’’ہنسی ، طنز و مزاح اور ڈاکٹر ‘‘ایک جائزہ

کتاب کا نام : ہنسی ، طنز و مزاح اور ڈاکٹر
مصنف : عابد معز
صفحات : 192
ناشر: ایم آر پبلی کیشنز ، نئی دہلی
مبصر:ڈاکٹرمحمد کلیم محی الدین

اردو ادب میں مزاحیہ ادب کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اودھ پنچ، شگوفہ کے علاوہ مختلف اخبارات میں طنز و مزاح کے کالم پابندی سے شائع ہوتے ہیں اور ان کو عوام و خواص میں پسند کیا جاتا ہے۔ برصغیر ہند و پاک کے مشہور طنزو مزاح نگاروں میں مشفق خواجہ، کرنل محمدخان ،ابن انشا،پطرس بخاری،رتن ناتھ سرشار،شفیق الرحمٰن اورمجتبیٰ حسین وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں حیدرآباد دکن سے اب ایک اور نام شامل ہوگیا ہے۔ طب کے شعبہ سے وابستہ ادیب اور خاص طور پر طنز و مزاح نگار ڈاکٹر عابد معز کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ اپنی کتابوں کی سلورجوبلی مناچکے ہیں۔ جن میں واہ حیدرآباد، عرض کیا ہے، یہ نہ تھی ہماری قسمت، اردو ہے جس کا نام، فارغ البال، بات سے بات، پھرچھڑی بات، اتنی سی بات، وہاں کی بات، آئی گئی بات شامل ہیں۔ عابد معز کے فکر و فن پر ماہنامہ شگوفہ ، شاعراور انداز بیان خصوصی گوشے شائع کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر عابد معز کا نام سیدخواجہ معز الدین ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے میری کئی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ علالت کے سلسلہ میں نہیں بلکہ ’’اردو کلینک‘‘ میں ادبی ذوق کے سلسلہ میں یہ ملاقاتیں ہوئیں۔ سوریا نگر کالونی میں کھیل کے میدان کے سامنے آپ نے اپنے مکان میں شوق اور ادبی ذوق کے لیے جو نشست بنائی ہے اسے وہ ’’اردو کلینک‘‘ کہتے ہیں۔ موجودہ دور میں مقابلہ آرائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کسی ایک شعبہ میں نام کمانا مشکل ہے لیکن ایسے ماحول میں بھی دو مختلف شعبوں میں نام کمانے کا سہرا ڈاکٹرعابد معز کے سر جاتا ہے۔ انہوںنے اپنے ذوق کی ابتدا کے بارے میں بتایا کہ لکھنے کے مشغلہ کو اس وقت مزید زرخیزی ملی جب اس وقت کی ریاست آندھرآپردیش میں علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تحریک اپنے شباب پر تھی۔ 1970ءمیں ایس ایس سی کامیاب کرنے کے بعد آگے کا تعلیمی کا سلسلہ ایک سال کے لیے رک گیا تھا۔ ریاست کے حالات کی وجہ سے اگرچہ تعلیمی ادارے مفلوج ہوگئے تھے، لیکن عابد معزنے اپنے شوق کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ بڑھاوابھی دیا۔
زیر تبصرہ کتاب دوحصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں ڈاکٹر عابد معز کے مضامین شامل ہیں۔ جن کے عناوین ہی ہنسی کی طرف قاری کی توجہ لے جاتے ہیں۔ جیسے ’’ہنسئے، کہ ہنسنا ضروری ہے۔ ’’ہنسی ایک، فائدے انیک، ’’خوشیوں کی آواز، قہقہہ، ’’ خوشی اور شادمانی کا نسخہ‘‘ ، مزاح کی طبی افادیت۔ ہنسی بہترین دوا ہے۔ ’’حس مزاح اور مسیحائی، ’’بابو ہنستے رہئے ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
دوسرے حصہ میں دیگر طنز و مزاح نگاروں کی تحریروں کاانتخاب کیا گیا ہے۔ جس میں آر طاہر قریشی ’’سرگزشت‘‘، اقبال ہاشمانی ’’فن گداگری‘‘، سید عبدالمنان ’’ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے مریضوں کے‘‘ شفیق الرحمن ’’ملکی پرندے اور دوسرے جانور‘‘، محمد وسیع اللہ خان ’’شادی کی دعوت‘‘ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر عابد معزہنسنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور اسے انسانوں اور مشینوں میں فرق کرنے والی چیز سمجھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو؛
’’کمپیوٹر ذہین ہونے کے باوجود ہنس نہیں سکتا! اس کی ذہانت مصنوعی ، نقلی یا بناوٹی (انسان کی بنائی ہوئی) ہوتی ہے جسے Artifical intelligenceکہاجاتا ہے۔ شاید مستقبل میں کمپیوٹر کی مصنوعی ذہانت اصلی میں تبدیل ہوجائے اور انسان پر قہقے لگانا شروع کردے۔ فی الحال انسان خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ صرف انسان ہی جو ان ظریف و عاقل اور ہنسنے والا پراسیسر Laughing Processor انفارمیشن ٹکنالوجی کی زبان میں ) ہے۔‘‘
اسی مضمون میں آگے چل کر لکھتے ہیں ’’ یقین جانیے چہرے پر سجانے کے لیے مسکراہٹ سے بڑھ کر کوئی میک اَپ اور ہنسی سے بہتر کوئی زیور نہیں ہے۔ مسکراہٹ اور ہنسی سے انسان کی ظاہری قدر میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے۔ ‘‘
’’ہنسی ایک فائدے انیک‘‘ میں انہوں نے ایک سروے کے حوالے سے یہ بتایا کہ ’’ہنسی کا تعلق عمر سے بھی ہے۔ کم عمر کے لوگ زیادہ ہنستے ہیں اور عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہنسی کم ہوتی جاتی ہے اور ضعیفی میں ہنسنا غیرشائستہ بن جاتاہے‘‘۔
قہقہے کی مختلف اقسام کا بھی اس کتاب میں انہوں نے ذکر کیا ہے جیسے ندامتی قہقہے، فکاہیہ قہقہے، چاپلوسی قہقہے وغیرہ وغیرہ۔ مضمون ’’ہنسی بہترین دوا ہے‘‘ معلوماتی مضمون ہے جس سائنسی تحقیق سے ہنسنے کی افادیت کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا مسئلہ ہوتاہے کہ وہ انہیںہنسی نہیں آتی ہے۔ ایسے لوگوں کو ڈاکٹر عابد معز مشورہ دیتے ہیں کہ ہنسنے والوں کی صحبت میں رہ کر ہنسناسیکھیں یا پھر اس مفید اور کارآمد مشورے پر عمل کریں جو کراچی سے شائع ہونے والا طنز و مزاح کا رسالہ ’مزاح پلس‘‘ کے ہر شمارے کے سرورق پر دیتاہے ’’رسالہ پڑھ کر ہنسی نہ آئے تو فوراً کسی اچھے ماہر نفسیات سے رجوع کریں‘‘۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن کا مضمون ’’ملکی پرندے اور دوسرے جانور‘‘ میں کوا، الو ، بھینس ، بلی وغیرہ کے بارے میں نہایت ظریفانہ معلومات دی گئی ہے۔ ’’کوے کالے ہوتے ہیں۔ برفانی علاقوں میں سفیدی مائل کوا نہیں پایاجاتا۔ کوا سیاہ کیوں ہوتا ہے ؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے‘‘۔ ’’ماہرین کا خیال ہے کہ بلبل کے گانے کی وجہ اس کی غمگین خانگی زندگی ہے‘‘۔ ’’اگر بھینس کی کمر میں پتھر یا لٹھ آلگے تو مڑکر نہیں دیکھتی ۔ ذراسی کھال ہلادیتی ہے۔ بس اسے فلسفۂ عدم تشدد کہتے ہیں۔‘‘ ’’بھینس موٹی اور خوش طبع ہوتی ہے۔ ‘‘ ’’بلیاں سلطنت برطانیہ کے مختلف حصوں میں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ بلیوں پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ ‘‘
ڈاکٹر محمد یونس بٹ کا مضمون ’’بزرگ پالنا‘‘ ایک سنجیدہ موضوع پر لکھا گیا طنز و مزاح سے بھرپور مضمون ہے۔ ’’بزرگ پالنا آسان نہیں۔ اہل مغرب ہر جانور پال لیتے ہیں مگر بزرگ پالنے کا ان میں بھی حوصلہ نہیں۔ وہ کتے بہت شوق سے پالتے ہیں‘‘۔
مظہر احمد نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے ’’ڈاکٹر عابد معز نے اس انوکھی اور منفرد کتاب کی ترتیب میں جس عرق ریزی، تحقیقی موشگافی اور محنت سے کام لیا ہے اس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ طبیبوں (ڈاکٹروں) کے طنز و مزاحیہ تخلیقات پڑھنا اور ان سے بہترین انتخاب کرناجوئے شیر لانے سے کم نہیں اور ڈاکٹر عابد معزنے یہ کام بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر عابد معز نےاپنی دیگر کتابوں میں ایسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے جو ہماری روزمرہ کی زندگی سے راست طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ جیسے ’’چکنائی اور ہماری صحت‘‘، ’’کولیسٹرال کم کیجئے‘‘، ’’رمضان اور ہماری صحت‘‘، حج و عمرہ اور ہماری صحت‘‘، ”فاسٹ فوڈ اور سافٹ ڈرنکس‘‘، ’’تول ناپ کر صحت مند رہیے‘‘، ’’عام طبی معائنے‘‘، ’’شکر کم کھائیں‘‘، ’’پکوان کا تیل مقدار اور انتخاب‘‘، ’’نمک کا استعمال کم کریں ‘‘اور ’’ترکاری اور پھل زیادہ کھائیں‘‘شامل ہیں۔ ان روزمرہ کے عام موضوعات کو انہوںنے بہت خاص بنادیا ہے۔ ان کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہورہی ہیں۔
ہنسی کے متلاشی حضرات کے لیے یہ کتاب ایک نعمت ثابت ہوگی۔ یہ کتاب مصنف یا ناشر سے رابطہ کرتے ہوئے حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس کی قیمت 200 روپے ہے ۔ مصنف کا فون نمبر 9502044291ہے۔
***

 

***

 قہقہے کی مختلف اقسام کا بھی اس کتاب میں انہوں نے ذکر کیا ہے جیسے ندامتی قہقہے، فکاہیہ قہقہے، چاپلوسی قہقہے وغیرہ وغیرہ۔ مضمون ’’ہنسی بہترین دوا ہے‘‘ معلوماتی مضمون ہے جس سائنسی تحقیق سے ہنسنے کی افادیت کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  07 اگست تا 13 اگست 2022