یہ دستور کے تحفظ اور سیکولرازم کی بقا کی جنگ ہے :سوامی اگنی ویش
کنور (کیرلا) میں انجمن تحفظ دستورِ ہند کے تحت کلکٹریٹ میدان میں منعقد مہا ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سوامی اگنی ویش نے کہا کہ ہم ہر دس سال میں کی جانے والی مردم شماری کا تعاون کریں گے مگر باپ دادا کے مقام پیدائش اور ان کے کاغذات دکھانے کے لیے کہا جائے گا تو ہمیں پوچھنا چاہیے کہ کیا نریندر مودی کے پاس یہ کاغذات موجود ہیں؟
جدوجہدِ آزادی کے دوران مہاتما گاندھی نے جس تحریکِ عدم تعاون کو پیش کیا تھا ہمیں اس کی طاقت کو سمجھنا چاہیے۔ اگر وہ گولی ماریں تب بھی ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے۔ انٹرنیٹ کاٹ دیں تو ہم منہ سے بات کریں گے۔کرناٹک کے ایک اسکول میں سی اے اے کے خلاف ڈرامہ کرنے پر اساتذہ، اسکول کے طلباٗ اور ان کے والدین کے خلاف مقدمہ چلاکر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ کس قانون کے تحت کیا گیا جبکہ سرکار کے خلاف آواز اٹھانا کوئی جرم نہیں ہے بلکہ جمہوریت کی طاقت کی نشانی ہے جس کا ہر شہری کو حق حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ دہلی میں غداروں کو گولی مارو کا نعرہ بلند ہوا آخر کار کیا ہوا ؟ چناؤ کا نتیجہ آیا تو خود گولی کھا گئے۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ان کے کپڑوں سے پہچاننے والے جھارکھنڈ میں بھی ہار گئے۔ مودی اور امیت شاہ دونوں جھوٹ بول رہے ہیں۔ہندوستان کے عوام کو چاہیے کہ وہ متحد ہو کر ان کے خلاف جدوجہد کریں۔ ہندوَ مسلم سکھ عیسائی کا کوئی فرق نہیں ہے سب خدا کی مخلوق ہیں اور سب اسی ایک طاقت کی عبادت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا یہ تحفظ دستورِہند کی جنگ ہے۔ سیکولرزم کی بقا کی جنگ ہے۔نریندر مودی نے کہا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو ان کے لباس سے پہچان سکتے ہیں۔ اس کا پر زور ردعمل کرتے ہوئے سوامی اگنی ویش نے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے مولوی وی کے عبدالقادر نائب صدر مسلم لیگ کیرلا کو اپنے پاس بلایا اور اپنا زعفرانی عمامہ اتار کر ان کے سر پر رکھ دیا اور مولوی صاحب کی ٹوپی خود پہن لی اور پوچھا کیا وزیرِ اعظم پہچان سکتے ہیں کہ ہم دونوں میں کون زیادہ محبِ وطن ہے اور کون غدار ہے؟ یہ سن کر دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ ایم پی کنجالی کٹی نے احتجاج کا افتتاح کیا۔ اس احتجاج میں مختلف جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔