ہندو توا کے مقابلے کے لیےنظریاتی بیانیے کے باوجود ٹھوس پروگرام کی کمی کانگریس کو لے ڈوبی

عام آدمی پارٹی کی سیاست میں امبیڈکر اور بھگت سنگھ کی آمد

شبیع الزماں،پونے

یادوؤں کی بھیڑ اور مسلمانوں کے ووٹ کے باوجود اکھلیش کرسی سے محروم
انتخابی منظر نامہ سے کوسوں دور مایاوتی نے دلت تحریک کو سبوتاژ کیا ؟
پانچ ریاستوں کے الیکشن نتائج آچکے ہیں۔ گو کہ یہ ریاستوں کے الیکشن تھے لیکن ان انتخابات کی اہمیت کئی وجوہ سے بڑھ گئی تھی۔ انتخابات ہندوستان کے کسی مخصوص علاقے کے نہیں بلکہ ہندوستان کے الگ الگ علاقوں کے تھے۔ اس لیے ان انتخابات سے بھارت کے موڈ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دوسرے اس میں ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کا الیکشن بھی شامل تھا اور دہلی کا راستہ اترپردیش سے ہو کر ہی گزرتا ہےاس لیے اس الیکشن کی حیثیت 2024 کے سیمی فائنل کی سی ہوگئی تھی۔ انتخابات میں بی جے پی نے واضح کامیابی حاصل کی، پانچ میں سے چار ریاستوں میں اسے کامیابی حاصل ہوئی۔ ان پانچ ریاستوں میں اتر پردیش اور پنجاب کے انتخابات خاص اہمیت کے حامل ہیں اس لیے ہم ان پر گفتگو کریں گے۔
اتر پردیش میں نت نئے تجربات کے لیے مشہور اکھلیش یادو نے اس بار بھی کئی تجربات کیے اور سابقہ تمام انتخابات کی غلطیوں کاتدارک کیا۔ اور ہر خانہ کو مکمل طور سے چیک کیا۔انہوں نےزوردار اور کامیاب ریلیاں کیں، ٹی وی چینلز پر جاکر گودی میڈیا کو زوردار جوابات دیے،ہر بڑے چھوٹے ممکنہ گروپ، کاسٹ ، ذیلی کاسٹ سے گٹھ جوڑ کیا، الگ الگ برادریوں کو اپنے ساتھ لیا،پریوار وادکے الزام سے بچنے کے لیے اپنے رشتے داروں کو ٹکٹ نہیں دیے، کانگریس سے اتحاد نہیں کیا کہ اس صورت میں الیکشن راہل بنام مودی ہوجانے کے امکانات تھے۔ اتنے جتن کرنے کے بعد بھی وہ الیکشن ہار گئے۔اکھلیش یادو نے الیکشن خوب لڑا مقابلہ بھی زوردار کیا پہلے کے مقابلے سیٹیں بھی زیادہ جیتیں، ووٹ شیئر بھی بڑھا لیکن پھر بھی مطلوبہ سیٹیں نہیں جیت پائے ۔
اس کے برعکس یوگی آدیتہ ناتھ حکومت مخالف جذبات، خراب نظم و نسق ،مہنگائی ،آوارہ جانوروں کا مسئلہ اور کورونا کی دوسری لہر میں بدانتظامی جیسے مسائل کے باوجود جیت گئے ۔ان کی جیت کے پیچھے بے شمار پیسہ، میڈیا کا پروپیگنڈہ ، سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال، ہندوتوا ، ہندو مسلم نفرت کی سیاست اور نیشنلزم کا اہم رول رہا ہے۔ووٹنگ کی بنیاد مکمل طور سے نظریاتی اور فرقہ وارانہ تھی۔ یوگی کی پوری مہم انتہا درجے کی زہرآلود تھی، خود شاہ اور مودی بہت چالاکی سے ماحول کو پولارائز کر رہے تھے۔اسکے علاوہ دوسرے بھی کچھ عوامل تھے جن کے سبب اکھلیش یادو شکست کھاگئے۔
جیسےاکھلیش یادو کو نوجوانوں کا سپورٹ تو تھا لیکن خواتین کا اعتماد وہ نہیں جیت پائے۔ مفت راشن کے سبب دیہی خواتین کی بڑی تعداد نے بی جے پی کو ووٹ کیا۔ حالانکہ مفت راشن پنجاب میں بھی تقسیم ہوا لیکن پنجاب کی عوام کی معاشی حالت بہتر ہونے کے سبب مفت کے راشن میں ان کے لیے کوئی کشش نہیں تھی۔
دوسرے یہ کہ دلت ووٹ سماج وادی کے بجائے بی جے پی کے حق میں زیادہ گئے۔ بی جے پی نے دلتوں کی مختلف ذاتوں کو اپنے ساتھ ملانے کا کام بہت پہلے شروع کردیا تھا اور یو پی الیکشن کے نتائج اس محنت کا صلہ کہے جا سکتےہیں ۔بدری نارائن ریپبلک آف ہندوتوا میں سنگھ کی سوشل انجینئرنگ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
” The Sangh & its vast network of educational, cultural & social outfits have been digging deep roots in Indian psyche. By refashioning its modes of mobilisation as well as assimilating Dalits, OBCs, Tribals & other marginalised communities, the RSS has made the Hindutva metanarrative appealing to a large section of Indians. During elections, the BJP- instead of wiping out caste from electoral politics- reaps rich political dividends from this social appropriation.”
دنیش نارائن کے مطابق دیورس کے دور سے سنگھ نے خدمت خلق کے ذریعے سوشل انجینئرنگ پروگرام شروع کردیا اور مستقبل میں یہ پروسس مزید تیز ہونے والا ہے۔اس سوشل انجیرنگ پروگرام کو مایاوتی چیلنج کر سکتی تھیں اور دلت ووٹوں کو ہندوتوا کے پاس جانے سے روک سکتی تھی لیکن مایاوتی پورے الیکشن کے منظر نامے سے غائب تھیں۔انہوں نے بہت چالاکی سے بی جے پی کو سپورٹ کیا اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسکی انہوں نے بڑی قیمت بھی وصول کی۔اگر مایاوتی میدان میں ہوتیں تو سماجی انصاف، دستور پر ہورہے حملے اور ریزرویشن کو ختم کرنے کی کوششیں جیسے موضوعات پر دلتوں کو جمع کر سکتی تھیں۔ لیکن شاید مایاوتی نے کانشی رام کے ذریعے شروع ہوئی دلت تحریک کو ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھادیا ۔لہذا دلت ووٹ بی جے پی کے حق میں چلے جانے کے لیے سنگھ کے ساتھ ساتھ مایاوتی بھی ذمہ دار ہیں۔
وہ صرف راہزنوں ہی پہ الزام کیوں رکھے
جو لٹ گیا ہو اپنے نگہباں کے سامنے
تیسرا اور بڑا عنصر یہ رہا کہ الیکشن صرف حکمران مخالف جذبات سے نہیں جیتے جاتے ہیں بلکہ الیکشن مشنری بھی چاہیے جو ان جذبات کو ووٹوں میں بدلے ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے بڑی محنت سے یہ الیکشن مشنری تیار کی ہے جو اس کے لیےہر الیکشن میں گھر گھر جاکر ووٹ مانگتے ہیں اور یہ کام وہ انتخابات شروع ہونے کے بعد نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے شروع کردیتے ہیں۔اکھلیش پانچ سال تک غائب رہے ہاتھرس کیس، کوڈ کی دوسری لہر، کسان مخالف قوانین کے احتجاج،سی اے اے این آر سی مخالف مظاہرے ، لکیھم پور سانحہ ہر مشکل وقت میں جب عوام کو انکی ضرورت تھی وہ غائب تھے۔ بی جے پی نے ہندوستان کی سیاست کو بدل دیا ہے وہ 7/24 کی سیاست کرتی ہے۔پروفیسر اپوروانند کے الفاظ میں ’’Government of BJP is not about policy it always about politics even its not about politics but about wining election بی جے پی ہندوستانیوں کو عوام نہیں بلکہ ووٹ سمجھتی ہے اور پانچ سال اسی اعتبار سے وہ ان کے ساتھ جڑی رہتی ہے اس کے برعکس اکھلیش الیکشن سے چھ مہینے قبل متحرک ہوئے تب تک دریا کا کافی پانی پل کے نیچے سے بہہ چکا تھا۔
کہا جارہا ہے کہ ہندوتوا کے ساتھ ویلفیر اسکیم شامل تھی۔ لیکن یہ کیسا ویلفیر ہے۔ پہلے خود ہی عوام کو جہالت اور غربت کےاندھیرے میں دھکیل دیا جائے اور پھر ان کے آگے روٹی کے چند ٹکڑے پھینک کر انہیں نمک کی دہائی دی جائے۔یعنی پہلے خود ہی درد دیاجائے پھر دوا بھی خود ہی مہیا کرائی جائے۔
درد ہی خود ہے خود دوا ہے عشق
شیخ کیا جانے تو کہ کیا ہے عشق
لیکن واضح رہنا چاہیے کہ ہندو راشٹر کا ماڈل یہی ہے کہ ملک کے تمام وسائل اور ذرائع پر صرف ایک مخصوص طبقہ ہی قابض ہو اور باقی عوام ان کی محتاج رہے ۔
دوسرا اہم الیکشن پنجاب کا تھا جہاں عام آدمی پاٹی نے کلین سویپ کیا۔کیجریوال نے دہلی میں تعلیم ، مہنگائی، کرپشن اس طرح کے عوامی مسائل کی بنیاد پر حکومت قائم کرلی تھی۔ دلی ایک شہر ہے جس کا کلچر ملا جلا ہے اس لیے وہاں کسی نظریاتی بنیاد کی ضرورت نہیں تھی ۔ لیکن ہندوستان کے دیگر علاقوں میں پھیلنے کے لیے عام آدمی پارٹی کو کسی آئیڈیالوجی کی ضرورت تھی۔ ہندوستان کی سبھی پارٹیاں کسی نہ کسی آئیڈیالوجی سے جڑی ہیں۔ سیاست موقع پرستی کا نام ہے لیکن اس میں بھی کچھ نہ کچھ اصولوں کا پاس و لحاظ ہوتا ہے لیکن عام آدمی پارٹی کا کوئی اصول نہیں ہے۔عام آدمی پارٹی کے بارے میں قطیعت سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ وہ کیا رخ اختیار کرے گی۔ بعض ماہرین اسے ہندوتوا کا نیا اوتار بھی کہہ رہے ہیں۔عام آدمی رائٹ ونگ پارٹی بنتی جارہی ہے۔دہلی فسادات میں مسلمانوں کے ساتھ اسکا رویہ، راگھو چڈھا اور منیش سسودیا کے بیانات اور عام آدمی پارٹی کے کئی اقدامات واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ ہندوتوا کے ساتھ ، بہتر انتظامیہ اور ترقی اس کی پالیٹکس کا نیا ماڈل ہوگا۔ حالانکہ عام آدمی پارٹی کے آغاز کے وقت کہا گیا تھا کہ نظریاتی سیاست کا دور ختم ہوگیا اور اب عوام مہنگائی ، کرپشن، اور دیگر ترقیاتی کاموں پر ووٹ دیں گے لیکن عام آدمی پارٹی خود اندر سے ایک ہندو پارٹی دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ اتنی جلدی تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا لیکن حالات یہی تاثر دے رہے ہیں۔
حالانکہ پنجاب الیکشن کے بعد جس طرح وہ بابا صاحب امبیڈکر اور بھگت سنگھ کو اپنارہے ہیں اور ہر تقریر میں ان کی آئیڈیالوجی کے حوالے دے رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اب کیجریوال کی سیاست میں بڑے پیمانے پر امبیڈکر اور بھگت سنگھ کا استعمال ہونے والا ہے۔ہندوستانیوں کے مزاج میں ہیرو ورشپ ہے اس لیے سیاسی پارٹیاں عوام کو لبھانے کے لیے اپنی سہولت کے اعتبار سے ہیروز کو چنتی رہتی ہیں۔ امبیڈکر دلتوں کے ہیرو ہیں لیکن دلت پارٹی اپنی آخری سانسیں گن رہی ہے ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس، دلتوں کو قریب کرنے کی کوششیں کافی عرصے سے کر رہے ہیں۔اب کیجریوال بھی امبیڈکر وادی ہوگئے ہیں ۔ دیکھتے ہیں امبیڈکر کا استعمال کون اپنی سیاست کے لیے بہتر طور پر کرپاتا ہے ۔
ایک سوال یہ ہے کہ اس الیکشن کے ہندوستان کی قومی سیاست پر کیا اثرات پڑنے والے ہیں۔ ان انتخابات سے پہلےوزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں یہ تاثر قائم ہو رہا تھا کہ وہ صرف قومی انتخابات ہی جیت سکتے ہیں اور ریاستی انتخابات میں وہ پارٹی کو کامیاب نہیں بنا سکتے ہیں یہ تا ثر اب ختم ہوچکا ہے۔یہ انتخابات مودی کو نیا اعتماد دیں گے معاشی محاذ پر بد ترین ناکامی، بڑھتی مہنگائی، کوڈ کے دوسری لہرمیں بد انتظامی، گیس اور پٹرول کی بے قابو ہوتی قیمتیں ، بے روزگاری اور کسان مخالف قوانین کے باوجود لوگوں نے مودی کو پھر سے موقع دیا۔مودی حکومت انتخابات کے نتائج کو ہمیشہ سے اپنی پالیسیز کے ریفرنڈم کے طور پرلیتی رہی ہیں اس لیے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اب وہ زراعتی قانون، ایجوکیشن پالیسی اور دیگر بلوں کو پاس کروانے کی کوشش کریں گی۔
یوگی کی پوری معیاد مسلم مخالف سر گرمیوں سے بھری رہی وہ نہ صرف مسلمانوں کے خلاف تشدد کی زبان استعمال کرتے رہے بلکہ اسے بدترین طور پر برتتے بھی رہے اور اسے تسلیم کرنے یا اس کے اظہار میں انہیں کوئی جھجک یا شرم نہیں تھی بلکہ وہ فخر سے اس کا سہرا اپنے سر باندھ رہے تھے۔ وہ ہندو عوام کو صاف پیام دے رہے ہیں کہ اب یہاں قانون کی نہیں بلکہ طاقت کی حکمرانی چلے گی اور انہیں طاقت کے اس استعمال سے پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ان کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والا ہے۔ لوگوں نےبھی اسے تسلیم کرلیا چنانچہ انہوں نے ووٹ بلڈوزر کو ہی دیا۔اب دوسری ریاستیں بالخصوص جہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہے وہ بھی یوپی کا بلڈوزر ماڈل اپنا سکتی ہیں۔اس الیکشن کا صاف مطلب ہے کہ اب قانون کی ضرورت نہیں رہی بلکہ طاقت ہی قانون ہوگا ۔
ایک طرح سے یہ پورے ملک کا انتخاب تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی کی پالیسیوں اور سیاست دونوں کو عوام کی حمایت حاصل ہے۔یہ معاشی وجوہات کے سبب دیا گیا ووٹ نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر نظریاتی طور پر دیا گیا ووٹ ہے۔اور یہ ہندوراشٹر کے حق میں اور اقلیتوں کے خلاف دیا گیا ووٹ ہے۔2024 میں بی جے پی کا ووٹ فیصد مزید بڑھے گا۔سماج وادی پارٹی کوپریشان عوام نے ووٹ دیا جو ہر صورت تبدیلی چاہ رہے تھے اور انہیں محسوس ہورہا تھا کہ اکھلیش وہ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ عام حالت میں اکھلیش یہ ووٹ نہیں لے پائیں گے۔ ویسے بھی قومی انتخاب مکمل طور سے نظریاتی بنیادوں پرہوں گے۔ اس لیے یہ نتائج 2024 کے لیے بہتر امید نہیں دلاتے ہیں۔ ان انتخابات نے کانگریس کی کمزوری کو اجاگر کر دیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہوگئی کی کانگریس ، بی جے پی کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔
کانگریس کو ضرورت ہے کہ خود دوبارہ سے مکمل طور پر منظم کرے ۔ کانگریس کی حیثیت ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ ایک پلیٹ فارم رہی ہے۔ جہاں مختلف فکر و خیال کے سیاستدان قسمت آزمائی کرتے تھے۔ یہاں سوشلسٹ بھی رہے ہیں، ہندوتوادی بھی، لبرل اور سیکولر بھی۔ جو چیز انہیں جوڑے رکھتی تھی وہ اقتدار تھا۔ اقتدار ختم ہوتے ہی کانگریس کی تمام کمزوریاں باہر آگئیں۔سیاست نام ہے عوام سے جڑے رہنے کا لیکن کانگریس کاکوئی بھی لیڈر چاہے چدمبرم ہو جے رام رمیش،کپل سبل یا کوئی اور ان میں سے کوئی بھی راست عوام سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے پاس ہندوتوا کے بالمقابل کوئی نظریاتی بیانیہ موجود ہے لیکن ٹھوس پروگرام کی کمی، نظریاتی بیانیے کو سیاسی بیانیے میں نہ بدل پانا ، کمزور سیاسی پارٹی اور ڈوبتی ہوئی تنظیم ان تمام عوامل کے سبب وہ کبھی بھی مودی کو ٹکر نہیں دے سکتے۔علاقائی پارٹیاں قومی انتخاب میں بڑا رول ادا نہیں کرتی ہیں۔اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2024کا الیکشن بھی مودی آسانی سے جیت جائیں گے۔
***

 

***

 مایاوتی پورے الیکشن کے منظر نامے سے غائب تھیں۔انہوں نے بہت چالاکی سے بی جے پی کو سپورٹ کیا اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسکی انہوں نے بڑی قیمت بھی وصول کی۔اگر مایاوتی میدان میں ہوتیں تو سماجی انصاف، دستور پر ہورہے حملے اور ریزرویشن کو ختم کرنے کی کوششیں جیسے موضوعات پر دلتوں کو جمع کر سکتی تھیں۔ لیکن شاید مایاوتی نے کانشی رام کے ذریعے شروع ہوئی دلت تحریک کو ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھادیا ۔لہذا دلت ووٹ بی جے پی کے حق میں چلے جانے کے لیے سنگھ کے ساتھ ساتھ مایاوتی بھی ذمہ دار ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  20 تا 26 مارچ  2022