائے گا۔ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ ہاں ہاں! کاش تم (مال و زَر کی ہوس اور اپنی غفلت کے انجام کو) یقینی علم کے ساتھ جانتے (تو دنیا میں کھو کر آخرت کو اس طرح نہ بھولتے)۔ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ تم (اپنی حرص کے نتیجے میں) دوزخ کو ضرور دیکھ کر رہو گے۔ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ پھر تم اسے ضرور یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ پھر اس دن تم سے (اللہ کی) نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا (کہ تم نے انہیں کہاں کہاں اور کیسے کیسے خرچ کیا تھا)
***

 

***

 انسان کے اندر حرص و طمع ہی وہ چیز ہے جو اس کے اندر دولت جمع کرنے کی خواہش پیدا کرتی ہے، حالانکہ یہ دولت اس کے کچھ بھی کام نہیں آ سکتی اگر وہ ایمان اور عمل صالح کے بغیر دنیا سے جائے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022