عمر عبداللہ کی حراست پر سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر انتظامیہ سے جواب طلب کیا

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ کی حراست کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جموں و کشمیر انتظامیہ کو نوٹس جاری کیا۔ عمر عبداللہ پر پی ایس اے نافذ کرنے کو ان کی بہن سارہ عبد اللہ پائلٹ نے عدالت میں چیلنج کیا ہے۔

جسٹس ارون مشرا اور جسٹس اندرا بنرجی کے بنچ نے کہا کہ عدالت عظمی عمر عبد اللہ کی حراست کے جواز کی جانچ کرے گی اور سارہ عبداللہ پائلٹ کی درخواست پر عدالت نے جموں و کشمیر انتظامیہ کو نوٹس جاری کیا ہے۔

سارہ نے کہا ’’ہم امید کرتے ہیں کہ ہمیں جلد ہی راحت مل جائے گی۔ ہمیں عدالتی نظام پر مکمل اعتماد ہے۔ ہم یہاں موجود ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ تمام کشمیریوں کو وہی حقوق ملنے چاہیے جو تمام ہندوستانیوں کو ہیں اور ہم اس دن کے منتظر ہیں۔‘‘

اس مقدمے کی اگلی سماعت 2 مارچ کو ہوگی۔ تاہم عدالت نے سارہ عبداللہ کی جانب سے پیشی کرتے ہوئے وکیل کپل سبل کی درخواست کو مسترد کردیا جس میں انھوں نے اگلے ہفتے ہی معاملے پر سماعت کرنے کی اپیل کی تھی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سارہ عبداللہ پائلٹ کی درخواست پر سماعت بدھ کے روز ملتوی کردی تھی، جب سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس موہن شانتنا گودر، جو تین ججوں کے بنچ میں شامل تھے، نے سماعت سے خود کو الگ کر لیا تھا۔

جموں وکشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف PSA کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پچھلے سال اگست میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد سے ہی یہ دونوں رہنما گھروں میں نظربند ہیں۔

عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی پر ان کی چھ ماہ کی حراست کی مدت ختم ہونے کے بعد PSA کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، ساتھ ہی نیشنل کانفرنس (این سی) کے رہنما علی محمد ساگر اور پی ڈی پی رہنما سرتاج مدنی سمیت دو دیگر رہنماؤں پر بھی پی ایس اے نافذ کیا گیا ہے۔

سارہ نے اپنی درخواست میں کہا کہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف رائے جمہوریت میں ہر شہری کا اور خاص طور پر اپوزیشن کے ممبر کا قانونی حق ہے۔

انھوں نے کہا کہ عمر کے خلاف الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہے، نہ ہی سوشل میڈیا پوسٹوں پر یا کسی اور طرح سے۔ عدالت عظمیٰ کے روبرو دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمر عبداللہ نے ہمیشہ عوام سے امن برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پی ایس اے کے تحت نظربندی کے حکم کے ساتھ عمر کے حوالے کیے جانے والے ڈوزیر میں جھوٹے اور مضحکہ خیز الزامات لگائے گئے ہیں۔