یاد رفتگاں: اب انہیں ڈھونڈچراغ رخ زیبا لے کر

محمد مسلم مرحوم ۔۔جنہوں نے اپنے قلم سے فکر اسلامی کی آبیاری کی

محمد جاوید اقبال

محمد مسلم مرحوم سہ روزہ’دعوت‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ایک طویل عرصے تک انھوں نے اس پودے کو سینچا جس کے سایہ کی ٹھنڈک سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ لا تعداد قارئین اسے پڑھ کرجماعت میں شامل ہوئے۔
مسلم صاحب نے بلا شبہ اردو صحافت میں فکر اسلامی کی ترویج میں بہت ہی نمایاں رول ادا کیا ہے جب کبھی مورخ مابعد آزادی اردو صحافت کا ذکر کرے گا تو وہ ان کے نام اور کام کو نظر انداز نہیں کرپائے گا۔ انہوں نے بھوپال کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ابتدا سے ان کا ذہن اور مزاج کچھ ایسا بنا تھاکہ وہ جلد ہی خاکسار تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ ان کی یہ وابستگی رسمی نہیں تھی بلکہ انہوں نے تحریک کو اپنے دم سے قوت پہنچانے کے لیے پورا زور لگادیا تھا۔ محمد مسلم صاحب اپنی آخری عمر میں طویل عرصے تک بیمار رہے۔ ۱۹۸۲ء میں وہ اسپتال میں تھے۔ میں اس زمانے میں مرکزی درس گاہ اسلامی میں ناظم درس گاہ کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہا تھا۔ میں کسی کام سے دہلی آیا اور عبد الرشید عثمانی صاحب مرحوم سکریٹری تربیت جماعت اسلامی ہند کے ساتھ محمد مسلم مرحوم کی عیادت کے لیے اسپتال گیا۔ ہم دونوں نے مرحوم کی عیادت کی۔ آخر میں ان سے پوچھا ’معلوم ہوا ہے کہ آپ کا تعلق کسی زمانے میں خاکسار تحریک سے رہا ہے، کیا آپ ہمیں اس سلسلہ میں کوئی قابل ذکر واقعہ سنائیں گے؟‘ مرحوم نے کہنا شروع کیا ’ایک دفعہ میں اس تحریک کا تعارف کرانے کے لیے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بمبئی گیا۔ ہم نے الگ الگ کام کیے۔ میں نے ایک گھر میں برتن مانجھنے کا کام کیا۔ صبح وشام اس گھر میں برتن مانجھتا۔ بقیہ اوقات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ خاکسار تحریک کا تعارف کراتا۔ میں جس گھر میں کام کرتا وہاں سے مجھے دو آدمیوں کا کھانا مل جاتا بقیہ دو ساتھی جوتوں پر پالش کرنے کا کام کرتے۔ جو کچھ ہمیں کھانا ملتا ہم سب مل کر کھاتے اور پھر لوگوں سے تحریک خاکسار کا تعارف کراتے۔ اچھے خاصے لوگ ہمارے ہم نوا ہو گئے۔ ایک صاحب خیر نے ہم سے کہا کہ ہم ان کے یہاں روزانہ کھا لیا کریں۔ ہم نے تین دن تک ان کے یہاں کھانا کھایا۔ اس کے بعد ہم نے انکار کر دیا۔ انھوں نے اصرار کیا۔ ہم نے روزہ رکھنا شروع کر دیا۔ آخر کار وہ مجبور ہو گئے۔ ‘

موصوف نے فرمایا’ آپ درس گاہ میں خدمت خلق کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کریں۔ بچوں سے کسی محلہ کا سروے کرائیں۔ اس محلے میں کتنے لوگ بیمار ہیں، ان کی خدمت کے لیے پیش کش کریں۔ کتنے بچے اسکول نہیں جاتے، سر پرستوں کو آمادہ کریں کہ ان کے بچے اسکول جائیں۔‘
اس طرح موصوف نے مزید کہا کہ ایک دفعہ مجھے تحریک کا تعارف کرانے کے لیے کیرالا جانا پڑا۔ اپنی گزر اوقات کے لیے مجھے مزدوری کرنا پڑا۔ میں نے راج مزدوروں کے ساتھ کام کیا۔ میں بحیثیت مزدور راج کو اینٹیں اْٹھا کر دیا کرتا تھا۔ باقی وقت جو بچتا اس میں تحریک خاکسار کا تعارف کراتا۔ اللہ کا شکر کہ بہت سے لوگ قریب آ گئے۔
میں چونکہ مرکزی درس گاہ میں ناظم کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہا تھا۔ موصوف نے فرمایا’ آپ درس گاہ میں خدمت خلق کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کریں۔ بچوں سے کسی محلہ کا سروے کرائیں۔ اس محلے میں کتنے لوگ بیمار ہیں، ان کی خدمت کے لیے پیش کش کریں۔ کتنے بچے اسکول نہیں جاتے، سر پرستوں کو آمادہ کریں کہ ان کے بچے اسکول جائیں۔‘
مسلم صاحب نے صحافتی زندگی کا آغاز نوابی دو رکے مقامی روزنامہ ’ندیم‘ سے کیا تھا۔ آزادی کے بعد وہ جماعت اسلامی ہند سے منسلک ہوگئے اور بعد میں دہلی منتقل ہوکر اخبار ’دعوت‘ کی ترویج واشاعت میں اپنی قلمی صلاحیت اور توانائیاں صرف کرنے لگے ۔ ان ہی کی ادارت میں برسرصغیر سے شائع ہونے والا یہ اخبار ہفت روزہ سے سہ روزہ اور بعد میں طویل مدت تک روزنامہ کی حیثیت سے سرد وگرم ہر قسم کے حالات میں ملت کی فکری رہنمائی کا فرض نبھاتا رہا لیکن ۱۹۷۷ء میں ایمرجنسی کی افتاد نے اس اخبار کو اس قدر نقصان پہونچایا کہ وہ روزنامہ کے طور پر اپنا مقام بنا نہیں پایا۔ اسی دوران مسلم صاحب کو ۱۹ ماہ قید وبند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں جس کا اثر جہاں ان کی صحت پر پڑا وہیں صحافتی خدمات بھی کسی قدر متاثر ہوئیں۔چنانچہ دعوت اخبار جب دوبارہ شروع ہوا تو اس کی شکل روزنامہ سےبدل کر سہ روزہ کی ہوگئی تھی۔
پوری دیانت داری کے ساتھ اپنی بات پہنچانا اورقاری کے ذہن کی اصل حقائق تک رسائی کا سامان کرنا اخبار دعوت کی وہ خوبی ہے جو اسے دیگر رسائل و جرائد سے ممتاز کرتی ہے ۔مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ اخبار دعوت کا ایک ورق ہمارے ایک رفیق کو ردّی میں ملا تھا ۔وہ اسے لیے اورپورا پڑھ ڈالا۔ اس کو پڑھ کر وہ اتنے متاثر ہوئے کہ اخبار جاری کروا لیا۔ نتیجتاً وہ جماعت کے رکن بنے اور قرآن کے مراٹھی ترجمہ کے کام میں شریک ہوئے۔
محمد مسلم مرحوم بہت سادہ زندگی گزارتے۔ جو شخص بھی ان کے قریب آتا ان کے کردار کی خوشبو سے ضرور متاثر ہوتا تھا۔انہیں ہم سے جدا ہوئے عرصہ ہو چکا ہے ۔لیکن ان کی یادیں ذہنوں میں اب بھی تازہ ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور موجودہ دور کی صحافت کو ان کے جیسے ددر مند ،حق گو اور مخلص صحافی عطا کرے۔آمین۔
****