ہندی ادب سے: ’شہر میں کرفیو‘
وبھوتی نارائن رائےکے ناول سے اقتباس
کمرے میں واپس داخل ہو کر بوڑھی ساس نے پانی نہ لانے پر بہو کی سرزنش کی۔ جاگنے کے بعد سعیدہ دیوار سے سر رکھ کر زور سے ماتم کرنے لگی۔ اس نے ابھی تک کچھ انتظام نہیں کیا تھا۔ بوڑھی عورت نے اپنی آواز کو بہت سخت کیا اور کہا- ’’ابھی تک کیوں نہیں اُٹھی ہو؟‘ تمام کام ہو چکے ہیں کیا؟ یہاں تمہاری نوکرانی کون ہے جو تمام کام سنبھالے گی؟ اٹھو… جلدی جاگو‘‘
سعیدہ شروع ہی سے اپنی ساس سے ڈرتی تھی۔ اس کی ڈانٹ ڈپٹ کا اثر یہ ہوا کہ وہ سیدھی کھڑی ہوگئی۔ بوڑھی عورت بالٹی باہر رکھ کر کمرے میں واپس آگئی۔ بوڑھی عورت کا بڑبڑانا جاری تھا۔ سعیدہ نے اسے موقع نہیں دیا۔ وہ لڑکھڑا کر اندر چلی گئی۔
جب سعیدہ واپس آئی تو اس کی ساس نے کافی تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔ اس وقت وہ سوئی دھاگے کے ساتھ ایک پرانی دھلی سفید چادر سے بچی کے لیے سلائی کر رہی تھی۔ چادر اتنی پرانی تھی کہ اس کا رنگ قریب قریب اڑ چکا تھا۔ شکر ہے کئی بکسوں کو ٹٹولنے کے بعد اس کو یہ ایک چادر ملی تھی جسے وہ کفن بنانے میں مصروف ہو گئی۔ سعیدہ نے اس کے قریب بیٹھ کر اس کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن چادر کو چھونے کے بعد اس کے گلہ بھرآیا اور آنکھوں کی پتلیوں پر پانی کی بوندیں پھیل گئیں۔ سب کچھ واضح ہو گیا۔ ساس نے نرمی سے اس کا ہاتھ ہٹا دیا اور اس کے کہنے پر نند نے سعیدہ کو اپنے بازوؤں میں بھر لیا اور دیوار کے سہارے بٹھا دیا۔ دیوار پر سررکھ کر وہ سارے واقعات کو یاد کرنے لگی۔
تیاریاں تقریباً ایک گھنٹے میں مکمل ہوگئیں۔ جب لڑکی کو نہلانے کے بعد کفن پہنایا گیا۔ باہر نکلنے کی باری آئی تو دن کی روشنی چاروں طرف پھیل گی تھی۔۔ نماز پڑھی گئی اور دروازہ تینوں آدمیوں کے جانے کے لیے کھلا۔ تب تک سعیدہ بے سُدھ ہوگئی تھی۔ لیکن جیسے ہی دروازہ کھلا وہ سٹپٹاگئی۔ زور سے روتے ہوئے اس نے دو تین بار زمین پر سر ٹکرا دیا۔ بچی کی لاش اس کے شوہر کے ہاتھ میں تھی۔ جیسے ہی اس کے شوہر کا پہلا قدم باہر کی جانب پڑا، سعیدہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ پتہ نہیں اس کے کمزور جسم میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی تھی کہ اس کی ساس اور نند اسے پکڑنے کی کوشش میں گر گئے۔
دروازے کی چوکھٹ پر ایک قدم اور گھر کے اندر ایک قدم، اسی حالت میں سعیدہ گر گئی۔ اپنی ساس اور نند کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی، اسے تین مردوں کے ہاتھ میں اپنی معصوم بچی کا جنازہ نظر آرہا تھا۔ ادھر باہر دروازوں اور کھڑکیوں کی دراڑوں سے پتہ نہیں اور کتنے سر لگے تھے جو یہ منظر دیکھ رہے تھے۔
(یہ اقتباس وبھوتی نارائن کے ناول ’شہر میں کرفیو‘ سے لیا گیا ہے جس میں کرفیو کے دوران مسلم خاندان کی پریشانی کو دکھایا گیا ہے۔ )
وبھوتی نارائن رائے، جونپور، یوپی