ہندوستان میں اشاعت اسلام کی تھیوریوں کا تنقیدی جائزہ

اجتماعی تبدیلی مذہب کے دعوے تاریخی طورپرغیر مستند

شبیع الزماں،پونے

مبلغین نے بنیادی طورپر شرک کےمقابلےمیں توحید کی دعوت دی
سرکاری سرپرستی کے ذریعہ اشاعت اسلام :
ہندوستان میں اشاعت اسلام کی تیسری اور مشہور تھیوری سرکاری سرپرستی کے ذریعہ اشاعت اسلام (Religion of Patronage theory) ہے۔ اس تھیوری کے مطابق ہندوستان کے عوام ، کچھ مادی فائدے جیسے ٹیکس میں راحت، گورنمنٹ جاب ، بیوروکریسی میں ترقی اور اسی طرز کے دوسرے فوائد سمیٹنے کے لیے اسلام میں داخل ہوئے۔ یہ بات درست ہے کہ اس قسم کے بعض واقعات ضرور پیش آئے لیکن یہ واقعات ان علاقوں میں ہوئے جہاں حکومت مضبوط پوزیشن میں تھی پھر بھی تبدیلی مذہب کے واقعات کم ہی پیش آئے اوروہاں یہ واقعات بنگال یا پنجاب کی طرح اجتماعی تبدیلی مذہب (mass conversion) کی صورت میں پیش نہیں آئے لہذا وہاں ان واقعات کی حیثیت استشنائی ہے۔
بعض متعصب مورخوں نے جزیہ کو اشاعت اسلام کی وجہ بتادی حالانکہ ان کے پاس اس دعوے کی تائید میں تاریخ سے کوئی دلائل موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے تاریخی طوطا مینا اڑا کر اپنی تھیوریوں کو ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔ ستیش چندرا ، اورنگ زیب کے دوران لگائے جزیہ کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
Let us first see what it was not. It was not meant to be an economic pressure for forcing the Hindus to convert to Islam for its incidence was light—women, children, the disabled and the indigent, that is those whose income was less than the means of subsistence were exempted, as were those in government service. Nor, in fact, did any significant section of Hindus change their religion in earlier times due to this tax.(History of Mediaeval India)
’’آئیے پہلے دیکھتے ہیں کہ یہ کیا نہیں تھا۔ اس کا مقصد ہندوؤں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے معاشی دباؤ ڈالنا نہیں تھا کیونکہ اس طرح کے واقعات بالکل کم تھے – خواتین، بچے، معذور اور مسکین، یعنی وہ لوگ جن کی آمدنی گزربسر کے ذرائع سے کم تھی، وہ ان لوگوں سےمستثنیٰ تھے جو سرکاری ملازمت میں ہیں۔ درحقیقت اس ٹیکس کی وجہ سے پہلے زمانے میں ہندوؤں کے کسی اہم طبقے نے اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا۔‘‘
اس قسم کی تھیوریز ہمیشہ مغربی تربیت یافتہ سیکولر ماہر سماجیات پیش کرتے ہیں جن کے نزدیک روحانیت بغیرکسی مادی سہارے کے کھڑی نہیں رہ سکتی۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مذہب کی حیثیت اتنی کمزور نہیں ہے کہ چند مادی فائدوں کے لیے اسے ترک کر دیا جائے ۔انسان مذہب کےلیے نہ صرف مال بلکہ جان تک قربان کردیتا ہے۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا کہ چند مادی فائدوں کے لیے ایک بڑی اکثریت نے اپنا مذہب تبدیل کردیاہو۔ یہ تھیوری خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔
سماجی آزادی کے سبب اشاعت اسلام:
اشاعت اسلام کی چوتھی تھویری کو Religion of Social Liberation thesis کہا جاتا ہے۔ یہ تھیوری برطانوی مورخین اور ethnographers (ماہر نسلیات) کے ذریعے پیش کی گئی ۔ لیکن اسے پھیلانے میں پاکستانی اور بنگلہ دیشی مصنفیں کا بڑا کردار رہا ہے اور ایک زمانے تک ہندوستان میں اشاعت اسلام کی معروف تھیوری رہی جسے مسلمان پیش کرتے رہے۔اس تھیوری کے مطابق ہندوستان میں اپر کاسٹ ہندو بالخصوص برہمنوں نے ہزاروں سال نچلی ذات کے ہندووں پرمظالم ڈھائے اور ان کا استحصال کیا۔ اس کے بعد اسلام اپنا پیغام مساوات لے کر ہندوستان میں آیا ، بالخصوص صوفیا کی محبت بھری تعلیم سے متاثر ہوکر مظلوموں نے اسلام قبول کیا۔ یہ تھیوری مسلمانوں کو زیادہ اپیل کرتی ہے جس سے کہ اسلام کا مساوات کا پہلو اور ہندو دھرم کی بھیا نک شکل سامنے آتی ہے لیکن اس تھیوری میں مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ اور ڈیٹا اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ ویسے بھی یہ کچھ غیرمنطقی بھی ہے کیونکہ حال کی قدروں سے ماضی کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ سماجی مساوات دور جدید کا تصور ہے ماضی میں ہندوستانی عوام اس سے نا بلد تھے۔ ویسے بھی غلام قوموں میں تصور آزادی اتنی جلدی پیدا ہوا نہیں کرتا۔ غلامی کی نفسیات کی جڑیں بڑی گہری ہوتی ہیں اسے کاٹنے کے طویل جدوجہد، انتھک محنت، مضبوط بیانیے کے ساتھ طاقتور قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کہہ دینا کہ اسلام کا مساوات کا نظام دیکھتے ہی ہندووں کے غول کے غول اسلام میں داخل ہوگئے معاملے کی بہت سادہ تعبیر ہے۔ دور جدید میں جہاں انسانی مساوات کا اتنا غلغلہ ہے ، امیبڈکر جیسی شخصیت کی قیادت کی موجودگی میں ، لوگ کاسٹ سسٹم کی بندشوں سے باہر نکل نہیں پائے تو یہ اس دور میں جب کہ برہمنوں کی سماج پر پکڑ مضبوط تھی، سماجی مساوات کے نظریات بھی موجود نہیں تھے اور قیادت کا بھی کوئی پتہ نہیں تھا، یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ لوگ اتنی آسانی سے ہزاروں سال پرانی مذہبی بندشوں سے آزاد ہوجاتے۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو بلا شبہ انسانوں کے درمیان مساوات روزاول سے اسلامی تعلیمات کا حصہ رہا ہے لیکن دنیا اور مسلمانوں نے اسے ایک قدر کے طور پر انقلاب فرانس کے بعد ہی اپنایا ہے۔اس لیے یہ بات کہ اسلام مذہبی ہی نہیں بلکہ سماجی مساوات کا بھی علمبردارہے ایک جدید خیال ہے۔ مسلمانوں کی دعوت کا محور کبھی بھی سماجی مساوات نہیں رہا بلکہ انہوں نے اپنی دعوت کی بنیاد شرک کے مقابلے توحید پر رکھی۔
اس دور کے تاریخی مطالعے سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سماجی مساوات کو مسلمانوں نے ایک امتیاز کے طور پر نہیں پیش کیا۔Yohanan Friedmann کے مطابق ’’قرون وسطی کے مسلمانوں نے ہندو عدم مساوات کے مقابلے میں اپنے مذہب کے سماجی مساوات کے نظریے پر زور نہیں دیا، بلکہ ہندو شرک کے مقابلے میں اسلامی توحید پرزور دیا۔ ‘‘۔ دونوں تہذیبوں کے درمیان مسلمانوں کے نزدیک بنیادی امتیاز توحید تھا نہ کہ سماجی مساوات۔ جو قدر خود مسلمانوں کے نزدیک امتیازی نہیں تھی اس کی بنیاد پر وہ اسلامی دعوت کیسے دے سکتے تھے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ہندوستانی سماج آزادی کے تصور سے واقف تھا اور وہ اس کا انتظار بھی کررہے تھا اور اسلام ان کے سامنے سماجی مساوات کے نظریہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا تب بھی دونوں مفروضے غلط ثابت ہوتے ہیں۔کیونکہ تاریخی طور پر اس بات کے ثبوت نہیں ملتے کہ ہندوستانی کمیونٹی کے اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی سماجی حیثیت میں کوئی تبدیلی آئی ہو۔ اکثر علاقوں میں اسلام قبول کرنے بعد بھی لوگوں کی سماجی حیثیت وہی برقرار رہی جو اسلام قبول کرنے سے پہلے تھی بلکہ بعض علاقوں میں برہمن ازم کے طرز پر مسلمانوں میں بھی کاسٹ سسٹم گھس آیا۔ مزید تفصیلات کے لیے (Caste and Social Stratification among the Muslims. Imtiaz Ahmed) ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
بنگال میں تو بھنگی کا کام بھی مسلمان کرتے تھے۔
James Wise نے اپنی کتاب Notes on the Races, Castes and Traders of Eastern Bengal, میں بنگالی مسلمانوں کے متعلق لکھا ہے :
In other parts of India menial work is performed by outcast Hindus; "but in Bengal any repulsive or offensive occupation devolves on the Muhammadan. The Beldar [scavenger, and remover of carcasses] is to the Muhammadan village what the Bhuinmali is to the Hindu, and it is not improbable that his ancestors belonged to this vile caste.”
آخری اور اہم بات ،1872 کی مردم شماری کے مطابق مشرقی بنگال، مغربی پنجاب، شمال مغرب اور بلوچستان کے علاقے مسلم آبادی کے علاقے تھے۔ اس میں حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ یہ علاقے مسلم سیاسی قوت کے مراکز سے تو دور تھے ہی اس کے ساتھ ساتھ برہمن ازم کا زور بھی ان علاقوں میں نہیں تھا۔ اس لیے یہ نکتہ اہم ہے کہ ہندوستان میں اسلام ان علاقوں میں زیادہ پھیلا جہاں ہندو ازم نے بدھ ازم اور مقامی مذاہب کو پوری طرح دبا نہ لیا تھا۔اور ذات پات کا معاشرتی نظام عوام کی زندگی پر پوری طرح حاوی نہ ہوا تھا۔جب مسلمان سندھ میں آئے تو رعایا کا بڑا حصہ بودھ مذہب کے مانے والوں کا تھا اور اسی طرح بنگال میں بالخصوص مشرقی علاقوں میں ہندوازم کو فروغ حاصل نہ ہوا تھا۔بنگال میں، اسلام قبول کرنے والے بنیادی طور پر راج بنسی، پوڈ، چنڈال، کچھ اور دیگر مقامی گروہوں سے تعلق رکھتے تھے جو برہمنی ثقافت سے بہت زیادہ متعارف نہیں تھے۔یہی بات پنجاب کے بارے میں بھی درست ہے جہاں جاٹ کمیونٹی سے تعلق رکھنے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
جہاں جہاں ہندوازم کمزور تھا وہاں اسلام کے لیے پیر جمانا آسان تھا کیونکہ ہندوازم کا سماجی ڈھانچہ بہت سخت تھا ایک فرد کے لیے اپنے مذہب کو چھوڑ برادری کی مخالفت جھیلنا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ اس لیے لوگوں کے لیے ہندوازم کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنا آسان نہ تھا۔ محمد اکرام اپنی کتاب آب کوثر میں لکھتے ہیں
’’ سید گیسو دراز کے ملفوظات اور دوسرے شواہد سے خیال ہوتا ہے کہ اسلامی مبلغین کی راہ میں بڑی رکاوٹ روحانی نہ تھی بلکہ ذات پات کا نظام تھااور جن علاقوں میں یہ نظام ابھی مستحکم نہ ہوا تھا یعنی سندھ، مغربی پنجاب، اور بنگال وہاں اشاعت اسلام کا کام آسانی سے سر انجام پا گیا۔‘‘
ستیش چندرا دہلی سلطنت میں مذہبی آزادی کے ضمن میں لکھتے ہیں:
There is no evidence, however, that large numbers of persons belonging to the lower castes embraced Islam due to the discrimination against them in the Hindu society۔(history of medieval India)
’’تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہندو معاشرے میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے اپنے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سے اسلام قبول کیا‘‘۔
ویدک لٹریچر بر صغیر کو تین مرتکز دائروں میں تقسیم کرتا ہے، ہر ایک الگ الگ سماجی ثقافتی برادریوں پر مشتمل ہے۔
ان میں سے پہلا، آریاورت، یا آریائی وطن، شمالی وسطی ہندوستان کے بالائی گنگا-جمنا کے علاقے سے مطابقت رکھتا تھا۔ وہاں برہمنی روایت کے ’’پاک ترین‘‘ وارث رہتے تھے، یہ لوگ خود کو اعلیٰ نسل اورمقدس سمجھتے تھے۔
دوسرے دائرے میں مالوا، مشرقی اور وسطی بہار، گجرات، دکن اور سندھ سے متعلق ایک بیرونی پٹی (اونتی، انگا مگدھ، سوراسترا، ڈاکسیناپتھا، اپاورٹ، اور سندھو سوویرا) شامل تھی۔ یہ علاقے ہند آریائی علاقوں میں تھے، لیکن ان میں ایسے لوگ آباد تھے جو مخلوط نسل کے تھے جو پہلے خطوں کے لوگوں کی طرح پاک اور اعلیٰ نسل کے نہیں تھے۔
تیسرے دائرے میں وہ بیرونی علاقے شامل تھے جن میں ’’ناپاک‘‘ قبائل آباد تھے جنہیں اب تک پیلے رنگ سے آگے سمجھا جاتا تھا کہ ایسی جگہوں پر جانے والوں کے لیے تپسیا تجویز کی گئی تھی۔ اس تیسرے دائرے میں رہنے والے لوگوں میں پنجاب کے اراٹا، جنوبی پنجاب اور سندھ کے سوویرا، شمالی بنگال کے پنڈراس اور وسطی اور مشرقی بنگال کے ونگ شامل تھے۔
اگر Social Liberation تھوری کوسچ مان لیا جائے اس صورت میں سب سے زیادی کنورژن ان علاقوں میں ہونا چاہیے تھا جہاں برہمنی سماجی نظام سب سے زیادہ گہرا تھا یعنی آریہ ورتا علاقے میں لیکن ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ اسلام ان علاقوں میں پھیلا جہاں برہمنی یا ہندو تہذیب کم زور تھی یعنی تیسرے علاقے میں جہاں برہمنوں کے مطابق ناپاک لوگ رہتے تھے ۔
کاسٹ سسٹم کی وکالت کرنے والے بھی اسے بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ جہاں کاسٹ سسٹم کمزور تھا وہاں اسلام زیادہ تیزی سے پھیلا ۔ سنگھ کے دوسرے سر چالک ایم ایس گولوالکر لکھتے ہیں:
We know as a matter of history that our northwestern and northeastern areas, where the influence of Buddhism had disrupted the caste system, fell an easy prey to the onslaught of Muslims. Gandhar, now called Kandahar, became completely Muslimised. Conversion took a heavy toll in east Bengal too. But, the areas of Delhi and Uttar Pradesh, which were considered to be very orthodox and rigid, remained predominantly Hindu even after remaining as the citadels of Muslim power and fanaticism for a number of centuries.(Bunch of Thoughts)
’’ہم تاریخ کے ایک معاملے کے طور پر جانتے ہیں کہ ہمارے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، جہاں بدھ مت کے اثر نے ذات پات کے نظام کو درہم برہم کر دیا تھا، مسلمانوں کے حملے کا آسان شکار ہو گئے۔ گندھار، جسے اب قندھار کہا جاتا ہے، مکمل طور پر مسلمان ہو گیا۔ تبدیلی نے مشرقی بنگال میں بھی بہت زیادہ نقصان اٹھایا۔ لیکن، دہلی اور اتر پردیش کے علاقے، جو بہت راسخ العقیدہ اور سخت سمجھے جاتے تھے، کئی صدیوں تک مسلم طاقت اور جنونیت کے قلعے کے طور پر رہنے کے بعد بھی بنیادی طور پر ہندو ہی رہے۔یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ Social Liberation تھیوری کی حیثیت ایک مفروضے سے زیادہ نہیں ہے۔
ان تمام تھیوریوںکے تنقیدی جائزوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہندوستان میں اشاعت اسلام ان سب طریقوں کا کچھ نہ کچھ حصہ تو ضرور رہا لیکن کوئی بھی طریقہ اطمینان بخش طور سے اجتماعی تبدیلی مذہب (Mass Conversion)کے وقوع کو واضح نہیں کرپاتا ہے۔ اس جائزہ سے درج ذیل اہم باتیں بھی سامنے آتی ہیں:
اول یہ کہ ماضی میں مسلمانوں کی دعوت کا فریم ورک ہندو شرک کے بالمقابل اسلامی توحید رہا ہے۔ اور دوسرے مذاہب کے بالمقابل اسلام کو زیادہ کامیابی شاید اسی لیے حاصل ہوئی۔ کیا حال میں بھی دعوت دین کی بنیاد یہی ہونی چاہیے یا دوسرے سماجی موضوعات بھی دعوت کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ یہ عنوان مزید غور و فکر اور گفتگو چاہتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ذات پات کے نظام نے ہندو سماج کو اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ اس کی قید سے آزاد ہو کر وہ کسی نئی دعوت اور نئے پیغام کے بارے میں سوچ ہی نہیں پارہا ہے۔اس لیے اشاعت اسلام کے لیے کاسٹ سسٹم جیسے غیر انسانی لیکن مضبوط نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ موجودہ زمانے کی قدروں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس نظام کی قباحت واضح کی جاسکتی ہے۔
تیسرے یہ کہ ہمارے مورخین و مصنفین نے جس طرح سے مسلم افواج کی فتوحات و اقدامات کو سپرد قلم کیا ہے ویسی ہی دلچسپی اسلام کی توسیع و اشاعت کی تاریخ نگاری میں نہیں دکھائی اور اسے یورپی مورخین کے بھروسے چھوڑ دیا کہ وہ جیسی چاہے اس کی تاریخ سازی اور تعبیر کرتے رہیں۔ جس کے سبب حقیقی اشاعت اسلام کے اسباب دب گئے ہیں۔ اس لیے ہندوستان میں اشاعت اسلام کے حقیقی اسباب مزید توجہ و تحقیق کے متقاضی ہیں اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں نئے دعوتی طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
مراجع:
1-The Preaching of Islam- T.W. Arnold
2-The Rise of Islam and the Bengal Frontier, 1204–1760- Richard M. Eaton
3-Modern European and Muslim Explanations of Conversion to Islam in South Asia: A Preliminary Survey of the Literature- Peter Hardy
4-A Contribution to the Early History of Islam in India- Yohanan Friedmann
5-History of Medieval India- Satish Chandra
6-Bunch of Thoughts. M.S.Golwalkar
***

 

***

 ہمارے مورخین و مصنفین نے جس طرح سے مسلم افواج کی فتوحات و اقدامات کو سپرد قلم کیا ہے ویسی ہی دلچسپی اسلام کی توسیع و اشاعت کی تاریخ نگاری میں نہیں دکھائی اور اسے یورپی مورخین کے بھروسے چھوڑ دیا کہ وہ جیسی چاہے اس کی تاریخ سازی اور تعبیر کرتے رہیں۔ جس کے سبب حقیقی اشاعت اسلام کے اسباب دب گئے ہیں۔ اس لیے ہندوستان میں اشاعت اسلام کے حقیقی اسباب مزید توجہ و تحقیق کے متقاضی ہیں اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں نئے دعوتی طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 جولائی تا 30 جولائی 2022