ہندوستانی تاریخ کا مطالعہ۔اہمیت اور تقاضے

بھارت کی موجودہ صورتحال سمجھنے کے لیے تاریخ سے رجوع ہونے کی ضرورت

شبیع الزماں ،پونے

برِصغیر ہند وپاک کی تاریخ کا مطالعہ ہمیشہ سے دلچسپی کا باعث رہا ہے لیکن موجودہ حالات میں اس کی معنویت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بھارت کی موجودہ سیاسی صورتحال اس بات کا شدید تقاضا کرتی ہے کہ ہم ماضی میں جھانک کر برصغیر کے گزرے ہوئے حالات کا جائزہ لیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہاں کیا ہو گزرا ہے۔تاریخ بعض اوقات زنجیر پا ہو جاتی ہے۔ بھارتی سماج پر اس کی تاریخ نے بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ تاریخ بار بار ماضی سے نکل کر حال میں آجاتی ہے اور ہر بار نئی بحثوں کو جنم دیتی ہے۔ ضروری ہے کہ اس تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اور اس کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ عمر چھاپرا اپنی کتاب مسلم تہذہب میں تاریخ کے مطالعہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں۔’’یہ بات واضح رہے کہ مستقبل، ماضی سے اتنا گہرا مربوط ہے کہ جب تک ہم زوال کی ان قوتوں کی اچھی طرح شناخت نہ کرلیں اور یہ نہ جان لیں کہ وہ کس طرح متحرک ہوئیں اور آپس میں مل کر زوال کی رفتار میں اضافہ کا باعث بنیں ہم عالم اسلام کی ترقی اور اس کے تیز رفتار عروج کے لیے مناسب طریقہ کار اور حکمت عملی تجویز نہ کرسکیں گے۔‘‘ (مسلم تہذیب)۔
بھارت کی تاریخ کے مطالعے کے یوں تو کئی اسباب ہوسکتے ہیں لیکن حالات حاضرہ کی مناسبت سے ذیل میں چند وجوہات درج کی جارہی ہیں۔
اول: بھارتی سیاست میں موجودہ تمام حصے داروں جیسے، برہمن،دلت،عیسائی اور مسلمان تاریخ ہی سے ابھرے ہیں۔ اگر ہم بھارت کی چار ہزار سالہ تاریخ کے ارتقا کا جائزہ لیں گے تو اس پورے وقفہ میں چار تاریخی ادوار بہت واضح طور پر سامنے آتے ہیں۔ چار مختلف مذاہب یا تہذیبیں اپنے اپنے دور میں بھارت کی تقدیر کی مالک تھیں۔ ویدک آرین، بدھسٹ،مسلمان اور انگریز(عیسائی) ان میں سے ہر ایک گروہ نے بھارت کی تاریخ میں اہم اضافے کیے ہیں۔اس تاریخ سے ابھرنے والا ہر گروہ آج بھی بھارتی سیاست اور سماج میں اہم رول ادا کرر ہا ہے۔ اگر ہر گروہ کی سیاست، معاشرت اور قومی عزائم کا جائزہ لیا جائے تو ان کی جڑیں تاریخ ہی میں پائی جاتی ہیں۔ بھارتی سیاست کو سمجھنے کے لیے، یہاں موجود سماج کے سبھی حصہ داروں کو ان کے تاریخی پس منطر کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے۔
دوم: سیاست اپنے کمالات دکھانے میں مذہب، زبان، قوم، نیشنلزم، کلچر، ذات، طبقات، تہذیب، شخصیات وغیرہ جیسے جن اجزاء کا استعمال کرتی ہے وہ تمام اجزاء برِصغیر کی اس سیاست میں ہمیں بدرجہ کمال نظر آتے ہیں۔ ان تمام اجزائے سیاسی کی نشو ونما تاریخ کے مختلف مراحل میں ہوئی ہے۔ بناں چہ ان اجزاء کو سمجھنے کے لیے بھارت کی تاریخ کا فہم ضروری ہے۔
سوم: بھارت کے سلگتے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ اسلامو فوبیا یا مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے، اسلامو فوبیا کے لیے استعمال ہونے والے بیانیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی تمام تر بنیادیں تاریخی حوالوں پر ہی رکھی ہوئی ہیں۔ اسلامو فوبیا کے بیانیوں کو سمجھنے اور ان کا جواب دینے کے لیے اس تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے جن میں یہ تمام بیانیے تشکیل پائے ہیں۔
چہارم: ہندوتوا موجودہ بھارت کی غالب فکر ہے، بھارتی سیاست میں اسے مکمل تسلط حاصل ہے۔ہندوتوا کے اس نظریہ کی اٹھان ہی مسلم مخالف تاریخ کی بنا پر ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کو بالکل ہی ہندو مخالف تاریخ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ بابر، اورنگ زیب، خلجی ودیگر مغل بادشاہوں اور مسلم حکمرانوں کے دور کو ہندوؤں پر مظالم کے دور کے طور پر پیش کیا گیا جن کے خلاف شیواجی اور مہارانا پرتاب جیسے حکمرانوں نے ہندووں کے لیے آزادی کی لڑائی لڑی تھی۔ ہندوتوادی آج بھی اسی بیانیہ کو استعمال کرتے ہیں کہ موجودہ مسلمان انہی ظالم بادشاہوں کی وراثت ہیں۔ بابر کی اولاد جیسے جملے اس تاریخی بیانیے کو زندہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ سٹیزن شپ بل کے حق میں جو وہائٹ پیپر شیاما پرساد مکھرجی ریسرچ فاؤنڈیشن نے جاری کیا تھا اس کی تمام تر بنیادیں تاریخ پر ہی تھی۔
۵: جدید دور ایک نظریاتی دور ہے ۔ یہاں ہر چیز کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک خاص زاویہ ہوتا ہے اور اسی زاویہ نگاہ سے چیزوں کی تعبیر وتشریح کی جاتی ہے۔ علم تاریخ بھی اس سے محروم نہیں ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں بھارتی تاریخ کو سمجھنے کے لیے چار مکاتب فکر (school of thoughts) قائم ہوئے ہیں۔
۱۔ کیمبرج (Cambridge)
۲۔ مارکسسٹ (Marxist)
۳۔ سبالٹرن (Sabaltern)
۴۔ نیشنلسٹ (Nationalist)
ایک پانچواں مکتب فکر، ہندوتوادیوں کی طرف سے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں بھارتی تاریخ کو پوری طرح مسخ کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔
مسلمانوں نے بھارت کی تاریخ میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔ سماجی، سیاسی اور ہر سطح پر انہوں نے اثرات ڈالے ہیں لیکن موجودہ تاریخ میں انہیں ایک ویلن کی حیثیت سے ہی پیش کیا جاتا ہے۔مسلمانوں کی تاریخ کا عمومی تصور شمشیر زنی، سرحددوں کی تسخیر اور ملکوں کی فتوحات سے عبارت ہے۔ غیر مسلم تو مسلمانوں کی تاریخ کو اسی زاویہ سے دیکھتے ہیں لیکن خود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بھی تاریخ کے اسی ورژن سے واقف ہے۔ مسلمانوں کی علمی فتوحات اور مختلف علوم کے فروغ میں ان کی بیش بہا کاوشوں کو عام واقفیت حاصل نہیں ہے۔ اس تاثر کے قیام میں جتنی دوسری تہذیبیں اور قومیں ذمہ دار ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ خود مسلمان بھی ذمہ دار ہیں جو اپنی تاریخ میں سائنسدانوں، اسکالرز اور علوم کے ماہرین کی بہ نسبت صرف شمشیر زنوں، فاتحین اور حکمرانوں پر ہی فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کے کارناموں کو ہی اپنی تاریخ تصور کرتے رہے ہیں۔ اس لیے تاریخ کے ایک ایسے ورژن کی ضرورت ہے جو نہ صرف مسلم دور حکومت بلکہ بھارت کی مجموعی تاریخ کا صحیح تصور پیش کر سکے۔
ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب ’’آخری عہد مغلیہ کا بھارت‘‘ میں لکھتے ہیں ’’اس وقت ہمارے معاشرے کی ضرورت نہ صرف زوال کے اسباب کو سمجھنے کی ہے بلکہ اس سے سبق بھی سیکھنے کی ہے۔ تاریخ اگرچہ ماضی کا نام ہے مگر اس کا رشتہ حال سے پیوست ہے۔ اس لیے ہماری ماضی کی تاریخ ہمارے حال کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔‘‘
مطالعہ تاریخ کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ ہمیں تاریخ سے کیا لینا دینا ہے، ماضی کے کھنڈرات کو حسرت بھری نگاہوں سے تکنے سے کیا حاصل ہوگا، ہمیں مستقبل کی صورت گری کرنی چاہیے، بس آگے بڑھ کر آئندہ کی فکر کرنی ہے۔ یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے لیکن مستقبل کی فکر کرنے کے لیے ماضی سے قطع تعلق کرلینے کے کیا معنی، تاریخ سے رشتے توڑ کر قومیں اس پودے کی مانند ہوجاتی ہیں جس کی زیر زمین جڑیں کاٹ دی گئی ہوں اور زمین کی سطح پر بظاہر خوشنما نظر آنے والا پودا اپنی جڑوں سے کٹ جانے کے سبب بہت جلد سوکھنے والا ہوتا ہے۔ تاریخ بلاشبہ ماضی کا نام ہے لیکن اس کا رشتہ حال سے جڑا ہوتا ہے اور مستقبل کی نقشہ بندی کے لیے اس تاریخ کا مطالعہ لازمی ہے ۔
بھارت میں چھ سو سال تک مسلمانوں کی مضبوط حکومتیں قائم رہیں لیکن آج اسی ملک میں وہ اجنبیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی دور کا خاتمہ اچانک سے نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے پس منظر میں طویل عرصے تک سیاسی، سماجی اور معاشی وجوہات کام کر رہی ہوتی ہیں اور پھر اچانک ایک حادثہ اس کھوکھلی عمارت کو زمین بوس کر دیتا ہے۔ تاریخ میں کسی دور کے خاتمے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے اس کے پس منظر میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان واقعات کا مطالعہ کیا جائے۔ ہر دور اپنے پہلے والے دور کی پیدائش ہوتا ہے اس لیے آج کے زوال کو سمجھنے کے لیے کل کی تاریخ جاننا ضروری ہے۔ اٹھارویں صدی کو صرف اٹھاوریں صدی کے مطالعے سے نہیں سمجھا جا سکتا ہے بلکہ اس کے لیے سترہویں صدی میں ہونے والی تبدیلیوں کا جاننا ضروری ہے۔ اسی طرح اکیسوی صدی کو صرف آج کے احوال سے نہیں سمجھا جاسکتا ہے بلکہ اس ماضی کو سمجھنا ہوگا جس کے بطن سے اکیسویں صدی نے جنم لیا ہے۔ چنانچہ اگر ہم بھارت کی موجودہ صورتحال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تاریخ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
***

 

***

 مسلمانوں نے بھارت کی تاریخ میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔ سماجی، سیاسی اور ہر سطح پر انہوں نے اثرات ڈالے ہیں لیکن موجودہ تاریخ میں انہیں ایک ویلن کی حیثیت سے ہی پیش کیا جاتا ہے۔مسلمانوں کی تاریخ کا عمومی تصور شمشیر زنی، سرحدوں کی تسخیر اور ملکوں کی فتوحات سے عبارت ہے۔ غیر مسلم تو مسلمانوں کی تاریخ کو اسی زاویہ سے دیکھتے ہیں لیکن خود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بھی تاریخ کے اسی ورژن سے واقف ہے۔ مسلمانوں کی علمی فتوحات اور مختلف علوم کے فروغ میں ان کی بیش بہا کاوشوں کو عام واقفیت حاصل نہیں ہے۔ اس تاثر کے قیام میں جتنی دوسری تہذیبیں اور قومیں ذمہ دار ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ خود مسلمان بھی ذمہ دار ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 نومبر تا 20 نومبر 2021