ہندوتو تہذیبی قوم پرستی کے ابھرتے نقوش

جارحانہ فسطائیت کی طرف بڑھتے قدم

ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی

کرونا وائرس میں طویل لاک ڈاؤن کے دوران گھر بیٹھے بیٹھے ہمیں بہت سے ڈرامے دیکھنے کو ملے جن میں سے دو تو براہ راست پرائم منسٹر کی طرف سے پلاٹ کیے گئے تھے اور پورا ملک ان تماشوں میں شریک ہوا، اس کے پہلے حصہ میں گھروں سے تالی اور تھالی بجا کر کورونا سے نجات چاہی گئی اور اس کے بعد سب نے دیئے جلاکر اور پٹاخے پھوڑ کر مسٹر پرائم منسٹر کے پروگراموں کو کامیاب بنایا، ایک تیسرا ڈرامہ بی جے پی- آر ایس ایس حکومت میں کام کرنے والی پولیس کے بل پر رچا گیا اور وہ تھا سب کچھ پہلے سے جاننے بوجھنے کے باوجود بالکل اچانک ڈرامائی انداز میں فرقہ وارانہ رنگ دے کر تبلیغی جماعت کے مرکز میں کرونا پازیٹیو کیسوںکی شناخت اور اس کے پیروکاروں کی پورے ملک ، خصوصا یوپی میں، دھر پکڑ ۔
ہمارے آس پاس اس دوران ڈرامے اور بھی ہوئے ہیں لیکن یہ تحریر بنیادی طور سے ہندوستان کی رگ جان پر ہندوتو کی تہذیبی قوم پرستی کے پنجے کی مضبوط ہوتی گرفت پر ایک نظر ڈالنے کے لیے لکھی گئی ہے، اس لیے اس میں صرف انھیں واقعات کا ذکر ہوگا جن کا اس موضوع سے تعلق ہے ۔ دیش بھر میں کورونا کے نام پر تھالی بجانے اور دیئے جلانے کے فیصلے کو کچھ لوگ ’ہندو متحد‘ کا حصہ مانتے ہیں، کچھ لوگ اسے سیاسی بازیگری(Political Stunt) کے طور سے دیکھتے ہیں، جب کہ کچھ دوسرے لوگ اسے ایک مخصوص مذہبی کلچر کا مظاہرہ مانتے ہیں جس کی ایک وجہ تو یہ بد عقیدگی ہے، جس کی طرف وزیر اعظم کی تقریر میں بھی اشارہ کیا گیا کہ اس دیئے کی روشنی سے بیماری کا اندھکار دور ہوجائے گا اور اس سے ’دشمن‘ کرونا سے لڑنے میں مدد ملے گی، دوسرے لفظوں میں یہ عمل مشرکانہ ہندو توہمات کا حصہ ہے، جب کہ ایک دوسری توجیہ یہ کی گئی کہ اگرچہ یہ سارے عمل ایک ہندوانہ کلچر کا حصہ پیں لیکن یہ بیماری سے جڑے توہمات کے سبب یا بیماری کو دور بھگانے کے لیے نہیں بلکہ ہندوتو کی طاقت کے مظاہرے کی غرض سے کیا گیا ہے لیکن اسے کورونا کے پردے میں قصداً مخفی رکھا گیا ۔ میرے نزدیک یہی آخری صورت زیا دہ قرین قیاس ہے ورنہ ان حرکتوں کی اور کوئی معقول توجیہ نہیں کی جاسکتی، اس طرح ان تماشوں کو سیدھے تہذیبی قوم پرستی سےجوڑ کر دیکھا جائے تو بات زیادہ آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے، جب تہذیبی قوم پرستی سرکاری ایجنڈے کا حصہ بن جاتی ہے تو اسے جنگ اور امن تمام حالتوں میں ملک کے سبھی مذہبی اقوام پر قصدا مسلط کیا جانے لگتا ہے تا کہ اس کا سبق ذہنوں سے کبھی محو نہ ہو۔
ہندوتو ’ قوم پرستی‘ کیا ہے اس پر گفتگو سے پہلے آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ اتوار ، ۵ مارچ کو کیا ہوا اور کیوں ہوا ۔
یہ ہم سب جانتے ہیں کہ پرائم منسٹر صاحب نے گھرون کی تمام بتیاں گل کرکے دیئے جلانے کی اپیل یہ کہ کر کی تھی کہ ’’صرف دیئے جلانے ہیں اور کچھ نہیں” لیکن ہم سب نے دیکھا کہ اس دن کیا ہوا؟۔ وہ تو من ہی من میں خوش ہورہے ہوں گے کہ میں نے تو اپنی تقریر میں صرف دیئے جلانے کو کہا تھا مگر کمال ہو گیا کہ میرے ایک اشارے پر میرے بھکتوں نے کرونا کے بہانے ملک بھر میں پوری دھوم سے ایک اور دیوالی منالی، وہ بھی بھر پور طور سے، دیئے اور دھماکوں کے ساتھ۔ وہ یہ سوچ کر بھی خوش ہو رہے ہوں گے کہ میرے دل کی وہ بات جو میں نے کہی بھی نہیں اتنے لوگوں تک اتنی تیزی سے کیسے پہنچ گئی کہ وہ اس روز پوری دھوم سے آتش بازی بھی کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ انھیں نا معلوم وجہوں سے اس کی امید پہلے سے رہی ہوگی ۔ہم نے دیکھا اس دیوالی میں دیئے تو کم نظر آ ئے، پٹاخوں کی آوازیں زیادہ سنائی دیں ۔ ٹھیک نو بجے یہ ڈرامہ شروع ہوا اور اس دوران بالکل دیوالی کی اندھادھند اتشبازی کی طرح دھماکوں کی آواز سے پورا ملک گونج اٹھا ۔ یہ ہے موجودہ حکومت کا کورونا جیسی خطرناک وبا سے لڑنے کا طریقہ۔ تھال پیٹنے سے لیکر گھروں میں دیا جلانے تک خواہ آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے کہ ان حرکتوں کا کورونا وائرس کے علاج یا اس کے تعلق سے لوگوں کو بیدار کرنے کی تدابیر سے کیا تعلق ہے، لیکن ان کی جماعت نے حسب روایت اس لا یعنی عمل کو بھی ان کے ایک بڑے کارنامے کی شکل میں پیش کرکے اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنا شروع کردیا ہے۔، ہم جو چاہیں سمجھیں مگر ان ڈراموں کا تعلق نہ تو کورونا سے ہے اور نہ حزن و ملال کے ماحول میں عوام کو کچھ خوشگوار پل دینے سے، بلکہ ان کے لیے اس کا مطلب بس اپنے سیاسی و تہذیبی فکر کی ترویج ،طاقت کا بھونڈا مظاہرہ اور اپنا پروپیگنڈا ہے۔ گو کہ اس تاناشاہی حکومت میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے پھر بھی ایک سوال کرنے کا جی چاہتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم کورونا سے لڑنے کے لیئے قوم کے سامنے پرائمنسٹر فنڈ کے نام سے عام چندے کی جھولی پھیلائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اپنے من مانی فیصلوں کی وجہ قوم کی اچھی خاصی دولت دیئے اور اور آتشبازی پر برباد کرنے کا سبب بن رہے ہیں؟۔اب پتہ نہیں اس عجیب و غریب طریقے سے کورونا کا استقبال ہوا ہے یا رات کے نو بجے نو منٹ کی دیوالی کی صورت میں اسی سال ابھی چند دنوں پہلے ایودھیا میں بابری مسجد کی زمین پر بنے رام مندر میں رام (مورتی) کے نصب کیئے جانے کا جشن منایا گیا ہے؟ آخر اصلی دیوالی بھی تو ایودھیا میں رام کی واپسی کے ایک جشن کے بطور ہی منائی جاتی ہے؟۔ ذہن تو یہ بھی سوال کر رہا ہے کہ پانچ تاریخ ہی کیوں اور نو بجے اور نو منٹ کے وقت کا تعین کیوں،؟ ۵ تاریخ کی شب کو جو کہ بی جے پی کے یوم تاسیس(6 اپریل) کے پہلے کی شب ہے، نورارتری کی طرح رات نو بجے نو منٹ تک دیے جلانے کا فیصلہ بھی کوئی اتفاق نہیں لگتا، بلکہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب بہت سوچ سمجھ کر ایک خاص تہذیب اور ہندوتو کے مزاج کو سامنے رکھ کر طے کیا گیا تھا یہی ہندوتو کی تہذیبی قوم پرستی ہے، اس کے کسی تہذیبی پہلو یا فیصلے کے خلاف غیر ہندووں کو (جیسا کہ گولوالکر نے لکھا ہے)، چاہے کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے، سوال کرنے یا اعتراض کرنے کی اجازت نہیں ہے۔کسی کی رائے مختلف ہو سکتی ہے لیکن ہم نے تو مودی کی تقریر کے بین السطور سے ہی ان کا اصل مقصد بھانپ لیا تھا کہ اس دن صرف دیا جلا یا جائے گا یا ایک پورا جشن منایا جائے گا، ہمارے ارد گرد آر ایس ایس ۔بی جے پی کی تیاریاں بتا رہی تھیں کہ پانچ اپریل کو کیا ہونے والا ہے ۔ مودی صاحب اگرچہ آپ اور امت شا ار ایس ایس کے سنگھ چالکوں کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے، لیکن اب اہل ملک نے آپ کو بھی اچھی سمجھ لیا ہے اور آپ کے چہرے کی ان دیکھی سلوٹوں سے تو ہم اسی وقت سے واقف ہیں جب آپ گجرات کے وزیر اعلی تھے اور وہاں انسانیت کو شرمسار کر دینے والا گجرات فساد آپ ہی کی حکومت میں، یا زیادہ صحیح لفظوں میں آپ ہی کی نگرانی میں برپا ہوا تھا ۔، مہاراشٹر کے وزیر تعمیرات اور ان کی طرح بہت سے لوگوں نے آپ کی اپیل سننے کے بعد یہ کہا کہ کورونا کے نام پر دیا جلانا ایک حماقت ہے، اب انھیں کیا پتہ کہ آپ کی طرف سے یہ حماقت جان بوجھ کر کی جارہی ہے، یہاں کے سادہ لوح عوام تو یہ بھی نہیں جانتے کہ اس چہرے میں عیاری کی کتنی پرتیں چھپی ہیں جو ایک سو تیس کروڑ جنتا کے اتحاد و یکجہتی کی طاقت سے انھیں ہر روز نئے خواب دکھا کر ان کی بیماری اور بھکمری دور کرنے کی خوش کن باتیں کرتا ہے اور اس کے بعد انھیں قوم پرستی کے نام پر تھالی کی موسیقی اور دیوں کی دیوالی یا فرقہ وارانہ خون کی ہولی میں الجھا کر غائب ہوجاتا ہے۔ یہ اس جماعت کا پرانا انداز ہے کہ مقصد کچھ ہوتا ہے اور یہاں سادہ لوحی کی انتہا کو پہنچے ہوئے عوام سے کہا کچھ جاتا ہے اور یہ بے چارے بڑی آسانی سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ یہ اس فکر کے کھوکھلے پن کی دلیل ہے کہ اس کا زیادہ تر منصوبہ خفیہ ایجنڈے کے طور سے پورا کیا جاتا ہے۔ انھیں گمراہ کرنے کے لیئے کبھی ’پڑوسی دشمنوں‘کے مفروضہ خطرات کا سہارا لیا جاتا ہے تو کبھی تہذیبی وطن پرستی کے ہندوتو نظریات کا۔ یہ منافقانہ روش آر ایس ایس – بی جے پی کے ایک مستقل طریقہ کار کا حصہ ہے جس کی مدد سے وہ اب تک اس ملک میں کتنے ہی فتنے برپا کر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ فرقہ وارانہ منافرت کے خونیں کھیل میں بھی وہ اکثر یہی حربہ استعمال کرتے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ یہ سب راشٹرواد (یعنی وطن پرستی اور قوم پرستی) کے نام پر کرتے ہیں اور جو ان کے تماشون میں شامل نہ ہو یا اس پر معترض ہو تو وہ سیدھے دیش دروہی (وطن دشمن) قرار پاتا ہے۔
زمانہ ایسا بھی آئے گا یہ پتہ تھا کسے
وطن کے نام پر مکاریاں بھی دیکھیں گے
یہ تہذیبی قوم پرستی کیا ہے جس کی وجہ سے ہندوتو طاقتیں اپنے مخالفین کو برابر بلیک میل کرتی ہیں؛اور یہاں کی اقلیتوں کو دیوار سے لگائے رہتی ہیں؟ یہ اتنی سادہ اور بے ضرر بھی نہیں ہے جتنی دیئے اور دیوالی کے واقعے میں ہمیں نظر آرہی ہے۔اس کے کچھ بھیانک روپ بھی ہیں جن سے با خبر رہنا ضروری ہے۔تہذیبی قوم پرستی، دو الفاظ کا مرکب ہے جس کا اپنا ایک مخصوص معنی ہے، ملک ہو یا تھذیب اس پر کسی مخصوص مذہبی گروہ کی اجارہ داری سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ اگر تہذہب کو کسی ملک کی مشترکہ تہذیب کا مفہوم میں لیا جائے اور ’قوم ‘سے وفاداری کو بغیر کسی خارجی آمیزش کے سچی وطن دوستی کے معنی میں لیا جائے اور کسی ملک کی تمام قوموں یا مذہبی اکائیوں کو بلا کسی تفریق و امتیاز کے اپنے دین و تہذیب پر بے خوف عمل کرنے اور ایک قوم بن کر مل جل کر ایک مساوی ماحول میں جینے کی آزادی ہو تو اس میں بظاہر کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن جب یہ دونوں الفاظ باہم ملا دیئے جاتے ہیں تو یہ اصطلاح ایک ایسے خطرناک تصور کی شکل اپنا لیتی ہے جو بنیادی انسانی حقوق ہی نہیں افراد و اقوام کو ملنے والی مذہبی آزادی کے بھی منافی ہے۔ عصر حاضر میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ملک میں ایک قومیت کے ساتھ اس ملک کی وحدت و سالمیت کا حوالہ دے کر مشترکہ تھذیب کی بجائے کسی ایک تھذیب پر ہی زور دیا جائے اور اسے ملک کے دوسرے تمام تہذیبی گروہوں پر جبرا مسلط کیا جائے۔اس کی شروعات عام طور سے چھوٹی چھوٹی علامتی چیزوں سے ہوتی ہے، تیوہاروں کی تقریبات، شہروں ، سرکاری اداروں اور دیگر اشیاء کے ناموں پر مخصوص اکثریتی تھذیب کا لیبل چسپاں کرنا ، بچوں کے نصاب تعلیم میں ایک مخصوص تہذیب کی رعایت سے حکومت کی طرف سے کی جانے والی بنیادی ترمیمات اور تعلیم گاہوں اور دیگر سرکاری اداروں کے کلچرل پروگرام وغیرہ میں اکثریت کے مذہبی کلچر کے عنصر کو قصدا شامل کرنا، یہاں تک کہ کھیل کود اور دیگر سرکاری تقریبات و اعلانات میں بھی اس کی جھلک صاف صاف نظر آنے لگتی ہے، یہ سب اس کی واضح مثال ہوتی ہیں، ان چیزوں میں تہذیبی قوم پرستی کا رجحان ایک خاص سوچ کے تحت دھیرے دھیرے چڑھتا ہے اور اگر اس رجحان پر روک نہ لگے تو اس کا زہریلا انفکشن اولا دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جسے ہم عام "تہذیبی جارحیت” کا مرحلہ کہ سکتے ہیں ، اس کے بعد اگر اسے مزید طاقت و توانائی ملتی ہے تو پھر وہ اپنے تیسرے سب سے خطرناک ترین مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے جو اصلا ’’فسطائی قوم پرستی‘‘ کا مرحلہ ہوتا ہے ۔ آگے چل کر اکثریتی طبقے کے مفادات کے مطابق اور اقلیتوں کے حقوق و مفادات کے بالکل برعکس اقدامات کیئے جاتے ہیں، جیسے دستوری ترمیمات، اقلیتوں کے بنیادی مذہبی ، سماجی و سیاسی حقوق میں چھیڑ چھاڑ اور حکومتی و ادارہ جاتی سطح پر مذہبی تفریق و امتیاز کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ہندوتو کی تہذیبی قوم پرستی ہندوستان کی غیر ہندو اقوام ، بطور خاص یہاں کی سب سے بڑی اقلیت- مسلمانوں کے لیئے آج تقریبا یہی روپ لے چکی ہے۔
ہندوستان میں یہ تہذیبی قوم پرستی ہندو قوم پرستی کی شکل میں 1925 میں نمودار ہوئی جب یہاں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کی تشکیل ہوئی۔ یہ ہندوتو تہذیبی قوم پرستی پہلے دن سے تہذیبی جارحیت یا جارح قوم پرستی کی علمبردار ہے۔ اگر کسی ملک میں اس تہذیبی جارحیت کو بلا روک ٹوک برابر برگ و بار لانے کا موقع ملتا رہے تو خواہ نظام حکومت جمہوری ہی کیوں نہ ہو،اس پر فسطائیت کا سایہ روز بروز دراز ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ یہ رجحان اقلیتوں کے قتل عام اور ان کی نسل کشی پر بہت جلد منتج ہوتا ہے، جیسا کہ ہم نے کہا یہی سرطانی مرض کا تیسرا مرحلہ ہے جسے آج کی زبان میں فسطائیت کہتے ہیں اس فسطائی فکر و نظام کے بھی دو مرحلے ہیں، پہلے مرحلے میں اقلیتوں پر سرکاری و غیر سرکاری سطح پر ہر طرح کی ظلم و زیادتی کے سیلاب کا دروازہ کھلتا ہے، اور دوسرے مرحلے میں نسل کشی کے ایجنڈے پر کام ہوتا ہے، جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جارح ہندو قوم پرستی کے تمام مرحلہ وار ایجنڈے اور اہداف اس کے بنیادی لٹریچر میں بہت پہلے سے درج ہیں لیکن حیرت ہے دوسرے مذہبی فرقے افسوس ناک حد تک اس طرف سے آنکھیں بند کیے رہے اور آج وہ زہریلی ناگن کی طرح پھن کاڑھے سامنے کھڑی ہے۔تہذیبی قوم پرستی کے بطن سے ہی تہذیبی جارحیت کی پیدائش ہوتی ہے۔ یہ تہذیبی جارحیت ایک فرقہ وارانہ مذہبی جنون کی پیداوار ہوتی ہے جس کی ابتدا اکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں ذہنوں میں اقلیتوں کا خوف بٹھا کر حاصل کیا جاتا ہے اور اس تہذیبی قوم پرستی کی محرک قوتیں ان سے اپنا اصل ایجنڈا اس وقت تک مخفی رکھتی ہیں جب تک ان کے دل و دماغ میں نصاب تعلیم، میڈیا ، بچوں کی منفی تربیت اور دیگر کلچرل ذرائع سے دوسری قوموں کے خلاف نفرت کی بنیادیں پوری طرح پختہ نہیں ہو جاتیں یا جب تک انھیں سیاسی یا فوجی طاقت نہیں حاصل ہوجاتی۔ اس مرحلے میں بھی تہذیبی قوم پرستی تہذیبی جارحیت یا جارحانہ قوم پرستی کی راہ پر چل پڑتی ہے لیکن ابھی زیادہ زور نظریاتی انتہاپسندی کی تربیت اور ماحول سازی پر ہوتا ہے، اس مرحلے میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے والے مسائل ان کی سب سے زیادہ مدد کرتے ہیں۔یکساں سول کوڈ اور بابری مسجد جیسے مسائل کو ہمیں اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، جب یہ مسائل کی آگ ابھی سلگنا شروع ہوئی تھی اس وقت ہندوتو کی تہذیبی جارحیت کی ابتدا تھی، وہ برسوں تک ان سے غذا حاصل کرتی رہی اور آج ان سے غذا حاصل کرکے وہ پہلےسے کہیں زیادہ طاقت و قوت کے ساتھ ملک پر مسلط ہے۔
یہ تہذیبی قومیت ابتدائی مرحلے میں جارح ہونے کے باوجود اپنا فسطائی روپ صحیح وقت کے لیئے چھپا کر رکھتی ہے ، اس مرحلے میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اتنا کھلے عام اور اتنی بے شرمی سے نہیں انجام پاتے جو حکومت و سیاست پر فسطائیت کے غلبے کے بعد ہمیں نظر آتا ہے، پہلے یہ جارحیت زیادہ تر جان و مال کے نقصانات تک محدود رہتی ہے جب کہ بعد میں نفرت پرور عناصر بالکل فسطائی طریقے سے ایک خاص قوم یا نسل کے مذہبی شعائر اور ان کی تہذیبی علامتوں کو تیزی سے نشانہ بنانا شروع کرتی ہیں اور اپنے علاوہ کسی اور کا مذہبی وجود برداشت کرنا ان کے لیئے ناممکن ہوجاتا ہے۔ 6 دسمبر 1992 میں بابری کی شہادت، مسجدوں اور قبرستانوں کی تعمیر میں پڑنے والی رکاوٹیں اور مدارس اور مسلمانوں کی یونیورسٹیوں پر ہونے والے حالیہ حملے اور مظفر نگر اور دلی جیسے مسلم کش فسادات میں مسجدوں پر حملے اور قرآن کریم کی بے حرمتی کے واقعات اس کی تازہ مثالیں ہیں جس کی ویڈیوز پوری دنیا میں بطور ثبوت وائرل ہو چکی ہیں۔ آر ایس ایس اور ہندوتو کی دوسری تنظیموں کی مسلسل تگ و دو سے ہندوستان ستر سالوں میں اسی تیسرے مرحلے کی طرف بڑھتے بڑھتے اب اس کے بہت قریب آ چکا ہے۔ آر ایس ایس کے مفکرین اور بعض غیر سنگھی تجزیہ نگار وی ڈی ساور کر اور گول والکر کے مسلم مخالف نظریات کو ایسی تہذیبی قوم پرستی کے طور سے پیش کرتے ہیں جس میں فسطائیت نہیں بلکہ صرف ’’ہندو قوم پرستی‘‘ کے اجزاء پائے جاتے ہیں، تاہم اہل نظر جانتے ہیں کہ ہندوتو کے ان بڑے داعیوں کی کتابوں کے ابتدائی اوراق میں ہی ہندوتو تہذیبی جارحیت اور ہندوتو فسطائیت کی جڑیں مضبوط کرنے والے نظریات کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں اور ان نظریات میں ہندوستان میں اپنی تہذیبی شناخت کے ساتھ اقلیتوں کو برداشت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔ وی ڈی سارورکر جو آر ایس ایس کے بنیادی نظریہ سازوں میں سے ہے، نے اپنی کتاب ’’مبادئ ہندوتو‘‘ ( Essentials of Hindutva) میں جس کا خلاصہ اس نے اپنے دوسرے پمفلٹ ’’ ہندوتو۔ ہندو کیا ہے؟‘‘میں ان نکات پر بہت کھل کر اپنی رائے رکھی ہے۔ اس کا کہنا ہے ہندوستان ایک کونے سے دوسرے کونے تک بغیر کسی ذات و مذہب کی تفریق کے ہندو ہے اور جو یہاں کے ہیں وہ سب ہندو ہیں، البتہ مکہ اور روم کو مقدس مقامات ماننے والوں یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیئے اس ہندو سرزمین میں کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی مذہبی وابستگیوں کی وجہ سےکبھی سچے ہندو نہیں بن سکتے، ساورکر کے نزدیک اس کی منطقی دلیل یہ ہے کہ مسلمانوں کی مقدس ترین جگہ مکہ ( حرم کعبہ) ہے اور جب بھی بات ہندوستان اور مکہ میں سے کسی ایک کے انتخاب کی آئے گی تو اس کے اپنے الفاظ میں’’مسلمان فطری طور سے مکہ کو ترجیح دیں گے‘‘ اور ہندوستانی قومیت ان کے لیئے ثانوی ترجیح ہو گی، جب کہ اس کی اپنی تعریف کے مطابق سندھ ندی سے بحر ہند تک ہندستان ’’ہندو‘‘ ہے اور یہ صرف ان کا ہے جو ہندو ہیں اور جو اسے اپنا ’’آبائی وطن‘‘ (Fatherland) اور ’’ارض مقدس‘‘( Holi land) دونوں مانتے ہوں، ان ہی کو وہ ہندو کہتا ہے۔ (Hindutua-What is Hindu?:4-5) )۔
آر ایس ایس اور ہندوتو کے ایک دوسرے بڑے وکیل گرو گولوالکر نے ہندوتو کے اس مقصد کو مزید کھول کر بیان کردیا ہے اور سارا تکلف بر طرف کر کے یہ صاف کردیا ہے کہ ہندوتو کے بھارت میں جسے بھی رہنا ہے ہندو بن کر رہناہوگا۔ وہ لکھتا ہے’’ہندوستان میں باہری لوگوں کے لیئے دو ہی راستے ہیں ، یا تو وہ یہاں کی مین اسٹریم قومیت یعنی ہندو قوم میں ضم ہوجائیں، ان کی زبان اور کلچر اپنائیں۔۔ ان کے تابع بن کر رہیں۔۔ یا پھر اصل قوم یعنی ہندووں- کی خواہش پر سہولت سے یہ ملک چھوڑ دیں۔ (We or Our Nationhood Defined: 52) ‘‘اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ آر ایس ایس انھیں افکار پر بغیر کسی ردوبدل کے تقریبا 95 سالوں سے مسلسل کام کرتی چلی آرہی ہے اور ہندو قوم پرستی کے فریب سے سادہ لوح ہندووں اور نوجوان ذہنوں کو مسحور کرکے اور ہندوتو کو معیار سیاست بنا کر آج اپنی منزل یعنی تہذیبی جارحیت کے تیسرے مرحلے کی تکمیل میں مصروف ہے۔ آج ملک میں اس تہذیبی قوم پرستی اور تہذیبی جارحیت کی مثالیں ہر طرف نظر آنے لگی ہیں۔ اسی تہذیبی جارحیت کا وہ تیسرا مرحلہ جارحانہ فسطائیت ہے جس میں ایک قوم کے سوا کسی اور قوم کا وجود بھی ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔
(و يبقى وجه ربک ذو الجلال و الاكرام)۔۔۔
(جارحانہ فسطائیت اور اس کا تفصیلی تجزیہ اگلے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)

ان تماشوں کو سیدھے تہذیبی قوم پرستی سےجوڑ کر دیکھا جائے تو بات زیادہ آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے، جب تہذیبی قوم پرستی سرکاری ایجنڈے کا حصہ بن جاتی ہے تو اسے جنگ اور امن تمام حالتوں میں ملک کے سبھی مذہبی اقوام پر قصدا مسلط کیا جانے لگتا ہے۔