یہ ’ٹائم‘ کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

دبنگ دادی: کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈاکٹر سلیم خان

 

معروف امریکی عالمی جریدہ ٹائم (وقت) نے ایک رعونت پسند وزیر اعظم کو اس کی اوقات دکھا دی کیونکہ اس میں ایک دبنگ دادی نے نام نہاد دبنگ پردھان سیوک کو مات دے دی۔ ٹائم میگزین کے بااثر شخصیات کی شمولیت کی فہرست میں جو ہوا وہ وہم گمان سے پرے تھا۔ اس معاملے کا ایک پہلو سیاسی اور دوسرا دینی ہے لیکن چونکہ دین اسلام سیاست کی تفریق سے بالاتر ہے اس لیے دونوں کا احاطہ کیا جانا چاہیے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی عالمی شہرت کا گراف دیکھنا ہو تو اسے ٹائم میگزین میں ان پر لکھے جانے والے مضامین سے جانچا جاسکتا ہے۔ ابھی تک جملہ چار مرتبہ مودی کو بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد تین اور پہلے ایک بار انہیں یہ اعزاز بخشا گیا تھا۔ 2012 میں جس وقت وزیر اعظم کے عہدے کے لیے مودی جی کے امیدوار بنائے جانے کی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں اس وقت ٹائم نے انہیں بااثر شخصیات میں شمار کیا تھا۔ 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد ایک بار اور 2015 میں دوسری بار وہ ٹائم کے صفحہ اول پر نظر آئے۔ 2016 میں ناغہ ہوگیا۔ 2017 میں پھر سے ان کے درشن ہوئے 2018 اور 2019 میں غائب رہنے کے بعد اب 2020 میں پھر ایک بار وہ نمودار ہوئے ہیں۔
مثل مشہور ہے بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ اسی طرح ٹائم کی بااثر شخصیت کا نیک نام ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اس شخصیت سے متعلق لکھے جانے والے تاثرات سے کیا جاتا ہے۔ 2012 میں ان کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا (Modi means business) یعنی ’مودی کاروباری ہیں‘ یا ’وہ سودے بازی کرنا چاہتے ہیں‘۔ یہ ایک محتاط اور معتدل سرخی تھی جس کے اندر منفی و مثبت دونوں پہلو موجود تھے لیکن مضمون کے اندر یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا وہ ہندوستان کی قیادت کرسکتے ہیں؟ بھکتوں نے اس سوال کو مودی کی قائدانہ صلاحیت پر سوالیہ نشان کہ کر ناراضی کا اظہار کیا، حالانکہ وقت نے ثابت کر دیا کہ وزیر اعظم ایک ایسے خطیب ضرور ہیں جو انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ملک کی قیادت کرنا ایک دیگر مسئلہ ہے۔ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ بی جے پی کے پرچار منتری نہیں بلکہ ہندوستان کے پردھان منتری ہیں۔ اپنے آپ کو ایک باصلاحیت رہنما ثابت کرنے میں مودی ہنوز کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اور آئندہ بھی اس کا امکان مفقود نظر آتا ہے۔
2015 میں جب مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے پہلا سال مکمل کر لیا تو ٹائم میگزین نے لکھا تھا (Why Modi matters) یعنی مودی کیوں اہم ہیں؟ لیکن اسی کے ساتھ یہ سوال اٹھا کر کہ کیا وہ نتائج برآمد کرسکتے ہیں (?Will he be able to deliver) مودی کی کارکردگی پر شکوک شبہات کا اظہار کیا۔ مودی بھکت اس لیے ناراض ہوئے کہ 12 سالوں تک کامیاب وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے وزیر اعظم بننے والی عظیم شخصیت کے متعلق یہ سوال کرنا کہ کیا وہ کام کرنے لائق ہیں یا قابلِ اعتماد ہیں یا نہیں مناسب نہیں تھا۔ 2016 کے ٹائم عالمی نمبر میں ثانیہ مرزا اور پرینکا چوپڑا کو تو ’دنیا کے 100 سب سے زیادہ بااثر‘ لوگوں میں شامل کیا گیا لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نظر انداز کردیے گئے حالانکہ یہ غیر اہم بات تھی لیکن اس کو بھی محسوس کیا گیا۔ اس سال ٹائم میگزین نے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے گورنر رگھورام راجن کو موثر شخصیات کی فہرست میں جگہ دے کر ’ہندستان کا دور اندیش بینکر‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔ غالباً یہی سبب تھا کہ مودی جی نے راجن کی چھٹی کردی تھی۔
2019 میں انتخابی مہم کے دوران ٹائم میگزین نے مودی کو (India’s Divider in Chief) کے خطاب سے نواز دیا۔ مودی کے تعارف پر یہ سرخی معروف کالم نگار تولین سنگھ کی بیٹے آتش تاثیر نے لگائی تھی۔ پلوامہ حملے کے بعد انہوں نے جس جارحانہ انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائی تھی اس کے تناظر میں مودی کو ’ہندوستان کا سب سے زیادہ انتشار پیدا کرنے والا سپہ سالار‘ کہنا غلط نہیں تھا۔ ٹائم نے یہ اعتراف کیا تھا کہ مودی ایک مصلح کی حیثیت سے آئے تھے لیکن اب بگاڑ پیدا کر رہے تھے۔ مودی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کو پیش کرنے کے بعد یہ سوال کیا گیا تھا کہ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مودی حکومت کے مزید پانچ سال برداشت کر پائے گی؟ آتش تاثیر نے اپنے شعلہ بار مضمون میں پی ایم نریندر مودی کے کام پر سخت تنقید کرتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو کے سماجواد اور ہندوستان کی موجودہ سماجی حالت کا موازنہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا تھا کہ ’’نریندر مودی نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کے جذبہ کو پروان چڑھانے سے متعلق کوئی خواہش ظاہر نہیں کی۔‘‘
مضمون نگار نے بلا خوف و خطر لکھا تھا کہ ’’نریندر مودی کا اقتدار میں آنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان میں جس روشن خیال تہذیب (لبرل کلچر) کا مبینہ طور پر تذکرہ کیا جاتا تھا اس کی جگہ مذہبی راشٹرواد (قوم پرستی) مسلمانوں کے خلاف جذبات اور ذات پر مبنی شدت پسندی پنپ رہی تھی‘‘ اس مضمون میں اشارہ کیا گیا تھا کہ ’’2002 کے (گجرات) فسادات کے دوران اپنی خاموشی سے نریندر مودی ’فسادیوں کے لیے دوست‘ ثابت ہوئے‘‘ ۔ مودی کی قومی سطح پر اولین انتخابی کامیابی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ٹائم نے لکھا ’’2014 میں لوگوں کے درمیان پنپ رہے غصے کو نریندر مودی نے معاشی وعدے میں بدل دیا تھا۔ انہوں نے ملازمت اور ترقی کی بات کی۔ لیکن پھر آتش تاثیر نے گائے کے نام پر برپا ہونے والے ہجومی تشدد کے دوران مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی تفصیل پیش کرنے کے بعد اعتراف کیا کہ ’’مودی کے ذریعہ معاشی چمتکار لانے کا وعدہ ناکام ہو چکا ہے۔ یہی نہیں، انہوں نے ملک میں زہریلی مذہبی قوم پرستی (نیشنلزم) کا ماحول تیار کرنے میں مدد کی ہے۔‘‘
2019 کا انتخاب جیتنے کے بعد کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ، بابری مسجد پر متنازع فیصلہ اور سی اے اے کے قانون نے تو گویا ٹائم میگزین کی پیشنگوئی کو حرف بہ حرف سچ ثابت کردیا. اس کے بعد دوبارہ 2020 میں مودی کو بااثر شخصیات میں شامل کرکے ٹائم نے وہ لکھ دیا کہ ان کے سارے بھکت شرم سے پانی پانی ہوگئے۔ اس پر معروف صحافی رعنا ایوب نے ٹویٹ کیا کہ ان (مودی) کی پی آر مشینری (یعنی آئی ٹی سیل) اس کے بارے میں ٹویٹ نہیں کرے گی‘‘ اس بار وزیر اعظم نریندر مودی کا تعارف کراتے ہوئے پہلے تو یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ ’’جمہوریت کے لیے بنیادی بات محض آزادانہ انتخابات نہیں ہیں۔ انتخابات محض یہی طے کرتے ہیں کہ کسے سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ لیکن اس سے زیادہ اہمیت ان لوگوں کے حقوق کی ہے، جنہوں نے جیتنے والوں کو ووٹ نہیں دیا۔ ہندوستان گزشتہ سات دہائیوں سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر برقرار ہے‘‘۔
اس کے بعد ٹائم میگزین نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ’’یہاں (ہندوستان میں) 1.3 ارب آبادی میں مسیحی، مسلمان، سکھ، بودھ، جین اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ یہ سب ہندوستان میں رہتے ہیں، جس کی دلائی لاما ہم آہنگی اور استحکام کی مثال کے طور پر تعریف کرتے ہیں۔ نریندر مودی نے ان تمام باتوں کو تشویش کے دائرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کے اب تک کے تقریباً سبھی وزرائے اعظم ہندو برادری سے آئے ہیں جو کہ آبادی کا 80 فیصد ہیں، لیکن مودی اکیلے ہیں جنہوں نے ایسے حکومت چلائی جیسے انہیں کسی اور کی کوئی پروا ہی نہیں۔ ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے خاص طور پر مسلمانوں کو ہدف بنا کر حکمران اشرافیہ کے علاوہ تکثیریت کو بھی مسترد کیا۔ کورونا وبا ان کے لیے مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنے کا بہانہ بن گئی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مزید تاریکی کی گہرائیوں میں چلی گئی“ وزیر اعظم کی کارکردگی کو بیان کرنے کے لیے اس سے زیادہ سخت اور مناسب الفاظ کا انتخاب ممکن نہیں تھا۔
امریکہ کے اس مقبول جریدے ٹائم نے امسال دنیا کے 100 بااثر افراد کی فہرست میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ گوگل کے سربراہ سندر پیچائی، اداکار آیوشمان کھرانا، سائنسداں رویندر گپتا اور متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دہلی کے شاہین باغ کا دبنگ چہرہ بن کر سامنے آنے والی 82 سالہ خاتون بلقیس بانو کو شامل کر کے مودی بھکتوں کی نیند اڑا دی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ 100 بااثر شخصیات میں بلقیس بانو کا تعارف اسی رعنا ایوب نے لکھا جس نے 2002 فسادات کے بعد ہندو فسطائیوں کے چہرے پر پڑی نقاب کو نوچ کر پھینکا تھا۔ وہ اپنے مضمون میں اس طرح رقمطراز ہیں کہ ’’بلقیس حاشیے پر لگائے گئے افراد کی آواز بن گئیں۔ ایک ایسے ملک میں مزاحمت کی علامت بن گئیں جہاں خواتین اور اقلیتوں کی آوازوں کو مودی حکومت کی اکثریتی سیاست میں مسلسل دبایا جا رہا ہے‘‘ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف شاہین باغ کا یہ مظاہرہ پورے ملک میں اسی طرز کے مظاہروں کا سبب بنا اور 101 دنوں تک جاری رہا۔ کورونا کا بہانہ بناکر 24؍ مارچ کو پولیس نے اسے زبردستی ختم کروایا۔
شاہین باغ تحریک کی 3؍ دادیاں اسماء، سروری اور بلقیس دبنگ دادیوں کے نام سے مشہور ہوئیں۔ انہوں نے سخت سردی اور بارش کے موسم میں بھی ہمت نہیں ہاری اور مظاہرے کی قیادت کی۔ تحریک پر ہونے والے حملے کا انہوں نے زبردست ثابت قدمی اور عقل مندی سے دفاع کیا۔ الیاس شریف الدین نامی ایک فیس بک صارف کے مطابق بلقیس بانو نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے فسطائیوں سے کہا تھا کہ ’جب تک میری رگوں میں خون دوڑتا رہے گا میں لڑتی رہوں گی۔ بی جے پی والوں نے جب الزام عائد کیا کہ شاہین باغ میں احتجاجی دھرنے پر بیٹھنے والی خواتین کو روزآنہ پانچ سو روپے ملتے ہیں تو بلقیس بانو کا جواب تھا: ’مودی جی آپ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ ہم نے آپ کو کرسی پر بٹھایا ہے اور ہم کرسی سے اتار بھی سکتے ہیں۔ ہم کسی سے نہیں ڈرتے ہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم آپ سے نہیں ڈرتے۔ ہم صرف اس سے ڈرتے ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔آپ ہمیں بےکار میں (یہ کہہ کر) بدنام کر رہے ہیں کہ یہاں بیٹھنے کے پانچ پانچ سو روپے ملتے ہیں۔ ہمت ہے تو آجائیے اور یہاں بیٹھیے، ہم آپ کو ایک لاکھ روپے دیں گے‘ یہ بات بھی مشہور ہے کہ جب امیت شاہ نے کہا ’ہم ایک انچ بھی نہیں ہٹیں گے تو بلقیس بانو بولیں ہم بال برابر پیچھے نہیں جائیں گے‘۔
شاہین باغ نیشنل موومنٹ کمیٹی کے منتظم شعیب جامعی کے مطابق اس اعزاز کے بعد دادی کسی سے نہیں مل رہی ہیں لیکن ان کی ہمت اور حوصلہ بلند ہے۔ دادی نے سب کو پیار بھیجا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے وہ لوگوں سے نہیں ملیں گی مگر سب کے لیے خاص طور پر جن بچوں کو جامعہ کے احتجاجی مظاہروں میں گرفتار کیا گیا ہے ان کے لیے دعائیں کی ہیں۔ شعیب جامعی نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری بلقیس دادی نے ہمیں شاہین باغ تحریک کے دوران متحرک رکھا۔ ہمیں ان کی باتوں سے حوصلہ ملتا رہا۔ تحریک کے دوران کئی مشکلات اور پریشانیاں آئیں لیکن دادی کو دیکھ کر ہماری ہمت بڑھ جاتی تھی‘۔ شاہین باغ تحریک کی بابت انہوں نے یہ وضاحت کی کہ ’اس میں سبھی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل رہے۔ بہت سی ہندو خواتین اس میں اول روز سے شریک رہیں‘
رعنا ایوب نے ٹائم میگزین کے اندر بلقیس بانو کی تصویر کشی کچھ اس طرح سے کی ہے ’’میں نے جب پہلی بار بلقیس بانو سے ملاقات کی تو وہ نوجوان احتجاجی خواتین کے درمیان میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان خواتین نے ہاتھوں میں جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ان پر انقلابی اشعار درج تھے۔ ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں قومی پرچم اٹھائے 82 سالہ بلقیس بانو بھارت کے پسماندہ طبقوں کی ایک آواز بن گئی ہیں، جو ٹھٹھرتی سردی میں بھی صبح کے آٹھ بجے سے نیم شب تک احتجاج میں شامل ہوتی تھیں‘‘۔ رعنا لکھتی ہیں ’’رخصت لیتے وقت دبنگ دادی نے مجھ سے کہا کہ میں یہاں رگوں میں خون کی گردش بند ہونے تک برسر احتجاج رہوں گی تاکہ ملک کے بچوں اور دنیا کے لیے انصاف و مساوات کی پرسکون فضا قائم ہو سکے‘ عدل و امن کے اس عظیم جذبہ کی قدر دانی کرتے ہوئے ٹائم میگزین نے انہیں دنیا کی 100 بااثر شخصیات میں شامل کیا ہے۔
پرچم و تسبیح کا یہ حسین امتزاج ہی دراصل اس عزت افزائی کی شاہ کلید ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’۔۔ یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے، ہر اُس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو‘‘۔ کس کے وہم و گمان میں یہ بات تھی کہ جس تحریک پر سرکار کی سرپرستی میں دلی پولیس کے ذریعہ فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کا بے بنیاد الزام لگایا جا رہا ہے اسے ایک مؤقر عالمی جریدے کی تائید و حمایت حاصل ہوجائے گی؟ لیکن مذکورہ آیت کا اختتامی حصہ یہ ہے کہ :’’جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔‘‘ یہی بات رسول اکرم ﷺنے بھی ارشاد فرمائی کہ : ’’جو استغفار کا اہتمام کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے مصیبت سے باہر نکلنے کا راستہ بنا دیتے ہیں، ہر فکر سے نجات عطا فرماتے ہیں، اور ایسے طریقہ پر رزق عطا کرتے ہیں، جس کا آدمی کو گمان بھی نہ ہو‘‘۔ دبنگ دادی بلقیس بانو کی بے مثال عالمی پذیرائی پر علامہ اقبال کے یہ اشعار صادق آتے ہیں ؎
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
کی محمّدﷺسے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

’’میں یہاں رگوں میں خون کی گردش بند ہونے تک برسر احتجاج رہوں گی تاکہ ملک کے بچوں اور دنیا کے لیے انصاف و مساوات کی پرسکون فضا قائم ہو سکے‘‘۔ عدل و امن کے اسی عظیم جذبہ کی قدر دانی کرتے ہوئے ٹائم میگزین نے شاہین باغ کی دادی کو دنیا کی 100 بااثر شخصیات میں شامل کیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020