گجرات :نسل کشی کی دو دہائیاں ۔جبر کا تسلسل جاری
سنجیو بھٹ سچائی، دیانت داری اور جرأت مندی کی قیمت چکارہے ہیں
شویتا بھٹ
برسوں پر محیط اضطراب کی کہانی فرض شناس افسر کی زوجہ کی زبانی
گجرات نسل کشی کو بیس سال پورے ہو رہے ہیں، میں کسی کی کچھ مدد تو نہیں کر سکتی لیکن گزرے ہوئے برسوں کو مڑ کر تو دیکھ سکتی ہوں، جب میرے شوہر اور ان کے ساتھ دیگر چند بہادر روحوں نے مطلق العنان حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ پچھلی دو دہائیوں پر نظر ڈالتے ہوئے میں آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ آپ آئیں اور میری یادداشت کے ساتھ سفر کریں تاکہ آپ کو سنجیو کی شخصیت اور اس فاشسٹ حکومت کے خلاف ان کی لڑائی کے بارے میں معلوم ہو جو درحقیقت بہت بڑی لڑائی تھی۔ میں آپ کو ان خطرات کی تفصیل سے آگاہ کروں گی جن کا سامنا سنجیو کو، مجھے اور ہمارے بچوں کو پچھلے بیس برسوں سے کرنا پڑ رہا ہے اور جن کا تسلسل تاحال جاری ہے۔
ان سب حالات کا سامنا کرنے کا آسان طریقہ یہ تھا کہ سنجیو خدمات سے استعفیٰ دے دیتے یا گجرات سے باہر تعیناتی کروالیتے… انصاف کی لڑائی کو یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیتے کہ یہ ہماری لڑائی نہیں ہے۔ آسان بات یہ تھی کہ وہ جرأت و غیرت سے عاری دیگر اہلکاروں کی تقلید کرتے ہوئے اس ظالم حکومت کی خواہشات کے آگے جھک جاتے اور نسیان کی بیماری کا جھوٹ گھڑ کر فاشسٹ حکومت کو خوش کرنے کے لیے سچائی کے ساتھ قانون کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیتے۔
کیا سنجیو نے آسان یا آرام دہ راستہ اختیار کیا تھا؟
نہیں، انہوں نے یہ قطعی گوارا نہیں کیا بلکہ اس کے بجائے وہ 2002 سے لے کر آج تک گجرات نسل کشی کے متاثرین کو انصاف دلانے کی خاطر، اس فاشسٹ، ظالم اور انتقامی ذہنیت رکھنے والی حکومت کے خلاف اس کی سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے پورے عزم وحوصلے کے ساتھ لڑتے رہے۔ وہ کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے، نہ ٹوٹے اور نہ کبھی جھکے۔ جب لڑائی حقیقی ہو اور وہ ابتر صورت اختیار کر لے تو میدان سے فرار ہو جانا اور عافیت کدوں میں بیٹھ کر تبصرے کرنا آسان ہوتا ہے لیکن طویل عرصے تک ایک غیر مساوی جنگ لڑتے ہوئے میدان میں ڈٹے رہنا بہادروں کا کام ہے۔
میری یادوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے دیکھیے سنجیو کی زندگی کی ایک جھلک۔۔
:2002 اس سال سنجیو کو گجرات اسٹیٹ انٹلی جنس بیورو میں ڈپٹی کمشنر کے طور پر تعینات کیا گیا۔ 2002 میں مسلمانوں کے منظم ریاستی حکومت کے قتل عام کے نتیجہ کے طور پر نریندر مودی نے ستمبر 2002 میں گجرات میں ایک ’’گورو یاترا‘‘ (فتح مارچ) کا آغاز کیا، جس میں مسلمانوں کے خلاف کئی نازیبا اور اشتعال انگیز تبصرے کرتے ہوئے ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی گئی۔ اقلیتوں کے قومی کمیشن نے اپنی تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر ان تقاریر کی ریکارڈنگ کی درخواست کی، جنہیں انٹلی جنس بیورو (IB) کے معمول کے طریقہ کار کے مطابق ٹیپ کیا گیا تھا۔ ان ریکارڈنگس کو سرکاری آئی بی (انٹلی جنس بیورو) کے ریکارڈ میں داخل کرنے سے روکنے کے لیے بہت زیادہ سیاسی دباؤ تھا۔ افسروں کی اکثریت اس دباؤ کے سامنے جھک گئی لیکن سنجیو اور آئی بی کے چند دیگر اہلکاروں نے دباو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور قومی اقلیتی کمیشن کو مطلوب ریکارڈنگ فراہم کر دی۔ نتیجے میں سنجیو کے ساتھ آئی بی کے دو دیگر اعلیٰ افسروں کا راتوں رات تبادلہ کر دیا گیا اور مودی حکومت کے خلاف کھڑے ہونے پر انہیں ’’تادیبی تعیناتی‘‘ سے نوازا گیا۔ یوں ایک نظیر قائم کی گئی کہ جو افسر کتاب کے ذریعہ اپنا فرض ادا کرے گا اور سیاسی دباؤ کے آگے نہیں جھکے گا اور مودی۔شاہ کے بیانیے پر آنکھیں موند کر نہیں چلے گا، اس کے ساتھ ایسا ہی ہو گا۔
2002 کے بعد کے حصے میں گجرات کے آنجہانی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کو گجرات فسادات کی منصوبہ بندی میں مودی کے کردار کے حوالے سے جسٹس ائیر کی سربراہی میں ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن کے سامنے خفیہ بیان دینے کے چند مہینوں بعد قتل کر دیا گیا۔
:2003 اس سال سنجیو کو سابرمتی سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے طور پر تعینات کیا گیا۔ اصغر علی نامی ایک قیدی جو ہرین پانڈیا کے قتل کا ملزم تھا، اس وقت سابرمتی سنٹرل جیل میں بند تھا۔ اصغر علی نے آگے آکر یہ معلومات دیں کہ ہرین پانڈیا کا قتل تلسی رام پرجاپتی نامی شخص نے کیا تھا۔ واضح رہے کہ تلسی رام پرجاپتی کا 2006 میں فرضی انکاؤنٹر میں قتل کر دیا گیا تھا۔
پروٹوکول کے مطابق سنجیو نے فوری طور پر گجرات کے اس وقت کے وزیر داخلہ اور آج کے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو اصغر علی کی طرف سے ہرین پانڈیا قتل کیس کو دوبارہ کھولنے اور دوبارہ تفتیش کرنے کے عمل کو شروع کرنے کے انکشافات کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ سنجیو کو اس معاملے سے متعلق تمام دستاویزی ثبوتوں کو فوری طور پر تباہ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے بجائے اصغر علی کی ان اہم معلومات اور انکشافات کے ساتھ ساتھ امت شاہ سے کی گئی خط وکتابت کو مرکزی حکومت کو بھیج دی تھی۔ نتیجے میں پوری تن دہی اور ایمانداری کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دینے کی سزا کے طور پر سنجیو کا راتوں رات سابرمتی جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے تبادلہ کر دیا گیا۔
جدید بھارت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جیل میں ہزاروں قیدیوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کے تبادلے پر بھوک ہڑتال کی اور سنجیو کی غلط اور سیاسی محرکات کے تحت تبادلے کو چیلنج کرنے کے لیے ہائی کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا۔ سابرمتی سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے طور پر اپنی نگرانی میں سنجیو نے قیدیوں اور زیر دریافت قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک کو نافذ کرنے اور ان کے انسانی حقوق کی برقراری کو یقینی بنانے کے لیے بہت سی اصلاحات نافذ کیں اور فلاحی اقدامات متعارف کروائے تھے۔سیاسی جوڑی کی بدنیتی پر مبنی خواہشات کو رد کرنے والے سنجیو بھٹ مرکزی تعیناتی پر ایک آئی پی ایس افسر کی ’تادیبی پوسٹنگس‘ کا سلسلہ جاری رہا۔ یوں ان کی ترقیوں میں ہر قدم پر غیر رسمی طور پر تاخیر ہوتی رہی۔
جوں جوں مودی اور شاہ کی سیاسی بنیاد مضبوط ہوتی گئی ان لوگوں کو جنہوں نے ان کے مذموم عزائم کی پاسداری نہیں کی، سزا دینے کے اسباب اور طریقے خطرناک حد تک انتقامی ہو گئے۔ جس وقت حکومت نے گجرات میں حکام کے اندر خوف اور بغاوت کو ہوا دینے کی کوشش جاری رکھی تھی، سنجیو بھٹ نے 2002 سے 2009 تک انصاف کے حصول میں 2002 کے فساد متاثرین کی پوری تن دہی سے مدد جاری رکھی، جو گجرات قتل عام کی عدالتی تحقیقات کا انتظار کر رہے تھے۔
انڈین پولیس سروس کے ایک برسر خدمت افسر ہونے کے ناطے، سنجیو بھٹ حساس اور خفیہ معلومات کے رازدار تھے۔ حلف کے پابند ہونے کی وجہ سے وہ کسی مناسب فورم یا عدالت کی طرف سے مقرر کردہ کمیٹی کی طرف سے طلب کیے جانے تک حکومت یا ریاست سے متعلق کوئی بھی معلومات ظاہر نہیں کر سکتے تھے۔
2009 میں 2002 کے گجرات قتل عام میں ریاستی مشینری کے کردار کی تحقیقات کے لیے ایک عدالت نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔ اس وقت ریاستی عہدیداروں کی اکثریت نے یا تو بھولنے کی بیماری کا دعویٰ کیا تھا یا ایس آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ سنجیو واحد شخص تھے جو جرأت کے ساتھ آگے آئے اور سچائی کے ساتھ ایس آئی ٹی اور ناناوتی مہتا کمیشن کے سامنے اپنی جان اور کریئر کی بھاری قیمت ادا کی۔
:2009 سنجیو نے گجرات نسل کشی میں ریاستی مشینری کے ساز نام والے کردار کی تحقیقات کرنے والے ایس آئی ٹی اور ناناوتی-مہتا کمیشن کے سامنے پیش ہونا شروع کیا۔
ریاستی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے ان کے سیاسی آقاؤں کے کہنے پر سنجیو کو ان کمیشنوں کے سامنے پیش ہونے کی حوصلہ شکنی اور دھمکیاں دینے کی متعدد کوششیں کی گئیں، لیکن انہوں نے ذاتی اور پیشہ ورانہ قیمت ادا کرتے ہوئے 2002 کی نسل کشی کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کے لیے مستعدی اور ہمت کے ساتھ اپنا بیان جاری رکھا۔
2011 : شواہد پیش کرنے کے ایک حصے کے طور پر سنجیو نے گجرات میں منصوبہ بند نسل کشی، ہرین پانڈیا (گجرات کے وزیر داخلہ) کے قتل کے ساتھ ساتھ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے ’’تحفظ‘‘ کے نام پر کیے گئے کئی ماورائے عدالت قتل اور فرضی انکاؤنٹرس میں ریاستی حکومت اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں کے کردار کے بارے میں سپریم کورٹ اور قومی اقلیتی کمیشن کے پاس ایک جامع حلف نامہ داخل کیا جس کے فوری بعد انہیں معطل کردیا گیا۔ یوں تو سنجیو کو 2002 کے بعد سے مسلسل نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن 2011 کے بعد اس میں اور بھی اضافہ کر دیا گیا۔
سنجیو اور ہمارے خاندان کو موجودہ حکومت اور دائیں بازو کے جنونیوں کی طرف سے بے شمار خطرات کا سامنا ہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے سنجیو کی آواز کو خاموش کرنے اور ان کے عزم کو توڑنے کے ایک بنیادی آلے کے طور پر عدالت کے ذریعہ ہراساں کیا جا رہا ہے۔ مرکز میں مودی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی ظلم بتدریج بڑھتا رہا اور یہ مزید دلیر اور خطرناک ہو گیا ہے۔
سچ بولنے کی جسارت کرنے کے فوراً بعد سنجیو کو نہ صرف 30 سال پرانے دو کیسز کو بد نیتی کے ساتھ دوبارہ کھولا گیا بلکہ انہیں غیر مجاز طور پر معطل بھی کیا گیا۔
یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ حکومت اس وقت سنجیو کو سزا دینے اور جھوٹے طریقے سے مجرم ثابت کرنے کے لیے دو مقدمات کا استعمال کر رہی ہے جن میں سے ایک 1990 کا اور دوسرا 1996 کا ہے۔ دو دہائی قبل عدالت عظمیٰ نے ان پر باضابطہ تحقیقات کی تھیں اور بعد میں ان پر روک لگا دی تھی۔ خود گجرات کی حکومت نے اپنے افسروں کا تحفظ کرتے ہوئے 1996 میں نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی۔ تاہم 2011 میں مودی کے خلاف سپریم کورٹ میں سنجیو کی جانب سے حلف نامہ داخل کرنے کے بعد حکومت گجرات نے اچانک غلط ارادے کے ساتھ یو ٹرن لیا اور 16 سال تک مستعدی سے اپنے افسروں کی مدافعت کرنے کے بعد نظر ثانی کی درخواست واپس لینے کی کوشش کی۔
ریاستی حکومت کے پاس سنجیو کو معطل کرنے کا اختیار تو تھا لیکن اس سے زیادہ اس کے دائرہ اختیار میں کچھ نہیں تھا۔ آئی پی ایس افسر ریاستی افسر نہیں ہوتے بلکہ وہ مرکزی تعیناتی پر انڈین پولیس سروس کے افسر ہوتے ہیں جو مرکزی وزارت داخلہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
لہٰذا ایک مضبوط نظیر قائم کرنے کے لیے اور سنجیو کی سچائی کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے ریاستی حکومت نے وہی کیا جو اس وقت سب سے زیادہ اس کے بس میں تھا یعنی سنجیو کی معطلی۔
:2014نریندر مودی نے ملک کے وزیر اعظم کے طور پر عہدہ سنبھالا، اب وزارت داخلہ پر ان کا کنٹرول ہے۔
2015 : مودی کے وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد، سنجیو کو’’غیر مجاز غیر حاضری‘‘ کی غیر سنجیدہ بنیادوں کے تحت ڈیوٹی سے برخاست کر دیا گیا۔ اس غیر حاضری کے پیچھے ان کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری اور گجرات فسادات میں حکومت کے کردار اور کام کی تحقیق کرنے والے ایس آئی ٹی اور ناناوتی مہتا کمیشن کے سامنے پیشی کار فرما تھی۔
سنجیو کو صرف 2002 کے گجرات فسادات میں کچھ اعلیٰ ریاستی عہدیداروں کے کردار کو اجاگر کرنے اور گجرات نسل کشی کی بھیانک سچائی کو سامنے لانے کی ہمت دکھانے کی سزا ہی نہیں دی جا رہی تھی بلکہ ایس آئی ٹی اور ریاستی حکام کے درمیان ملی بھگت کو آشکار کرنے کی کوشش کرنے کی بھی سزا دی جا رہی تھی۔
2015-18: انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ جاری
:2018 مسز ذکیہ جعفری نے 2018 میں سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا جس میں مودی کو دی گئی کلین چٹ کو چیلنج کیا گیا اور سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی کہ وہ 2002 کے فسادات میں مودی اور ان کی حکومت کے کردار کی دوبارہ تحقیقات کرے۔سنجیو 2002 کے فسادات میں حکومت کے کردار کے کلیدی گواہ ہیں۔
جہاں سپریم کورٹ مسز جعفری کی اپیل کی سماعت کے لیے تاریخ کو موخر اور ملتوی کرتی رہی وہیں دوسری طرف انہوں نے سنجیو کو خاموش اور بدنام کرنے کے لیے، جو واحد ایسے گواہ ہیں جو مودی کو 2002 کے گجرات فسادات سے براہ راست جوڑ سکتے ہیں، فضول بنیادوں پر تیزی کے ساتھ جھوٹے طور پر پھنسائے رکھا اور گرفتار کر لیا۔
جولائی :2018 سنجیو کی سیکیوریٹی کسی نوٹس یا وضاحت کے بغیر اچانک ہٹا دی گئی۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ نریندر مودی کے خلاف سنجیو کے بیان کے بعد سپریم کورٹ نے سنجیو اور ہمیں، ان کے خاندان کے لیے آنے والے خطرے کا اندازہ لگاتے ہوئے، حکومت گجرات کو حکم دیا تھا کہ وہ انہیں فوری طور پر Yزمرہ کی سیکیوریٹی فراہم کرے۔ ریاست گجرات نے اس حکم کی علانیہ خلاف ورزی کی اور افرادی قوت وانفراسٹرکچر کی کمی جیسے عذر پیش کرتے ہوئے کبھی بھی سیکیورٹی فراہم نہیں کی بلکہ اس کے بجائے میرے شوہر کو کم سے کم (2 گارڈز) سیکیورٹی فراہم کی گئی۔ اس کم سے کم سیکیورٹی کو بھی جولائی 2018 میں بغیر کسی نوٹس یا وضاحت کے اچانک ہٹا دیا گیا تھا۔
اگست 2018 سنجیو کی سیکیوریٹی کو اچانک واپس لینے کے چند دن بعد میونسپل کارپوریشن نے غیر قانونی طور پر ہمارے گھر کے بڑے حصے کو ’’غیر قانونی‘‘ بتاتے ہوئے توڑ دیا۔ ہم اس گھر میں گزشتہ 23 سالوں سے رہ رہے ہیں۔
5 ستمبر 2018 سنجیو کو دو دہائیوں سے زیادہ پرانے معاملے میں پوچھ گچھ کے بہانے صبح سویرے لے جایا گیا جس کی پہلے ہی اچھی طرح تفتیش کی جا چکی تھی اور بعد میں 20 سال قبل عدالتی عدالت نے اس پر روک لگا دی تھی۔ سنجیو کو بعد میں بغیر کسی وجہ یا دستاویزات کے گرفتار کر لیا گیا۔
ستمبر 2018 سے اس حکومت نے تاخیر کے حربے استعمال کرنے اور مناسب قانونی عمل کو پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ سنجیو کو نہ صرف فضول بنیادوں پر ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا، بلکہ صریح طور پر انصاف ہونے ہی نہیں دیا، ان پر منصفانہ مقدمے کی سماعت سے انکار کر دیا گیا اور جھوٹے طریقے سے اس جرم میں پھنسایا گیا جو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔
20 جون 2019 عدالتی طور پر ہراساں کرنے کی تکنیک اس وقت سے استعمال ہو رہی ہے جب حکومتی مشینری نے سنجیو کو 20 سال پرانے مقدمے میں بآسانی پھانس لیا جو کہ من گھڑت اور بے بنیاد مفروضوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انصاف کے ایک بڑے فراڈ میں انہوں نے 30 سال پرانے من گھڑت مقدمے کی کارروائی کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا حالاں کہ اس مقدمے میں نہ صرف یہ کہ کوئی ثبوت نہیں تھا، بلکہ سنجیو کو اپنے دفاع میں ایک بھی گواہ کو بلانے کی اجازت نہیں تھی۔
انصاف کے ایک بہت بڑے فریب میں، سنجیو کو جھوٹے طور پر پھنسایا گیا اور اس جرم کے لیے عمر قید کی سزا سنائی گئی جو کہ انہوں نے کیا ہی نہیں۔ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ سیاسی دباؤ کے آگے نہیں جھکے، اور سچائی کے ساتھ کھڑے ہونے اور ان ہزاروں لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے لڑنے کی ہمت کی جو اس فاشسٹ حکومت کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔
انتقامی ظلم وستم کی اس سے زیادہ واضح مثال نہیں ہو سکتی کہ ایک مکمل بے گناہ شخص کو نشانہ بنایا گیا جس نے فرقہ وارانہ فسادات کے مشکل ترین دور میں اپنا فرض شاندار اور مثالی انداز میں ادا کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ سنجیو کی سچائی، دیانت اور عزم اس فسطائی حکومت کے لیے ایسا ناقابل قبول خطرہ ہے کہ ملک کے سب سے طاقتور عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی ایک ایماندار اور راست باز افسر کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے۔
اور یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ سچائی دن کی روشنی میں بھی نظر نہ آئے۔
شدید دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود سنجیو کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی لڑائی کا میدان چھوڑا۔
اگر وہ چاہتے تو کسی دوسری ریاست میں منتقلی کی کوشش کرسکتے تھے اور اپنے گھر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ زندگی کا مزہ لے رہے ہوتے لیکن اس کے بجائے حد سے زیادہ ذاتی اور پیشہ ورانہ قیمت پر انہوں نے ظلم کے خلاف کھڑے رہنے کا راستہ چنا اور نفرت وتشدد کے مرتکب افراد کے خلاف برسر پیکار رہے تاکہ ان ہزاروں لوگوں کو انصاف دلایا جائے جو گجرات منصوبہ بند قتل عام میں بے دردی سے شکار ہوئے تھے۔یہ 2022 ہے اور مسز جعفری کا کیس ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔سنجیو کو اس حکومت کے ذریعے غلط طریقے سے قید کیے جانے کے بعد اب 3 سال 5 مہینے اور 20 دن (1269 دن) ہو چکے ہیں۔
انصاف کے حصول کے لیے ہماری کوشش جاری ہے…
مجھے امید ہے کہ اس یادداشت کے ساتھ چلتے ہوئے آپ ایک برفانی تودے کی ایک نوک تو دیکھ پائے ہوں گے جسے سنجیو کے ایثار نے بنایا ہے اور جو مسلسل بن رہی ہے۔ یہ ایک مقصد ہے جو کسی ایک فرد سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
سنجیو ان بہادر ترین اور مضبوط آدمیوں میں سے ایک ہے جسے میں نے جانا ہے، نفرت اور تشدد کے ان مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ان کی لڑائی جاری ہے اور ہم بحثیت خاندان ان کے لاکھوں حامیوں اور خیر خواہوں کے ہمراہ ان کے ساتھ پوری مضبوطی سے کھڑے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ ہم لہولہان ہو جائیں اور مارے اور پیٹے جائیں…. لیکن پھر بھی ہم ٹوٹیں گے نہیں،جھکیں گے نہیںاور پیچھے ہٹیں گے نہیں ۔
(بشکریہ مکتوب میڈیا ڈاٹ کام)
***
سنجیو ان بہادر ترین اور مضبوط آدمیوں میں سے ایک ہے جسے میں نے جانا ہے، نفرت اور تشدد کے ان مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ان کی لڑائی جاری ہے اور ہم بحثیت خاندان، ان کے لاکھوں حامیوں اور خیر خواہوں کے ہمراہ ان کے ساتھ پوری مضبوطی سے کھڑے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ ہم لہولہان ہو جائیں اور مارے اور پیٹے جائیں…. لیکن پھر بھی ہم ٹوٹیں گے نہیں،جھکیں گے نہیںاور پیچھے ہٹیں گے نہیں
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 6 تا 12 مارچ 2022