شبیع الزماں ، پونے
سماج میں کام کرنے والوں کے لیے سماج کو سمجھنا ضروری
بھارت ایک پیچیدہ سماج ہے اس کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا ایک دشوار کام ہے لیکن جو افراد یہاں کے سماج میں تبدیلی لانے کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں اور اس سے کسی بھی سطح پر یعنی دعوتی، سماجی یا سیاسی طور پر جڑے ہوئے ہیں ان کے لیے اسے سمجھنا لازمی ہے۔ ہندوستانی سماج مذہب، ذات پات، زبان اور طبقہ کی بنیاد پر بٹا ہوا ہے۔ تقسیم کی سب سے بڑی بنیاد مذہب ہے۔ماننے والوں کی تعداد کے اعتبار سے سب سے بڑا مذہب ہندو ازم ہے۔ اس لیے ہندوستان کو سمجھنے کے لیے ہندوازم یا ہندو سماج کو سمجھنا ضروری ہے لیکن ہندو سماج کو سمجھنے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ البیرونی نے کتاب الہند میں ان رکاوٹوں کو بیان کیا ہے جو ہندو سماج کے فہم کو مشکل بناتی ہیں۔
البیرونی نے ابتداء میں لکھا ہے ’’ان احوال کو ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ جن کی وجہ سے ہندوؤں سے متعلق چیزوں کو صاف طور پر سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ان کو جان لینے سے وہ چیز آسان ہو جائے گی جس کا سمجھنا مشکل تھا یا اس کو سمجھ نہ پانے کے اسباب معلوم ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ بے تعلقی کی حالت میں جو چیز نہیں معلوم ہو سکتی وہ میل جول کی حالت میں ظاہر ہو جاتی ہے۔‘‘
البیرونی نے کتاب الہند میں ہندو مسلم بے تعلقی اور ہندوؤں کے حالات کو صحیح طریقے سے نہ سمجھ پانے کے چھ اسباب بیان کیے ہیں ۔
سب سے پہلا سبب زبان کی اجنبیت ہے۔ البیرونی لکھتے ہیں ’’ہندو قوم ہم لوگوں سے ان تمام چیزوں میں جو قوموں کے درمیان مشترک ہوتی ہیں مغائر ہے اور مغائرت کے اسباب میں سب سے پہلی چیز زبان ہے‘‘
ہندوازم کی مذہبی زبان سنسکرت ہے اور کئی وجہوں سے سنسکرت سیکھنا ایک دشوار کام ہے جیسے سنسکرت ایک وسیع زبان ہے، پھر عوام کی زبان، خواص سے مختلف ہے، اسے عربی رسم الخط میں لکھنا مشکل ہے اس کے علاوہ ہندووں کی کتابیں منظوم انداز میں لکھی جاتی ہیں تاکہ یاد رکھنے میں آسانی ہو، ہندووں کو حفظ پر جو اعتماد ہے تحریر پر نہیں ہے۔
البیرونی کے نزدیک بے تعلقی کا دوسرا سبب دین کا اختلاف ہے۔ انہوں نے لکھا ہے ’’بے تعلقی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہندو، دین میں ہم سے کلی مغائرت رکھتے ہیں۔ نہ ہم کسی ایسی چیز کا اقرار کرتے ہیں جو ان کے یہاں مانی جاتی ہے اور نہ وہ ہمارے یہاں کی کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں۔اگرچہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی نزاع کم کرتے ہیں۔ مذہبی اختلاف میں بحث ومناظرہ سے بات آگے نہیں بڑھاتے ،کبھی ایک دوسرے کے جسم، جان اور مال کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن غیروں کے ساتھ ان کی یہ روش نہیں ہے غیروں کو یہ لوگ ملیچھ یعنی ناپاک کہتے ہیں۔اس لیے ان سے ملنا جلنا، شادی بیاہ کرنا، ان کے قریب جانا یا ساتھ بیٹھنا اور کھانا ناجائز سمجھتے ہیں۔‘‘
اختلاف کا تیسرا سبب رسوم وعادات اور طرز معاشرت کا مختلف ہونا ہے۔ البیرونی اسے واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ قطع تعلق کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ لوگ رسوم وعادات میں ہم سے اس درجہ اختلاف رکھتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ہم سے اور ہماری ہیئت و لباس وغیرہ سے تقریباً ڈراتے ہیں اور ہم لوگوں کو شیطان کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ یہ نسبت ہمارے لیے کی جاتی ہیں جبکہ یہ باتیں تو ہم میں اور دوسری اقوام میں مشترک ہیں۔‘‘
اختلاف کا چوتھا سبب اس زمانے کے سیاسی حالات کی وجہ سے تھا۔ بودھ، برہمنوں سے عداوت رکھتے تھے اور بودھ مذہب کے پیرووں مختلف مسلم ممالک جیسے خراسان، فارس، عراق، شام وغیرہ میں پھیلے ہوئے تھے اور ان کے مسلمانوں سے دوستانہ تعلقات تھے۔
پانچواں سبب اختلاف مسلم حکمرانوں کے ہندوستان پر حملے تھے۔ محمد بن قاسم کے بعد ناصر الدین سبکتگین اور پھر محمود غزنوی کے مستقل حملے جن سے ہندو سخت خفا تھے۔ البیرونی لکھتے ہیں:
’’محمود نے ان حملوں سے ہندووں کی سر سبز زمین کو تباہ کردیا اور ان کے شہروں میں ایسے عجیب کارنامے انجام دیے جن سے ہندو غبار کی طرح پراگندہ ہو گئے اور صرف ان کا افسانہ رہ گیا اور جو لوگ بھاگ کر بچ رہے ان کو مسلمانوں سے سخت نفرت اور دوری ہو گئی بلکہ یہی سبب ہوا کہ ان کے علوم مفتوحہ علاقوں سے سمٹ کر بنارس اور کشمیر وغیرہ کی طرف چلے گئے جہاں اب تک رسائی نہیں ہوئی ہے اور جہاں سیاسی اور دینی وجوہ سے کل اجنبیوں کے ساتھ بشدت بے تعلقی رکھی جاتی ہے۔
چھٹا سبب ہندووں کی خود پسندی اور ہر غیر ملکی یا اجنبی چیز کو حقیر سمجھا ہے۔ہندو بالخصوص برہمن ابتدائی زمانے سے خود پسندی اور خود کو اعلیٰ وارفع سمجھنے کے زعم میں مبتلا رہے ہیں۔ البیرونی لکھتے ہیں ’’ان کے بعد کچھ اسباب ایسے ہیں جن کو بیان کرنا گویا ہندوؤں کی ہجو کرنا ہے لیکن وہ ان کے اخلاق میں سمائے ہوئے ہیں اور کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ حماقت ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ ان لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ ملک ہے تو ان کا ملک، انسان ہیں تو ان کی قوم کے لوگ، بادشاہ ہیں تو ان کے بادشاہ، دین ہے تو وہی جوان کا مذہب ہے اور علم ہے تو وہ جو ان کے پاس ہے، اس لیے یہ لوگ بہت تعلی کرتے ہیں اور جو تھوڑا علم ان کے پاس ہے اس کو بہت سمجھتے ہیں اور خود پسندی میں مبتلا ہو کر جاہل رہ جاتے ہیں۔ جو کچھ یہ جانتے ہیں اس کو بتلانے میں بخل کرنا اور غیر قوم تو درکنار ،خود اپنی قوم کے نا اہل لوگوں سے بھی شدت کے ساتھ چھپانا ان کی سرشت میں داخل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے گمان میں بھی نہیں ہے کہ دنیا میں ان کے شہروں کے سوا دوسرے شہر اور ان شہروں کے باشندوں کے سوا دوسری جگہ بھی انسان ہیں اور ان کے ماسوا دوسرے لوگوں کے پاس بھی علم ہے۔ یہ حالت یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ اگر ان سے خراسان وفارس کے علم اور اہل علم کا ذکر کیا جائے تو مخبر کو جاہل سمجھیں گے اور مذکورہ بالا عیب کی وجہ سے ہرگز اس کو سچائی نہ مانیں گے۔ اگر یہ لوگ سفر کریں اور دوسرے لوگوں سے ملیں جلیں تو اپنی رائے سے باز آ جائیں حالانکہ ان کے اسلاف اس درجہ بے خبر نہیں تھے۔
یہ ہے وہ اسباب جو البیرونی نے بیان کیے ہیں۔ اگرچہ یہ وجوہات ایک ہزار سال پہلے لکھی گئی تھیں لیکن اس میں بہت سے نکات اب بھی فائدہ مند ہیں۔ ان کے مطالعے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ قوموں کا مزاج ہزار سال میں بھی بہت زیادہ تبدیل نہیں ہوتا بلکہ اپنی بنیادی خصوصیات کو ظاہری تبدیلیوں کے ساتھ جوں کا توں قائم رکھتا ہے ۔اس لیے یہ نکات اب بھی اہمیت کے حامل ہیں اور جدید ہندوستانی سماج کو سمجھنے میں ان سے مدد لی جا سکتی ہیں۔
(شبیع الزماں آزاد صحافی ہیں۔ ہندوستانی تاریخ، تہذیب و ثقافت،اسلامی تحریکات، ہندوستانی سماج اور ہندو تو مضمون نگار کے خاص موضوعات ہیں۔)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 تا 19 مارچ 2022