’گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی‘
مندیپ پنیا کی گرفتاری و رہائی اورصحافیوں کی بڑھتی ذمہ داری
حسن آزاد، حیدرآباد
منور فاروقی کی رہائی، صدیق کپن اور نودیپ جیل میں ۔شرجیل عثمانی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
ملک کا صرف سیاسی منظر نامہ تبدیل نہیں ہو رہا ہے بلکہ آہستہ آہستہ صحافت کی دنیا میں بھی خاصی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ۔ ایک طرف حکومت کے پروردہ چند مین اسٹریم میڈیا جھوٹ اور نفرت و عداوت کے بیج بو رہے ہیں تو دوسری طرف بے باک اور آزادانہ صحافت بھی وجود میں آرہی ہے اور حکومت کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معاشرے میں حق گوئی و بے باکی کی مثال پیش کر رہی ہے۔ حالانکہ ایسے صحافیوں کو حکومت کے ظلم و ستم کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کی واضح مثال ڈھائی مہینے سے زائد عرصے سے چل رہے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج میں دیکھنے کو ملی۔ جراءت مند صحافی مندیپ پنیا کو رپورٹنگ کے دوران دلی پولیس نے گرفتار کیا۔ دلی پولیس کے مطابق مندیپ پنیا کو پولیس اہلکاروں کے ساتھ بد سلوکی کرنے اور سنگھو بارڈر پر پولیس کو فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن شاید معاملہ تو کچھ اور ہی تھا۔ مندیپ پنیا حکومت کے کارندوں کی گھناؤنی حرکتوں کو مستقل واشگاف کر رہے تھے۔ یہ وہی مندیپ پنیا تھے جنہوں نے سنگھو بارڈر پر کسانوں کے خلاف تشدد کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کا بی جے پی سے تعلق ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ ورنہ چند نیوز چینلوں پر دو دن سے یہی خبریں چل رہی تھیں کہ مقامی لوگ کسانوں کے خلاف ہو گئے ہیں۔ یہاں ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ حال ہی میں کچھ لوگوں نے سنگھو بارڈر پر احتجاج کرتے ہوئے کسانوں پر پتھراؤ کیا تھا اور مبینہ طور پر مقامی ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ یہ لوگ کسانوں کو سنگھو بارڈر سے واپس جانے کے لئے کہہ رہے تھے۔ اس کے بعد کسان اور ہنگامہ کرنے والے لوگوں کا آپس میں تصادم ہو گیا جس میں پتھراؤ اور جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی بھی ہوگئے۔
مندیپ پنیا کے مطابق ان کے ساتھ دلی پولیس نے مارپیٹ کی، موبائل چھینا، فون میں شوٹ کیے گیے ویڈیوز ڈلیٹ کیے اور ان کے کپڑے اتار کر پنکھا چالو کر دیا تاکہ وہ دلی کی شدید سردی میں ٹھٹھر کر مر جائیں۔ اس طرح مندیپ پنیا کو خوفزہ کرنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن مندیپ پنیا ڈرے نہیں بلکہ ظلم کےخلاف ڈٹ گئے۔ دلی پولیس نے مندیپ پنیا کو ان کے وکیل اور گھر والوں سے بھی بات نہیں کرنے دی۔ وکیل کے بغیر ہی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ گویا پولیس تمام قاعدہ وقانون کو طاق پر رکھ کر کارروائی کر رہی تھی۔ مندیپ پنیا کو تہاڑ جیل بھیجا گیا وہاں بھی انہوں نے اپنے صحافتی کردار کو بحسن وخوبی نبھایا۔ کسانوں کے درد کو قلم بند کیا۔ کاغذ نہ ہونے کی وجہ انہوں نے اپنے بدن پر ہی کسانوں کے حال احوال تحریر کیے۔ جیل سے رہائی کے بعد مندیپ پنیا نے کہا کہ ان سے زیادہ مظلوم تو کسان ہیں۔ وہیں انہوں نے مہینوں سے قید صحافی صدیق کپن کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ مندیپ پنیا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایسے موقعوں پر ہرگز پولیس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مزید طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرنا ہی صحافیوں کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔
واضح ہو کہ صدیق کپن 5 اکتوبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ ہاتھرس عصمت دری و قتل معاملے کی رپورٹنگ کے دوران انہیں دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (UAPA) کے تحت یو پی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ صدیق کپن ملیالم نیوز پورٹل http://azhimukam.com سے وابستہ ہیں۔ صدیق کپن نے سپریم کورٹ کی اجازت کے بعد 22 جنوری کو اپنی بیمار والدہ سے ویڈیو کال کے ذریعے بات کی تھی لیکن وہ صرف والدہ کی صورت ہی دیکھ سکے کیوں کہ ان کی والدہ بے ہوشی کی حالت میں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے محض پانچ دن کی عبوری ضمانت کی اپیل کی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحافت کا پیشہ ہمیشہ سے ہی پر خطر رہا ہے لیکن 2014 کے بعد سے صحافیوں کو حکومت کے خلاف آواز اٹھانا کچھ زیادہ ہی مہنگا پڑتا جا رہا ہے۔ مشہور صحافی گیتا سیشو (Geeta Seshu) کی تحقیق کے مطابق 2010 سے 2020 تک ملک میں 154 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس رہورٹ کے مطابق گزشتہ سالوں میں سب سے زیادہ 2020 میں صحافیوں کو قیدو بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ یعنی محض ایک سال میں67 جرنلسٹوں کو گرفتار کیا گیا۔ تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ صحافیوں پر قاتلانہ حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2019 تک صحافیوں پر 198 حملوں کے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ صرف 2019 میں 36 حملوں کے واقعات پیش آئے۔ جبکہ صحافیوں کی اموات پر ملک میں سزا کی شرح انتہائی مایوس کن ہے۔ 2010 کے بعد سے اب تک 30 سے زیادہ صحافی ہلاک ہو چکے ہیں لیکن صرف تین معاملوں میں ہی سزا کا تعین ہوا ہے۔
اب بات صرف صحافیوں کی نہیں ہے بلکہ طنزو مزاح کے فن کار بھی تعصب نظری کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے رکن اسمبلی مالنی لکشمن سنگھ گوڑ کے بیٹے ایکلویا سنگھ گوڑ کی شکایت پر یکم جنوری کو منور فاروقی کو گرفتار کیا گیا تھا اس کے بعد سے ہی وہ اندور کی جیل میں بند تھے۔ گوڑ نے منور فاروقی اور چار دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔ بی جے پی رکن اسمبلی کے بیٹے ایکلویہ نے پہلے تو منور فاروقی کی پٹائی کی اور پھر پولیس میں شکایت درج کرائی۔ حیرت ہے کہ پولس نے منور فاروقی سمیت 5 لوگوں کو گرفتار کر لیا اور پٹائی کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ پولیس نے تین دنون بعد وضاحت بھی دی تھی کہ منور فاروقی کے پروگرام میں کوئی ایسی بات نہیں پائی گئی جس سے کسی دھرم اور مذہب کی توہین ہوئی ہو۔ منور فاروقی کو چھ فروری کو دیر رات گئے اندور کی سنٹرل جیل سے رہا کیا گیا۔ نچلی عدالتوں سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد انہیں سپریم کورٹ نے پانچ فروری کو عبوری ضمانت دے دی تھی۔ یکم جنوری کو اندور میں منور فاروقی کے خلاف دائر ایف آئی آر میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگایا گیا تھا۔
سماجی کارکنوں اور اپنے حق میں آواز اٹھانے والوں کے ساتھ بھی حکومت کا رویہ اچھا نہیں ہے۔ یہ زرعی قوانین اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے جگ ظاہر ہو گیا ہے۔ مظاہرین کو الگ الگ نظروں سے دیکھا جانے لگا ہے۔ طرح طرح کے الزامات کے تحت جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ بارہ جنوری 2021 کو مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑنے والی دلت خاتون نودیپ کور کو گرفتار کیا گیا۔ کسانوں کے ساتھ سنگھو بارڈر پر مزدور ادھیکار سنگٹھن (MAS) کے تحت (KIA) کُنڈلی انڈیسٹریل ایریا میں کام کرنے والے مزدوروں کے استحصال اور تنخواہ تاخیر سے ملنے کے علاوہ مزدوروں سے جڑے متعدد مسائل کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس نے ہریانہ کے سونی پت سے نودیپ کور کو گرفتار کیا۔ نودیپ کور خود (MAS) کی رکن ہیں۔ یہ احتجاج دسمبر میں شروع ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق احتجاج پر تشدد ہوا تھا جس کے الزام میں نودیپ کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے ان کے خلاف دو ایف آئی آر درج کیں۔ سیکشن 307،384 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور اب بھی نودیپ کور جیل میں ہی ہیں۔ اہل خانہ نے پولیس پر نودیپ کور کے ساتھ جنسی ہراسانی کا الزام لگایا۔
ظاہر ہے ایسے وقت میں شرجیل امام یا شرجیل عثمانی جیسے سماجی کارکنوں کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے حب الوطنی اور قوم پرستی کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شرجیل امام نے صرف احتجاج کرنے کا مؤثر طریقہ بتایا تھا جس کی سزا وہ آج بھی کاٹ رہے ہیں۔ حال ہی میں جیل سے رہا ہوئے شرجیل عثمانی پھر بھگوا ٹولہ اور بی جے پی کے نشانے پر ہیں۔ دراصل شرجیل عثمانی 30 جنوری کو پونے کے گنیش کلا کریڑا منچ میں منعقدہ یلغار پریشد کے پروگرام میں شریک ہوئے تھے۔ اس کے فوراً بعد ہی ان کا ہندو برادری کے خلاف مبینہ طور پر قابل اعتراض الفاظ استعمال کرنے کا ایک ویڈیو وائرل ہوا اور جس کے بعد ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ بی جے پی کے ایک لیڈر کی شکایت کے بعد شرجیل عثمانی کے خلاف پونے میں معاملہ درج ہوا۔ شرجیل عثمانی کے چھبیس منٹ کی تقریر سننے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و بربریت کے خلاف وہ اعلان جنگ کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر ایک شعر بھی پڑھا تھا
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
اس سے پہلے انہوں نے ملک کی عدلیہ، پولیس اور پارلیمنٹ میں بیٹھے ارکان پارلیمان کے خلاف عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا تھا۔ انہوں نے دلتوں اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی دعوت دی تھی۔ لیکن انہوں نے سب سے قابل اعتراض بات یہ کہی تھی کہ ہندو سماج کو سڑا ہوا کہہ دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب اداکارہ کنگنا رناوت ممبئی کو پاک مقبوضہ کشمیر (POK) سے تشبیہ دیتی ہیں تو نام نہاد بھگوا محب وطن کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ جب پُشپیندر کُلشریستھا جیسے لوگ کھلے عام سپریم کورٹ کو خطرناک اور سیاسی ایجنڈے پر کام کرنے والا بتاتے ہیں تب اپنے آپ کو آئین کا محافظ کہلانے والوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
جب وزیر اعظم خود پارلیمنٹ میں مظاہرین پر طنز کستے ہوئے انہیں ‘آندولنجیوی’ کہہ کر خطاب کرتے ہوں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت جمہوریت میں احتجاج کے حق کو کس نظریے سے دیکھتی ہے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021