گوسابارا گاؤں ميں گجراتماڈل کي بھرپورعکاسي

مسلم ماہي گير برادري اجتماعي موت کي درخواست لے کر عدالت سے رجوع

ايم اين ايس قادري

جماعت اسلامي ہند کے وفد کا دورہ۔ زميني صورت حال سے آگہي۔ مناسب نمائندگي اور مدد کا تيقن
تعزیرات ہند کے تحت خود کشی اور خودکشی کی کوششیں غیر قانونی ہیں۔اوراسلام بھی خودکشی سے منع کرتا ہے۔
احمد آباد: جماعت اسلامي ہند کے ايک اعليٰ اختياري وفد نے 5 مئي کو گجرات ہائي کورٹ ميں پوربندر کے ايک گاؤں گوسابارا کي مسلم مچھيرا برادري کي جانب سے مرضي کي موت (Euthanasia) کے ليے درخواست دائر کرنے کے بعد ان ماہي گيروں کي حالت زار کا برسرموقع جائزہ لينے کےليے گاؤں کا دورہ کيا۔ وفد ميں سيکرٹري اقبال مرزا، ڈبليو پي آئي کے اکرام بيگ اور جوناگڑھ کے الطاف شيخ شامل تھے۔ راجکوٹ سے 17مئي (2022) کو صبح سويرے پوربندر کے ليے روانہ ہونے والے اس وفد کے ساتھ سابق ايم ايل اے راجکوٹ و دلت ليڈر سدھارتھ پرمار اور ان کي ٹيم بھي شامل ہوئي۔
اللہ رکھا بھائي تھمار عرف لاکھا بھائي کي زير قيادت گوسابارا گاوں کے مسلمان ماہي گيروں کے ايک گروپ نے پور بندر ميں ڈسٹرکٹ کورٹ کامپلکس پر وفد کا خيرمقدم کيا اور ايک نوجوان و تجربہ کار وکيل اقبال بھائي سالوت کے چيمبر ميں ايک ميٹنگ کي۔
لاکھا بھائي نے جو ايک جواں، ذہين و فطين شخص ہيں، وفد کو مسلم مچھيرا برادري کي ساري کہاني سنائي۔
گوسابارا گاوں پوربندر سے تقريباً 10 کلو ميٹر کي دور پر واقع ہے جو 200 افراد پر مشتمل تقريباً 100مسلم ماہي گيروں کا مسکن ہے ان لوگوں کو گذشتہ دس برسوں سے حکومت کي طرف سے ہراساں کيا جارہا ہے۔ انہيں ماہي گيري کے ليے سمندر ميں جانے کي اجازت نہيں دي جاتي۔ انہيں مختلف بہانوں سے روکا جارہا ہے۔
دوسري طرف اگر وہ اپني خود کي کشتي لاتے ہيں تو کھاروا زات کے لوگوں سے انہيں ايک کشمکش کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور يہي وجہ ہے جس کي بنا پر مرد گزر بسر کے ليے ديگر چھوٹے موٹے کام کرنے يا درياوں اور جھيلوں ميں ماہي گيري کرنے پر مجبور ہيں اور اس کے ليے انہيں بسا اوقات مہينوں اپنے گاوں سے دور رہنا پڑتا ہے۔ اس صورت حال نے خواتين اور بچوں کي زندگيوں کو جوکھم ميں ڈال ديا ہے۔
ان حالات ميں حکومت کي عدم توجہي کے باعث وہ اپني مرضي سے اجتماعي موت کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوئے ہيں۔ لاکھا بھائي نے تفصيل سے يہ ساري معلومات ديں اور ہميں تمام دستاويزات اور مراسلتيں دکھائيں۔ جو باتيں حيرت انگيز تھيں ان ميں سے ايک محکمہ سمکيات کے اسسٹنٹ ڈائرکٹرسے مچھيروں کي نمائندگي پر ديا گيا ايک سرکاري جواب تھا۔ مذکورہ اہلکار نے حيرت انگيز طور پر لکھا کہ بي جے پي کا ايک ليڈر اور ماہي گيروں کا ايک گروپ چاہتا ہے کہ انہيں ماہي گيري کي اجازت نہ دي جائے اور ان کي نمائندگي کي بنياد پرہي انہيں مچھلياں پکڑنے کے ليے سمندر کي جانے کي اجازت نہيں ہے۔ سوال يہ ہے کہ محض کسي سياسي پارٹي کي نمائندگي پر کسي معقول وجہ يا قاعدے کے بغير کسي کو بھي اس کي معاش سے محروم کيسے کيا جاسکتا ہے؟۔ سياسي پارٹي نے اپنے بيان ميں کہا ہے کہ اگر ان لوگوں کو مچھلياں پکڑنے کے ليے سمندر ميں جانے ديا گيا تو اس کے نتيجہ ميں تصادم ہوگا جس سے علاقہ ميں امن وامان کو خطرہ لاحق ہوگا۔ کيا اس طرح کي بات کہنا درست ہے؟ جبکہگزشتہ دس برسوں يا اس سے زائد عرصے کے دوران يہاں کوئي جھگڑا نہيں ہوا اور ويسے بھي نزاع پيدا ہو تو يہ قانون اور نظم و ضبط (لا اينڈ آرڈر) کا معاملہ ہوگا۔
قريبي گاوں کے ہندو بھائيوں نے ان افراد کو اپنا مکمل تعاون پيش کيا اور ان کي سرگرميوں کي ستائش کي۔
اقبال مرزانے متصلاً واقع گاوں نکڈا کے سرپنچ لالہ بھائي سے ٹيلي فون پر بات بھي کي تھي۔ لالا بھائي ذات سے برہمن ہيں اور وہ ان مچھيرا خاندانوں کي خدمات و سرگرميوں سے بہت متاثر ہوئے اور مکمل تعاون دينے کا وعدہ بھي کيا۔
آج سے تقريباً 18سال پہلے اس علاقہ ميں آر ڈي ايکس ايک نامعلوم کشتي کے ذريعہ لانے کا معاملہ سامنے آيا تھا۔ وہ تمام لوگ جنہيں گرفتار کيا گيا تھا، بري کرديے گئے ہيں ليکن حکام اس واقعہ کي وجہ سے ہنوز اس علاقہ کو حساس تصور کرتے ہيں اور لامتناہي ہراساني کا سلسلہ جاري رکھے ہوئے ہيں۔
گاؤں ميں کوئي مسجد، اسکول يا ہسپتال نہيں ہے۔ اچھے ذہين اور پرجوش بچے ہيں جن ميں سے صرف 15-20% بچے پڑوس کے گاؤں ميں واقع اسکول کو جاتے ہيں۔ زيادہ تر وقت مرد کام کے ليے باہر جاتے ہيں اور بچوں پر خاطر خواہ توجہ نہيں دي جاتي۔ لوگوں کے پاس ماہي گيري کي پانچ چھ بڑي کشتياں ہيں ليکن اجازت نہ ہونے کي وجہ سے يہ کشتياں ناقابل استعمال ہو چکي ہيں۔
وفد نے وہاں ظہر اور عصر کي نمازيں ادا کيں۔ سيکرٹري اقبال مرزانے تمام تفصيلات حاصل کيں اور ضروري ہدايات ديں۔انھوں نے يقين دلايا کہ ايک وفد کمشنر اور سيکرٹري کے پاس جا کر ان کے معاملے ميں نمائندگي کرے گا اور اس دوران قانوني جنگ بھي جاري رہے گي۔ مقامي مسئلے کے حل کے ليے فوري طور پر ٹيم بھيجي جائے گي۔
شام کو وفد راجکوٹ واپس لوٹ آيا۔جماعت کے وفد کو يہ دورہ اس ليے کرنا پڑا کيونکہ ماہي گيروں کي مسلم کميونٹي کے سينکڑوں ارکان ہندوستاني عدالت سے مرضي کي موت کي منظوري چاہتے ہيں کيونکہ ان کا کہنا ہے کہ انتظامي رکاوٹوں کي وجہ سے وہ روزي کمانے کے قابل نہيں ہيں۔ گوسابارا کے مسلمان ماہي گيروں کو روزي روٹي کمانے سے روک ديا گيا ہے اور اب انھوں نے عدالت سے مرنے کا حق مانگا ہے۔
اللہ رکھا بھائي تھمارنے جو پوربندر ميں گوسابارا کے تري والے علاقوں ميں 100 مسلم ماہي گير خاندانوں کي نمائندگي کرتے ہيں، 5؍مئي (2022) کو گجرات ہائي کورٹ ميں ايک عرضي دائر کي تھي، جس ميں 600 لوگوں کے ليے رحم کي موت کي درخواست کي گئي ہے۔ تھمار کا تعلق پوربندر کے گوسابارا ويٹ لينڈز سے ہے اور انھوں نے ماہي گير برادري کي بگڑتي ہوئي معاشي صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے گوسابارہ مسلم فشرمين سوسائٹي کي جانب سے يہ درخواست دائر کي ہے جس ميں الزام لگايا گيا ہے کہ ’’حکومت ايک خاص کميونٹي سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سہولتيں فراہم کرنے سے گريز کرتي ہے۔‘‘
ماہي گيروں کي کميونٹي نے کہا ہے کہ وہ ’’سياسي ظلم و ستم‘‘ کا سامنا کر رہے ہيں، لہذا ’’اپني زندگي ختم کرنے کي اجازت طلب کر رہے ہيں، وہ مقامي سطح سے گورنر تک متعدد عرضداشتيں دے چکے ہيں جو زير التواء ہيں۔‘‘
گوسابارا مسلم ماہي گيربرادري واحد کميونٹي ہے جسے 2016 کے بعد سے وزير اعظم نريندر مودي کي آبائي رياست گجرات کے پوربندر ميں ماہي گيري کے ليے سمندر کشتيوں کوچلانے کي اجازت نہيں ہے۔ مقامي ڈسٹرکٹ مجسٹريٹ کے مطابق، يہ مسئلہ ’’ايک تکنيکي ہے، اس کا مذہب سے تعلق نہيں ہے‘‘ اور محکمہ افزائش سمکيات کي طرف سے اس پر توجہ دي جائے گي۔‘‘
600 رکني برادري نے جو گذشتہ 100 برسوں سے مغربي رياست گجرات کے ضلع پوربندر ميں رہ رہي ہے، پچھلے دنوں ’مرضي سے موت‘ کي درخواست دائر کي تھي۔ ان کا گاؤں، گوسابارہ، اس علاقے کي واحد مسلم اکثريتي بستي ہے، ان کا کہنا ہے کہ 2016 سے اس علاقے ميں ماہي گيري کي کشتيوں کو کھينے کي اجازت نہيں ہے۔
تعزيرات ہند کے تحت خود کشي اور خودکشي کي کوششيں غير قانوني ہيں۔اوراسلام بھي خودکشي سے منع کرتا ہے۔
ماہي گيروں کا کہنا ہے کہ اگر وہ اس رياست ميں خود کو برقرار نہيں رکھ پاتے جو بھارتي وزير اعظم نريندر مودي کا گھر ہے اور ان کي ہندو قوم پرست بھارتيہ جنتا پارٹي کا گڑھ ہے تو وہ زندہ نہيں رہ سکتے۔گوسابارا مسلم فشرمين سوسائٹي کے صدر اللہ رکھا اسماعيل بھائي تھمارنے کہا2016: سے ہميں امتيازي سلوک کا سامنا ہے۔ انھوں نے ہم سے گاؤں خالي کرنے اور کسي دوسرے ضلع ميں جانے کے ليے کہا ہے۔اسماعيل بھائي کے حوالے سےعرب نيوز نے يہ بات بتائي۔
تھمار نے کہا’’ ہمارے پاس کشتيوں اور ماہي گيري کا لائسنس ہے۔ ہم نے ضلع مجسٹريٹ، رياستي وزير اعليٰ اور ديگر حکام سے درخواست کي، ليکن کسي نے بھي ہماري درخواست کا جواب نہيں ديا، چناں چہ مايوسي کے عالم ميں ہم نے ہائي کورٹ ميں عرضي دائر کي ہے کہ ہم اس طرح کي زندگي نہيں گزار سکتے۔‘‘
انھوں نے سوال کيا، گوسابارا کے پڑوسي ہندو برادريوں کے پاس ان کے گاؤں جيسا ہي ماہي گيري کا لائسنس ہے ليکن،ہماري طرح ان پر کوئي روک ٹوک نہيں ہے وہ اپني کشتياں چلاسکتے ہيں۔ ہميں ايک جيسے حقوق اور سہولتيں کيوں نہيں ملني چاہئيں؟۔
توقع ہے کہ گجرات ہائي کورٹ جون کے پہلے ہفتے ميں اس معاملے پر سماعت کرے گي۔ گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد ميں ايک وکيل دھرميش گرجر، جنھوں نے ماہي گيروں کي طرف سے عدالت ميں درخواست دائر کي ہے، کہا کہ اس کيس نے ’’رياستي مشينري کي ناکامي‘‘ ظاہر کي ہے۔ميں مسلم ماہي گيروں کي حالت زار سے متاثر ہوا ہوں۔ يہ لوگ ناخواندہ اور بہت غريب ہيں اور ان کے پاس ہائي کورٹ تک پہنچنے کي سکت نہيں ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ماہي گيروں کو 2016 سے پہلے گاؤں ميں اپني کشتياں چلانے کي اجازت تھي، ليکن پھر اجازت دينے سے انکار کر ديا گيا۔ جب انھوں نے 8 کلوميٹر دور دوسرے گاؤں ميں گودي لگانے کي اجازت مانگي تو اسے بھي نامنظور کرديا گيا جس کے نتيجے ميں، ماہي گيروں کو تکليف ہو رہي ہے، ان کي آمدني ختم ہو گئي ہے۔ايسے ميں وہ کيسے زندہ رہ سکتے ہيں؟ اس ليے انھوں نے عدالت سے رجوع کياہے۔
گجرمزيد کہتے ہيں ’’ وہ مردہ لکڑي کي طرح ہيں، اور معقول معاش کے بغير، ان کي اجتماعي رحم کي موت بہتر ہے۔ اور انھوں نے اپني مرضي سے موت کا مطالبہ کيا ہے۔‘‘
گرجر نے ميڈيا کو بتايا’’ گوسابارہ بندرگاہ پر 2016 سے کشتيوں کے لنگر انداز ہونے پر پابندي عائد ہے۔ تھماراور ان کي برادري کو لائسنس رکھنے کے باوجود انہيں ان کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔‘‘
تھمار نے يہ بھي الزام لگايا ہے کہ حکام مذہب کي بنياد پر ان کے خاندانوں کو ’’ہراساں‘‘ کر رہے ہيں۔۔ ہندو ماہي گيروں کو تمام سہولتيں باقاعدگي سے دي جاتي ہيں۔‘‘ درخواست ميں کہا گيا ہے کہ کميونٹي ہميشہ ’’قوم کے ساتھ وفادار‘‘ رہي ہے اور کبھي بھي اسمگلنگ جيسي ’’ملک دشمن سرگرميوں‘‘ ميں ملوث نہيں رہي۔ کميونٹي کا کہنا ہے اس نے درحقيقت پاکستان اور دوسروں کي اسپانسر اس طرح کي سرگرميوں کے بارے ميں اکثر سيکيورٹي ايجنسيوں کو معلومات فراہم کي ہيں۔
درخواست کا جو کليدي نکتہ ہے وہ يوں ہے ’’۔۔۔ بصورت ديگر معزز جج صاحب ! آپ دوسرا کوئي زيادہ موزوں حکم يا فرمان جاري کريں‘ متعلقہ حکام کو يہ ہدايت ديتے ہوئے کہ درخواست گزار اور ان کي برادري کے 600 افراد کي اجتماعي مرضي کي موت کا انتظام کيا جائے تاکہ وہ خوشي خوشي رضامندي کے ساتھ حسب خواہش اپني زندگيوں کا خاتمہ کريں‘‘۔
تھمار نے گورنر، چيف منسٹر اور پور بندر کے کلکٹر کے پاس بھي ايسي ہي عرضداشت بھيجي ہے۔ تھمار گجرات ہائيکورٹ سے رجوع ہونے پر اس ليے مجبور ہوئے ہيں کيونکہ حکومت گجرات سے بار بار نمائندگيوں کے باوجود تاحال اس مسئلہ پر کوئي قدم نہيں اٹھايا گيا۔
(بشکريہ: انڈيا ٹومارو)
***

 

***

 ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ اگر وہ اس ریاست میں خود کو برقرار نہیں رکھ پاتے جو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا گھر ہے اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کا گڑھ ہے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔گوسابارا مسلم فشرمین سوسائٹی کے صدر اللہ رکھا اسماعیل بھائی تھیمر نے کہا2016: سے ہمیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ انھوں نے ہم سے گاؤں خالی کرنے اور کسی دوسرے ضلع میں جانے کے لیے کہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 جون تا 11 جون  2022