یوپی : بی ایس پی برہمن اتحاد سے ایک بڑی الٹ پھیر کی طرف
سیاسی پارٹیوں کی نیندیں حرام ۔ بی جے پی ناراض لوگوں کو منانے کے در پے
اکھلیش ترپاٹھی۔لکھنؤ
لیکن۔۔بھاجپا کس کس کو منائے گی ۔۔؟ تن ہمہ داغ داغ شد
بہوجن سماج پارٹی نےدانشوروں یعنی’ اہل علم ودانش‘، جس سے بہوجن سماج پارٹی کی مراد اعلی ذات برہمن سماج ہے‘ کی کانفرنس منعقد کر کے یوپی کی سیاست میں ایک نئی ہلچل مچا دی ہے۔ حکمراں بی جے پی سمیت اپوزیشن ایس پی بھی اس کانفرنس کے ذریعے بی ایس پی کی طرف سے برہمنوں کو پارٹی سے جوڑنے کی کوششوں سے پریشان نظر آ رہی ہے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ ریاست میں برہمن اور دلت رائے دہندگان کے اکٹھا ہوجانے سے سیاسی صف بندی کے پیمانے بگڑ سکتے ہیں اور سیاست میں بڑی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔
اتر پردیش میں سیاسی طورپر خود کو ختم ہونے سےبچانے کے لیےبی ایس پی نےیہ سیاسی جوا کھیل کرریاست کی سیاست کو گرما دیا ہے۔ ریاست میں برہمن ووٹروں کو بی ایس پی میں شامل کرنےکے لیے برہمن جوڑو مہم شروع کر کےبسپا نے تمام سیاسی پارٹیوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ مودی حکومت کی ایما پرسی بی آئی کی جانب سے کی جانے والی چھاپہ مارکارروائی سے خوف کھائی ہوئی مایاوتی پچھلے ساڑھے چار سال سے مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کی غلط پالیسیوں کی مخالفت کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کیے ہوئے تھیں جس کی وجہ سے بی ایس پی کا روایتی ووٹر بھی مایاوتی سے ناراض ہو گیا تھا اور وہ دوسری پارٹیوں میں اپنی جگہ تلاش کر رہا تھا۔مایاوتی کی خاموشی کی وجہ سے ریاست کی سیاست میں ایک احساس یہ بھی پیدا ہوا تھا کہ ہو نہ ہو مایاوتی اندرونی طور پر بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بی ایس پی کے ایم ایل ایز بھی اس کے خلاف ہوگئے اور مایاوتی کو پارٹی کو بچانے کے لیے بہت جدوجہد کرنا پڑی۔ بی ایس پی کے کچھ ایم ایل ایز نے پارٹی چھوڑ دی اور کچھ کو مایاوتی نے پارٹی سے نکال بھی دیا۔ اب بی ایس پی کے انیس ایم ایل ایز میں صرف سات رہ گئے ہیں۔ ایسے میں اگر دیکھا جائے تو مایاوتی کے پاس بی ایس پی کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے کوئی دوسرا آپشن سرے سے موجود ہی نہیں تھا ۔
ایسی صورت حال میں پارٹی کو از سر نو متحد کرنے اور اس میں جان ڈالنے کے لیےکسی ایک بڑے ایشو کی ضرورت تھی۔ ریاست میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کی طرف سے برہمنوں کے ظلم پر مایاوتی نے توجہ دی اور اسی کو ایشو بنا لیا اور اپنے خاص لوگوں سے مشورہ کے بعد برہمنوں کو پارٹی سے جوڑنے کا ارادہ کیا۔ مایاوتی نے سوچا ہوگاکہ اگر برہمن ووٹر ان کے ساتھ شامل ہو گئے تو وہ ریاست کی سیاست پر براہ راست اثر انداز ہو سکتی ہیں اور اسمبلی انتخابات میں کھیل بنا بھی سکتی ہیں اور بگاڑ بھی سکتی ہیں۔ اسی کے پیش نظر انہوں نے پارٹی رہنماؤں کو برہمنوں کو بی ایس پی کے ساتھ ضم کرنے کے اپنے فیصلہ سے آگاہ کیا اور پارٹی کے جنرل سکریٹری اور راجیہ سبھا کے رکن ستیش چندر مشرا کو یہ ذمہ داری سونپی۔
ستیش چندر مشرا نے بی جے پی کو اپنے ہی قلعہ ایودھیا میں گھیرنے کانفرنس کے لیے ایودھیا کا انتخاب کیا۔چونکہ بی جے پی اس کانفرنس سے متعلق پریشان تھی اس لیے اس نےذات پات کے نام پر کانفرنس کی اجازت نہ دیے جانے کی بات کہی تھی ۔ ایڈووکیٹ ستیش مشرا ایک ذہین آدمی ہیں انہوں نے بی جے پی کو اعتراض کا موقع نہ دیتے ہوئے برہمنوں کو پارٹی سے جوڑنے والی اس کانفرنس کو ’’دانشوروں کی کانفرنس‘ کا نام دیا۔ یہ کانفرنس تیئیس جولائی کو ایودھیا میں منعقد ہوئی جس سے مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رام جی کسی ایک طبقے سے تعلق نہیں رکھتے رام جی سب کے ہیں ، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ رام جی صرف اس کے ہیں تو وہ غلط فہمی میں ہے۔ یہ کہہ کر گویا ستیش چندر مشرا نے بی جے پی کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست میں برہمنوں اور دلتوں پر مظالم ہو رہے ہیں۔اس کا جواب روشن خیال طبقہ 2022 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں دے گا۔ انہوں نے کہا کہ رام مندر کے عطیہ کے نام پر کروڑوں روپے اکٹھے کیے گئے ہیں ، لیکن اس کا حساب ابھی تک عوام کو نہیں دیا گیا انہیں اس کا حساب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ رام مندر اور رام کے نام کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ عوام ہر چیز کو سمجھ رہی ہے ، عوام اسمبلی انتخابات میں اس کا حساب لیں گے۔ جب بی ایس پی اقتدار میں تھی ، روشن خیال طبقے کو تحفظ ، عزت اور ترقی ملی۔ روشن خیال طبقے کی حمایت سے جب اسمبلی انتخابات میں کامیابی ہوگی تو روشن خیال طبقے کو بھی اسی طرح حفاظت ، عزت اور ترقی ملے گی۔
ستیش مشرا نے کہا کہ ریاست میں تیرہ فیصد برہمن اور تیئیس فیصد دلت آبادی ہے اگر یہ اکھٹے ہوجاتے ہیں توکوئی بھی بی ایس پی کو اقتدار میں آنے سے نہیں روک سکے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی ایس پی کی’دانشوروں کی کانفرنس ‘میں برہمنوں کے علاوہ دلت طبقے کے ووٹرز بھی موجود تھے۔ حالانکہ اس کانفرنس کے متعلق خود بی ایس پی کو اتنی بڑی کامیابی کا یقین نہیں تھا ۔ اس کانفرنس میں برہمنوں کے مسائل اور حل پر بھی گفتگو ہوئی اور برہمنوں نے ستیش چندر مشرا پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔ستیش چندر مشرا نے امر دوبے کی بیوی خوشی دوبے کا مقدمہ بلا معاوضہ لڑنے کا اعلان کیا ہے جو کانپور کے انکاؤنٹر میں مارا گیا تھا۔
ایودھیا کے بعد ستیش چندر مشرا نے امبیڈکر نگر میں برہمنوں کو جوڑنے کے لیے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا۔ امبیڈکر نگر بی ایس پی کے سابق ریاستی صدر رام اچل راجبھر اور بی ایس پی قانون ساز پارٹی کے رہنما لال جی ورما کا ضلع ہے۔ مایاوتی نے انہیں کچھ عرصہ قبل پارٹی سے نکال دیا تھا اس لیے یہ کانفرنس بہت اہم رہی ہے۔یہاں بھی بہت سے لوگ بی ایس پی کے ساتھ کھڑے ہوئے نظر آئے۔ اسی طرح ضلع سلطان پور میں کدی پور ، کوشامبی ، پریاگ راج ، رائے بریلی ، امیٹھی اور دلتوں کے ساتھ ساتھ برہمنوں نے بھی ان کانفرنسوں میں حصہ لیا۔
ریاست میں موجود تمام سیاسی پارٹیاں برہمنوں کی بڑی تعداد میں بی ایس پی کی قربت سے پریشان ہیں کیونکہ آخری بار جب ریاست میں بی ایس پی کی حکومت بنی تھی ، اس وقت بھی اترپردیش میں بی ایس پی نے برہمن کانفرنسیں منعقد کی تھیں۔ ان کانفرنسوں کے ذریعے برہمن ووٹر بی ایس پی کے قریب ہوئے اور ریاست میں بی ایس پی کی حکومت قائم ہوئی۔ ان کانفرنسوں کا اہتمام اس وقت بھی ستیش چندر مشرا اور نکول دوبے جیسے لوگوں نے کیا تھا جس کے نتیجہ میں بی ایس پی کو اقتدار ملا تھا۔ اس بار بھی روشن خیال طبقے کی کانفرنس کے انعقاد کے پیچھے انہی لوگوں کا کردار ہے۔ سمجھا جا رہا تھا کہ اس بار کانفرنسوں میں بی ایس پی کو کامیابی نہیں ملے گی لیکن یہ ساری قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں۔
اب بی ایس پی نے مغربی اتر پردیش میں اسی طرح کی کانفرنسوں کے انعقاد کا پروگرام بنایا ہے۔ جس میں متھرا ، ورنداون ، آگرہ ، فیروز آباد ، کاس گنج ، ایٹہ ، علی گنج ، ہاتھرس ، سہارنپور ، بریلی ، لکھیم پور کھیری ، سیتا پور ، مراد آباد ، بجنور ، مظفر نگر ، امروہہ ، سنبھل ، میرٹھ ، باغپت ، غازی آباد ، شاملی ، بلندشہر وغیر ہ قابل ذکر ہیں ۔ کل ملا کر بی ایس پی ’دانشوروں کی کانفرنس‘ کی کامیابی سے بہت پرجوش ہے۔
مسلم کمیونٹی بھی بی ایس پی کو ان کانفرنسوں سے ملنے والی کامیابیوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ تیرہ فیصد برہمنوں اور تیئیس فیصد دلت برادری کے ووٹروں کا اکٹھا ہونا ریاست کی سیاست کو بدل سکتا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ برہمنوں کو یوگی آدتیہ ناتھ حکومت میں سب سے زیادہ ہراساں کیا گیا ہےاسی طرح مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو بھی اس حکومت نے پریشان کیا ہے ۔
برہمنوں کو ساتھ لانے کے اقدامات سے ممکن ہے کہ مایاوتی کا روایتی دلت ووٹر بی ایس پی سے ٹوٹ جائے لیکن پھر بھی مایاوتی کو ان سے تعاون کی امید ہےکیونکہ مایاوتی نے کبھی بھی پسماندہ طبقے کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دی جس کی وجہ سے دلت طبقے کے ووٹر کے دوبارہ بی ایس پی اور مایاوتی کے ساتھ واپس آ نے امکانات زیادہ ہیں ۔ برہمنوں کے ساتھ دلت طبقے کے ووٹروں کے آنے سے مسلم کمیونٹی کا ایک بڑا طبقہ بھی بی ایس پی کی حمایت کر سکتا ہے جس سے یوپی کی سیاست میں بڑی الٹ پھیر دیکھی جا سکتی ہے ۔
حکمران بی جے پی سے لے کر سماج وادی پارٹی تک بی ایس پی کی ’دانشوروں کی کانفرنس‘ کی کامیابی سے پریشان ہیں۔ برہمنوں کی شرکت سے بی جے پی کے خیمے میں بڑی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ بی جے پی ہمیشہ یہ سمجھتی رہی کہ برہمن ووٹر اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے لیکن اب اسے معلوم ہوا ہوگا کہ اس کی یہ یکطرفہ سوچ تھی۔ کیونکہ بی جے پی نے کبھی اپنی صفوں میں جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کی اب جبکہ برہمنوں نےبی جے پی کو آئینہ دکھایا ہےتب وہ اپنی بغلیں جھانک رہی ہے ۔
بی ایس پی کو برہمنوں کی حمایت ملنے کی وجہ سے بی جے پی کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نئی دہلی میں بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے اتر پردیش کے بی جے پی ممبران پارلیمنٹ سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ وہ یوپی کے حالات کی فکر کریں اور ناراض لوگوں کو راضی کریں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ریاست کے کسی بھی بی جے پی رکن اسمبلی میں اپنے حلقے کے عوام کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے مغربی اتر پردیش میں صورتحال اور بھی خراب ہے جہاں اراکین پارلیمنٹ اور ریاستی حکومت کے وزراء عوام کے پاس جانے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں۔
بی ایس پی کے بعد اب سماج وادی پارٹی بھی برہمنوں کو اپنے ساتھ لانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے چنانچہ اس نے برہمن لیڈروں کی ایک کمیٹی تشکیل دے کر اسے برہمنوں کو اپنے ساتھ لانے اور پارٹی کے برہمن لیڈروں کو قائل کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
یوپی کی سیاست میں پیدا ہونے والی اس اتھل پتھل سے ریاست کے سیاسی حلقوں میں خوف وہراس کا ماحول ہے۔اس لیے کہ اگر تیرہ فیصد ووٹ برہمنوں اور تیئیس فیصد دلتوں کے ووٹ کسی پارٹی کو حاصل ہوجاتے ہیں تو ریاست کی سیاست پر کافی حد تک اثرا نداز ہو سکتےہیں۔ کیونکہ بدلے ہوئے حالات میں ووٹروں کو جوڑے رکھناکسی بھی پارٹی کے لیے ضروری ہے۔ مسلم کمیونٹی کے ووٹروں کا ایک بڑا طبقہ اگر بی ایس پی کی حمایت کرتا ہے تو اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کے لیے اقتدار کا بہت آسان ہوگا۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو زیادہ ووٹ لے کر وہ کنگ میکر کے طور پرسامنے آسکتی ہے ۔
( اکھیلش ترپاٹھی انڈیا ٹومارو ہندی کے صحافی ہیں )
ترجمہ و تلخیص : سالک ندوی
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14 اگست 2021