ہوم اسکولنگ :فوائد اور نقصانات

کوروناوائرس کے پھیلائو کو روکنے کے تناظر میں

سید تنویر احمد ۔بنگلورو

کرونا وائرس کی وبا نے انسانی زندگی کے خد وخال کو بدل دیا ہے۔ عبادات، تعلیم، شاپنگ، تفریح، سیاست اور معیشت ان شعبوں میں ’ورک فرم ہوم‘ (گھر میں بیٹھ کر کام کریں) کا ایک طریقہ عام کردیا ہے۔ بنگلورو میں ایک سماجی تنظیم ’’لاک ڈاون‘‘ میں رشتے لگانے اور لوگوں کو ازدواجی بندھن میں باندھنے کا کام بھی کررہی ہے۔ اس کے ذمہ دار مسٹر محمد کریم نے مضمون نگار کو بتایا کہ ’’تجربہ کامیاب ہے‘‘۔ اس دوران رشتے طے پارہے ہیں اور سادگی سے نکاح بھی ہورہے ہیں۔ زندگی کا سفر رواں دواں ہے۔ خالق کی ایک نہایت ہی چھوٹی مخلوق جو انسانی جسم میں داخل ہونے سے پہلے کوئی حیثیت نہیں رکھتی جسے آنکھوں سے دیکھا بھی نہیں جاسکتا وہ انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے تو وبال جان بن جاتی ہے۔ آج انسان اس عظیم ذات کے تجویز کردہ ’’لاک ڈاون‘‘ سے بے اعتنائی برتتا تو ہے لیکن اسی خالق کی ایک ادنی سی مخلوق کے قہر سے ’’لاک ڈاون‘‘ کی پابندی عبادات کے انداز میں کررہا ہے۔ یہ انسان کی کمزوری بھی ہے اور اس کا خاصہ بھی ہے۔
’’لاک ڈاون‘‘ کے اس ماحول میں ’’ہوم اسکولنگ‘‘ ’’ہوم کوچنگ‘‘ اور ’’ہوم لرننگ‘‘ کے ایک نرالے اور انوکھے تجربات ہورہے ہیں۔ مَیں اس مضمون کی تیاری میں ایک جانب مصروف ہوں تو میرے سامنے میرے فرزند لا کے ایڈمیشن کی تیاری کے لیے ایس آئی او کی جانب سے دی جانے والی آن لائن کوچنگ Zoom app کے ذریعہ حاصل کررہے ہیں۔ میڈیکل اور دیگر اسٹوڈنٹس کے لیے کئی کالجس لاک ڈاون کے دوران آن لائن کلاسیس کا آغاز کرچکے ہیں۔NEET اور دیگر مسابقتی امتحانات کی تیاریاں آن لائن کرائی جارہی ہیں۔ ہر عمر کے بچوں کے لیے تعلیم اور تفریح کا انتظام ہے۔ ذہنی طور پر کمزور افراد اور اس وبا سے پیدا ہونے والے ذہنی تناو کو کم کرنے کے لیے بھی ماہرین نفسیات ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی مدد کررہے ہیں۔ اس غیر معمولی سماجی ماحول میں ہونے والے تجربات کے ذریعہ ’’ہوم اسکولنگ‘‘ پر بھی بحث ہو رہی ہے۔
ہوم اسکولنگ کیا ہے
ویسے یہ ایک قدیم طریقہ ہائے تعلیم میں سے ایک ہے لیکن اب ٹکنالوجی نے اسے معروف بھی کر دیا ہے اور اس کی کارکردگی اور اثر پذیری کو بڑھا بھی دیا ہے۔ پہلے اس کا نام مراسلاتی کورس ہوا کرتا تھا۔ کتابیں اور نوٹس بذریعہ پوسٹ طلبہ تک بھیجی جاتی تھیں۔ طلبہ انہیں اپنے طور پر پڑھ کر امتحان لکھتے تھے۔ عموماً یہ نظام بارہویں جماعت کے بعد کے کورسیس کے لیے ہوتا تھا یہ آج بھی جاری ہے۔ اس میں طلبہ کالج یا اسکول نہیں جاتے ہیں۔
اب ٹکنالوجی کی مدد سے طالب علم صرف نوٹس ہی نہیں بلکہ لکچرس کو سن سکتے ہیں، سوالات کرسکتے ہیں اور ذاتی طور پر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مدد سے بحث ومباحثہ بھی کرسکتے ہیں۔ اب کئی ایسے Apps اور سہولتیں دستیاب ہیں جو گھر میں ایک مصنوعی کلاس روم کو ترتیب دیتے ہیں۔ واٹس اپ ویڈیو کال، فیس بک Skype,Imo یو ٹیوب کے علاوہ اب Zoom جیسا ایپ ورچول کلاس روم ترتیب دینے میں کافی مدد گار ثابت ہورہا ہے Webcasts انٹرنیٹ ٹکنالوجی کا ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سیمینارس، کانفرنس اور ٹریننگ کلاسس کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں مختلف تعلیمی ادارے ٹکنالوجی کی اس ترقی کو تعلیم کے میدان میں استعمال کررہے ہیں۔ ایسے ہی اداروں میں سے ایک (The National Institute of Open SchoolingNIOS) ہے۔ اس ادارے سے ملک اور بیرون ملک کے تقریباً 11لاکھ طلبہ میٹرک اور بارہویں تک تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اس ادارے کی مزید تفصیلات اس کی ویب سائٹ nios.ac.in پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس ادارے کا قیام 1976میں CBSE کے ذریعہ ہوا تھا۔ لیکن 1986میں اسے مرکزی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اب یہ حکومت ہند کی وزارت انسانی فروغ انسانی وسائل کا ایک اہم ادارہ ہے۔ اس سے کامیاب طلبہ کے لیے ہندوستان کے کسی بھی کالج میں داخلہ ممکن ہے۔ یہ گویا ہندوستان میں ہوم اسکولنگ کا ایک کامیاب تجربہ ہے۔
ہوم اسکولنگ کے فوائد
۱۔ ہوم اسکولنگ کا تصور گزشتہ سالوں تک صرف معذور بچوں کی تعلیم کے لیے مقبول تھا۔ اس لیے کہ ایسے طلبہ کو اسکول جانے اور اسکول میں بیٹھنے کی سہولیات حاصل نہیں تھیں۔ بعض بچوں کا ذہنی ارتقا اُن کے عمر کے مطابق نہیں ہوتا۔ ایسے طلبہ اگر اسکول جاتے ہیں تو دیگر ہم عمر طلبہ کے ساتھ حاصل کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ ان مخصوص طلبہ کے لیے ان کی ذہنی لیاقت اور علم کو حاصل کرنے کی صلاحیت کے مطابق پڑھایا جانا چاہیے۔ ایسا ہوم اسکولنگ کے ذریعہ زیادہ ممکن ہے۔
۲۔ یہ ایک مسلمہ حقیقیت ہے کہ ہر طالب علم ہر مضمون میں ماہر نہیں ہوتا۔ طلبہ کے اندر الگ الگ صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ انہیں علم کے مختلف شعبوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ ہر طالب علم کا علم کو حاصل کرنے کا انداز بی مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے کہ خالق کائنات نے جہاں انسان کو بہترین تقویم پر پیدا کیا ہے وہیں اس دنیا کے حسن کو بڑھانے اور اس دنیا کو اللہ کی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے ہر شخص کو جداگانہ اور مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا۔ ان صلاحیتوں کو وہ علم اور تجربہ کے ذریعہ نکھارتا ہے۔ لیکن آج کا اسکولی نظام، نصاب اور امتحانات کا طریقہ یہ تصور کرتا ہے کہ کلاس کے تمام طلبہ دلچسپیوں ، صلاحیتوں اور کسب علم کے معاملے میں یکساں ہیں۔
اسی فطری حقیقت کو کسی حد تک امریکی ماہر نفسیات
Howard Gardner نے اپنی مشہور کتاب Frames of Mind: The theory of Multiple intelligences میں پیش کیا ہے۔ یہ کتاب 1983ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ گارڈنر کی تھیوری پر بعض دیگر ماہرین نے تنقید کی ہے۔ اس پر ہم ہفت روزہ دعوت کے صفحات میں آئندہ گفتگو کریں گے۔ فی الوقت یہ بتانا مقصد ہے کہ ہر طالب علم اپنے اندر جداگانہ صلاحیتیں رکھتا ہے اور اس کے سیکھنے کا انداز بھی علیحدہ ہے۔ اسی تصور کو علامہ امام غزالیؒ نے بھی پیش کیا ہے۔ چنانچہ اب چند برسوں سے Child Centred Teaching بچے کی صلاحیت کے مطابق تعلیم کا فقرہ عام ہوا ہے لیکن یہ زیادہ تر اشتہارات ہی کی زینت بن کر رہ گیا ہے۔ اس پر عملاً کام بہت کم ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چائلڈ سنٹرڈ ٹیچنگ، ہوم اسکولنگ کے ذریعہ ممکن ہے۔
اس کی عملی شکل ہندوستان میں NIOS کے Basic Open Schooling کے ماڈل میں موجود ہے۔
***
(مضمون نگار شاہین کڈز کے ڈائرکٹر ہیں)

اس دنیا کو اللہ کی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے ہر شخص کو جداگانہ اور مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ ان صلاحیتوں کو وہ علم اور تجربہ کے ذریعہ نکھارتا ہے۔ لیکن آج کا اسکولی نظام، نصاب اور امتحانات کا طریقہ یہ تصور کرتا ہے کہ کلاس کے تمام طلبہ دلچسپیوں، صلاحیتوں اور کسب علم کے معاملے میں یکساں ہیں۔