یوگی حکومت کی لاقانونیت پر سپریم کورٹ کی پھٹکار

ہرجانہ نوٹسوں کی واپسی سے مظاہرین کوراحت لیکن زبردست جانی ومالی نقصان کی جوابدہی باقی

افروز عالم ساحل

اتر پردیش میں یوگی حکومت نے سپریم کورٹ سے پھٹکار سننے کے بعد ’اتر پردیش پبلک اینڈ پرائیویٹ پراپرٹی ڈیمیج ریکوری ایکٹ 2020‘ سے پہلے مبینہ نقصانات کی پابجائی کے لیے سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف جاری کردہ 274 نوٹسیں واپس لے لی ہیں۔

اتر پردیش حکومت کی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل گریما پرساد نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 14 اور 15 فروری 2022 کو دو سرکاری احکام جاری کرتے ہوئے دسمبر 2019 سے سرکاری املاک کو مبینہ طور پر نقصان پہنچانے کے 274 معاملات میں جاری کردہ وجہ بتاؤ نوٹسوں کو واپس لے لیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اب ان مقدمات کو 2020ء ایکٹ کے تحت قائم ٹریبونل کو بھیجا جائے گا۔

اس کے بعد عدالت عظمی نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی کہ سابقہ احکام کے تحت نقصانات کی وصولی، اگر کی گئی ہو تو وہ واپس کی جائے۔ ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’’یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ ریاستی حکومت 2020ء کے ریاستی ایکٹ کے تحت قانون کے مطابق آگے بڑھنے کے لیے آزاد ہوگی‘‘۔

غور طلب امر یہ ہے کہ اس سے قبل گزشتہ 11 فروری کو بھی سپریم کورٹ میں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور سوریہ کانت کی بنچ نے یو پی حکومت کی طرف سے دسمبر 2019ء میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران عوامی املاک کو ہونے والے نقصانات کی وصولی کے لیے ضلع انتظامیہ کی طرف سے بھیجی گئی نوٹسوں پر کارروائی کرنے پر سخت تنقید کی تھی اور واضح طور پر کہا تھا کہ ’’کیا آپ سپریم کورٹ کے احکام کا احترام کرتے ہیں؟ آپ ہی شکایت کنندہ بن گئے ہیں اور آپ ہی فیصلہ کرنے والے بھی بن گئے ہیں اور پھر آپ ہی ملزم کی جائیداد بھی ضبط کر رہے ہیں؟ کیا اس کی اجازت ہے؟ یو پی جیسی ریاست میں 236 نوٹس کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ انہیں بیک جنبش قلم واپس لیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ سننے کے لیے نہیں جا رہے ہیں، تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا عمل کیسے کرنا ہے۔۔ نوٹسیں اور ان پر کارروائی 2009ء کے فیصلے میں دی گئی سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق نہیں ہے۔‘‘ جسٹس چندر چوڑ نے یو پی حکومت سے یہ بھی پوچھا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کیوں کر نظر انداز کر سکتی ہے؟

عدالت عظمیٰ ایڈوکیٹ پرویز عارف ٹیٹو کی طرف سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کر رہی تھی جس میں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران عوامی املاک کو ہونے والے نقصانات کی وصولی کے لیے مظاہرین کو بھیجی گئی نوٹسوں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس درخواست میں عدالت کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ نوٹسیں انتہائی من مانے طریقے سے جاری کی گئیں ہیں، کیونکہ جن افراد کو نوٹسیں بھیجی گئی ہیں ان کے خلاف ایف آئی آر یا کسی جرم کی کوئی تفصیلات نہیں دی گئیں۔ اس درخواست میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ ’’پولیس نے بنے خان نامی ایک شخص کے خلاف من مانے طریقے سے نوٹس جاری کی تھی جس کی 6 سال قبل ہی 94 سال کی عمر میں وفات ہو چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ پولیس کی جانب سے دو ایسے معمر افراد کو بھی نوٹسیں بھیجی گئیں جن کی عمریں 90 سال سے زیادہ ہیں۔‘‘

مثالی ضابطہ اخلاق کا بہانہ کام نہیں آیا

اتر پردیش کی حکومت کی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل گریما پرساد نے عدالت میں اس بات پر زور دے کر کہا کہ ’ریاست میں مثالی ضابطہ اخلاق (ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ) نافذ ہونے کی وجہ سے رقم کی واپسی کے ساتھ ساتھ ضبطی کو واپس کرنے میں دشواری ہو گی۔‘ اس پر جسٹس چندر چوڑ نے پوچھا، ’’جب آپ اس عدالت کے فیصلے کو نافذ کر رہے ہیں، تو ’ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ‘ کیسے آئے گا؟ ’ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ‘ قانون کے آڑے نہیں آسکتا اور یہ قانون ہے، پالیسی نہیں‘‘ اس کے بعد گریما پرساد نے کہا کہ ’ریفنڈ کے آرڈر سے غلط پیغام جائے گا۔‘ اس پر جسٹس چندر چوڑ نے واضح طور پر کہا کہ ’’ہمارے فیصلے میں، ہم نے نہیں کہا ہے کہ آپ سرکاری املاک کو نقصان کے خلاف دعوؤں کا پیچھا نہیں کر سکتے لیکن آپ کو قانون کے مناسب طریقہ کار پر عمل کرنا ہو گا… جو پیغام عوام کے پاس جائے گا وہ یہ ہو گا کہ رقم واپس کر دی گئی ہے اور آپ کا پورا پروسیس غیر قانونی ہے اور ایسی کوئی وصولی نہیں کی جا سکتی۔‘ جج نے بات بات میں یہ بھی پوچھا کہ ’ویسے کتنی ریکوری ہوئی ہے؟‘ گریما پرساد نے بس اتنا جواب دیا ’’لاکھوں‘‘۔

گریما پرساد نے عدالت کو بتایا ہے کہ ’833 مظاہرین کے خلاف 106 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور 274 کو وصولی کی نوٹسیں جاری کی گئیں۔ 274 نوٹسوں میں سے 236 میں وصولی کے احکامات جاری کیے گئے جبکہ 38 معاملوں کو بند کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں بنچ کے ایک سوال کے جواب میں گریما پرساد نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مذکورہ احکام ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس کے ذریعے پاس کیے گئے تھے۔

سی اے اے کے آئینی جواز پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتطار

شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے آئینی جواز کے خلاف 140 درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ اس میں کیرالا اور راجستھان کی حکومتوں کی درخواستیں بھی شامل ہیں۔ واضح ہو کہ کیرالا کی حکومت نے جنوری 2020 میں ملک کے آئین کی دفعہ 131 کا استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون 2019 (سی اے اے) کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواست دائر کی تھی۔ اس درخواست میں کیرالا کی حکومت نے استدلال کیا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) آئین کی دفعہ 14، 21 اور 25 کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ ساتھ آئین میں شامل سیکولرزم کے بنیادی ڈھانچے کے اصول کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے، لہذا اسے باطل قرار دیا جانا چاہیے۔ اس درخواست پر یکم فروری 2020 کو سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آف انڈیا کے توسط سے مرکزی حکومت کو سمن بھیجا تھا لیکن اس کے بعد سے ابھی تک یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔

وہیں راجستھان حکومت کے ذریعے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’ایک فیصلہ جاری کریں کہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ 2019 آرٹیکل 14 (مساوات کا حق) اور آرٹیکل 21 (زندگی کا حق) کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ سیکولرزم کے بنیادی ڈھانچے کے اصول کے بھی خلاف ہے۔ اس طرح آئین کے آرٹیکل 13 کے تحت 2019ء کے ایکٹ 47 (سی اے اے) کو کالعدم قرار دیا جائے۔‘ اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ سی اے اے کو آئین ہند کی شقوں کے مطابق ’’الٹرا وائرس‘‘ قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاسپورٹ (ہندوستان میں انٹری) ترمیمی قواعد، 2015ء اور غیر ملکی (ترمیمی) آرڈر بھی الٹرا وائرس ہیں اور انہیں کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔ سی اے اے، پاسپورٹ کے ترمیم شدہ قواعد اور غیر ملکی آرڈر طبقاتی قانون سازی ہیں جو کسی فرد کی مذہبی شناخت کو متاثر کرتی ہیں، اس طرح یہ سیکولرزم کے اصولوں کے منافی ہیں، جسے عدالت نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

غور طلب بات ہے کہ گزشتہ 4 دسمبر 2021ء کو فورم فار ڈیموکریسی اینڈ کمیونل ایمیٹی (ایف ڈی سی اے) کی جانب سے ’’ہندوستانی آئین میں مساوات، عدم امتیاز اور شہریت‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک ویبینار میں بات کرتے ہوئے

جسٹس (ریٹائرڈ) اے کے گنگولی نے کہا ہے کہ بی جے پی حکومت کے ذریعہ 2019 میں منظور کیا گیا ’سی اے اے‘ ناقص ہے اور آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ ’’سی اے اے آئین کی دفعہ 6 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ آئین کی دفعات 10 اور 11 پارلیمنٹ کو شہریت سے متعلق قوانین بنانے کی اجازت دیتے ہیں لیکن یہ قوانین آئین کے خلاف نہیں ہو سکتے۔‘‘ اس طرح سے اس ملک کے انصاف پسند لوگوں کو اب سپریم کورٹ سے سی اے اے کے آئینی جواز کے خلاف درخواستوں پر سنوائی اور فیصلے کا انتظار ہے۔

***

 ’’کیا آپ سپریم کورٹ کے احکام کا احترام کرتے ہیں؟ آپ ہی شکایت کنندہ بن گئے ہیں اور آپ ہی فیصلہ کرنے والے بھی بن گئے ہیں اور پھر آپ ملزم کی جائیداد ضبط کر رہے ہیں۔ کیا اس کی اجازت ہے؟ یوپی جیسی ریاست میں 236 نوٹس کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ انہیں بیک جنبش قلم واپس لیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ سننے کے لیے نہیں جا رہے ہیں، تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کیسے کرنا ہے۔۔ نوٹس اور ان پر کارروائی 2009 کے فیصلے میں دی گئی سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق نہیں ہے۔‘‘
(جسٹس چندر چوڑ )


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  6 تا 12 مارچ  2022