گجرات فساد کے 20سال:مسلمانوں نے عزم و حوصلہ کی تاریخ لکھی

بدترین شر سے خیر کا ظہور۔کامیابی کی کئی کہانیاں۔ فساد زگان پہلے سے بہتر حالت میں

خلیق احمد، نئی دلی

کاروبار دوبارہ جمائے گئے۔کئی تعلیمی وطبی مراکز کاقیام۔ آئی آر سی جی اور دیگرتنظیموں کی مثالی جدوجہد
وڈودرا (سابقہ نام بڑودہ) میں 2002کے مسلم کش فسادات کے دوران جس میں تقریباً 2ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے ، ایک مسلم تاجر کی دو آپٹیکل شاپس کو لوٹ کر جلادیا گیا تھا۔ دکان کے مالک کو لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا لیکن سخت محنت اور مضبوط عزم کے ساتھ اب وہ اسی شہر میں 5 آپٹیکل دکانات کے مالک ہیں جن میں سے تین دکانات بڑے بازاری علاقوں میں ہیں۔ یہ دکانات معیاری آئی سائٹ گلاسیس اور عینکوں کے خواہشمندوں کے لیے پسندیدہ مقام ہیں۔
دیگر مسلم کاروباریوں کی بھی یہی کہانی ہے جو وڈودرا اور گجرات کے دوسرے مقامات پر بھارینقصانات سے دوچار ہوئے تھے۔ ان میں سے تقریباً سبھی نے دوبارہ اپنا کاروبار جما لیا ہے۔ اگر ان تاجروں پر یقین کیا جائے تو ان کی تجارت اور کاروبار کئی گنا بڑھ چکے ہیں اور فسادات سے پہلے وہ جو کچھ کماتے تھے اب اس سے کہیں زیادہ کمارہے ہیں۔ آٹو موبائل گاڑیوں کے ایک ڈیلر کو کئی کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا کیونکہ وڈودرا کے پرتاب نگر علاقہ میں ان کے شو روم اور گوداموں میں موجود تمام فور وہیلرس کو جلادیا گیا تھا اور ہندووں کے پاش علاقہ میں واقع ان کے بنگلے کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا تھا۔ اگرچہ انہیں حفاظت کے مقصد سے اپنا بنگلہ بیچ کر مسلم اکثریتی علاقے میں منتقل ہونا پڑا تاہم انہوں نے اپنے آٹو موبائل بزنس کو دوبارہ جمالیا ہے۔
اشرار نے اس وقت وڈودرا ، احمد آباد، بھروچ، سورت اور دیگر مقامات پر ہزاروں دکانات، سینکڑوں کاروباری اداروں، ہوٹلوں، ریسٹورنٹس، گوداموں، اور فیکٹریوں کو لوٹ لیا تھا جو مسلمانوں کی ملکیت تھے۔ شرپسندوں کے حملوں کی وجہ سے تقریباً 5لاکھ افراد اپنے آبائی گھروں سے بے گھر ہوگئے تھے۔
وڈودرا کے تاجر منیر خیرو والا نے بتایا کہ مسلمانوں نے فروری ۔ مارچ 2002کے فسادات کے بعد ہر شعبہ میں بے انتہا ترقی کی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ’’فساد کے ہر متاثر نے جیو میٹرک تناسب سے ترقی کی ہے‘ مسلم تنظیموں کی مدد سے اور اپنی جمع پونجیوں کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں نے پھر سے اپنے کاروبار جمائے۔ آج ان کی تجارت خوب چل رہی ہے جن کے پاس پہلے ایک دکان تھی اب ان کی دو دکانیں ہیں اور جن کی دو دکانیں تھیں انہوں نے چار دکانیں قائم کرلیں اور کاروبار اچھا چل رہا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا’’جہاں تک کاروبار کا تعلق ہے پہلے مسلمان، چند ایک علاقوں ہی میں کام کر رہے تھے لیکن اب وہ معیاری بازاروں اور ملے جلے علاقوں میں پھیل گئے ہیں‘‘۔ منیر خیرو والا نے بتایا کہ مسلمانوں کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد کے لیے نہ تو ریاستی حکومت اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے نے کوئی مدد دی ہے۔
فسادات کے بعد مسلمان گجرات میں قومی و ریاستی شاہراوں سے متصل بیشتر ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کے مالک بن گئے۔ یہ لوگ احمد آباد، وڈودرا اور سورت میں کئی ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کے بھی مالک ہیں تاہم کوئی ان کی شناخت ان کے ناموں سے نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اپنی تجارت کے لیے مسلم ناموں کا استعمال نہیں کرتے۔ اپنی شناخت مخفی رکھنے کے لیے وہ اپنی ہوٹلوں اور کمپنیوں کے لیے ہندی اور سنسکرت کے ناموں جیسے تلسی، آدیتی، پرسولی، دیپ وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں تاکہ امتیاز سے بچا جاسکے ۔ وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب رہے ہیں۔ مسلم تاجروں نے بالخصوص احمد آباد اور وڈودرا میں ہمہ منزلہ عمارتیں بھی تعمیر کی ہیں جو پارکنگ اور دیگر سہولتوں کے ساتھ 200تا ایک ہزار فلیٹس پر مشتمل ہیں۔ سلامتی کے ڈر کی وجہ سے مسلمانوں نے ملے جلے علاقوں سے نکل کر قدیم مسلم علاقوں سے متصل مکانات اور بنگلے تعمیر کیے جس کا نتیجہ مسلم محلّوں کی شکل میں سامنے آیا لیکن مسلم آبادی کے الگ تھلگ ہوجانے کے پیچھے ہندو شدت پسندوں کی جانب سے ان کی املاک پر حملہ اور ملی جلی آبادی میں مسلمانوں کو مناسب سیکوریٹی فراہم کرنے میں ریاستی حکومت کی ناکامی کارفرما ہے۔
مفتی احمد دیلاوی جو جنوبی گجرات کی معروف مذہبی شخصیت ہیں انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ فساد نے مسلمانوں میں تعلیمی و طبی مراکزکےقیام کے تعلق سے بیداری پیدا کی۔ فسادات نے جہاں سیکڑوں مسلمانوں کی جانیں لی ہیں اور جس کے نتیجے میں ملت کا بھاری معاشی نقصان ہوا ہے وہیں مسلمانوں نے فساد کے دوران اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کے معاملے میں بے بسی محسوس کی تھی کیونکہ مسلم علاقوں میں چند ایک طبی مراکز ہی موجود تھے ۔ علاوہ ازیں مسلم طلبا کو غیر مسلم علاقوں میں جہاں مسلم طلبہ بالخصوص طالبات نے فساد کے کئی ماہ بعد بھی مجموعی ماحول کو محفوظ محسوس نہیں کیا تھا، بورڈ امتحانات تک کی تیاری میں مسائل درپیش تھے۔ بدلے ہوئے حالات میں مسلم طبقہ نے اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اسکولوں ، کالجوں، دواخانوں، اور دیگر انفراسٹرکچر سہولتوں، کی شدید ضرورت محسوس کی۔ انہوں نے کہا ’’ مسلم طبقہ کے مابین تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت انفراسٹرکچر پر اپنا پیسہ خرچ کرنے کے لیے زبردست مہم چلائی گئی۔ گجرات میں 2002کے فسادات کے بعد کے عرصے کو گجراتی مسلمانوں کے لیے ایک نشاۃ ثانیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ مفتی احمد نے جو ضلع بھروچ کے جمبو سار میں جامع دارالقرآن چلاتے ہیں ایک ملٹی اسپیشالٹی ہاسپٹل ، ایک ہائی اسکول اور ایک انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ہے۔
اگر وڈودرا کے سماجی کارکن زبیر میمن کی بات مانی جائے تو مسلمانوں نے 2002 سے ریاست بھر میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دیہی اور اندرونی علاقوں کےبشمول ریاست بھر میں چھوٹے بڑے سینکڑوں اسکول اور کالج قائم ہوئے ہیں۔ زبیر کا کہنا ہے اسکولوں کے قیام سے مسلم طلبہ کے داخلوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ان کی ترک تعلیم کی شرح میں کمی آئی ہے۔ تاہم، وہ محسوس کرتے ہیں کہ مسلم علاقوں میں تعلیمی سہولتیں اب بھی ناکافی ہیں، اور ملّت میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران قائم کیے گئے کچھ اسکولوں میں ضلع آنند کاحنیفہ اسکول (سی بی ایس ای سے الحاق اور اقامتی ہے جہاں 10 فیصد طلباء غیر مسلم نہیں ہیں) ،اسی ضلع سے متصل ناپا گاؤں میں ایک تعلیمی کمپلیکس، جس میں اسکول کی سطح سے لے کر آرٹس، کامرس اور سائنس اسٹریم میں پوسٹ گریجویشن تک کورسز ہیں، مہسانہ ضلع کے اندرونی علاقے میں خاص طور پر مقامی دیہی آبادی کی تعلیمی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قائم کردہ ناکادار انسٹی ٹیوٹ آف نالج ،ہمت نگر میں سماجی کارکن ڈاکٹر بلال سیٹھ اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے قائم کردہ اسکالر اسکول و کالج اور سکون ٹرسٹ کے ذریعے قائم کردہ راجستھان سرحد کے قریب موڈاسا میں واقع ریڈیئنس اسکول قابل ذکر ہیں۔
وسطی گجرات کے علاقے بھروچ میں جہاں بیرون ملک مقیم متمول گجراتی مسلمانوں کے گھرہیں2002 سے پہلے کوئی اچھا اسکول یا کالج نہیں تھا مگریہاں ریاست کے سب سے بڑے مدرسے تھے۔ لیکن 2002 کے فسادات میں کمیونٹی کی تذلیل نے ذہنیت کو بدل دیا۔ چنانچہ اب کمیونٹی نے کئی اسکول، کالج اور ہسپتال قائم کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے سابق سینئر کارکن مولانا عبدالرحمٰن متادر نے شہر کے مضافات میں ایک ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ اور بیچلر آف کمپیوٹر ایپلی کیشنز (BCA) کالج کے علاوہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ایک اسکول اور کالج قائم کیاہے۔ ایک اور مخیر شخص نے بھروچ میں ماتلی والا میں ماتلی والا پبلک اسکول اور نیشنل ہائی وے نمبر 8 پر بھروچ کی صنعتی پٹی سے ملحقہ کھروڈ گاؤں میں ایک ہسپتال اور نوساری میں یشفین ہاسپٹل قائم کیا ہے۔ کانگریس کے مرحوم لیڈر احمد پٹیل نے دو ملٹی اسپیشیالٹی ہاسپٹلس قائم کیے: ایک اپنے آبائی گاؤں پیراماں میں اور دوسرا انکلیشور میں جس کا افتتاح سابق صدر جمہوریہ ہندپرنب مکھرجی نے کیا تھا۔ پیراماں گاؤں میں ہسپتال ایچ ایم پی گرامیا وکاس اینڈ کلیان فاؤنڈیشن نے قائم کیا تھا، جو ریلائنس انڈسٹریز کے بانی دھیرو بھائی امبانی کی یاد میں قائم کیا گیا تھا۔ایچ ایم پی دراصل احمد پٹیل کی والدہ ہوابین،والد محمد بھائی اور ان کے خاندانی نام پٹیل کا مخفف ہے۔ علاوہ ازیں ایچ ایم پی فاؤنڈیشن کے ذریعے چلایا جانے والا موبائل کلینک بھروچ اور نرمدا کے نواحی علاقوں میں قبائلیوں کو طبی علاج فراہم کرتا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے ریاستی یونٹ کے کارکنان کی جانب سے تشکیل کردہ اسلامک ریلیف کمیٹی گجرات (آئی آر سی جی) نے کو کوانت، پنواڈ اور قبائلی اکثریتی ضلع چھوٹااودے پور کے دیگرکئی علاقوں میں مساجد اور مسلمانوں کے مکانات کو دوبارہ تعمیر کیا جن پر اشرار نے 2002میں بلڈوزر چڑھادیے تھے۔ آئی آرسی جی نے پنواڈ میں نصف درجن سے زائد قبائل کو جو نصف صدی قبل مشرف بہ اسلام ہوئے تھے دوبارہ بسایا ہے۔ انہیں فسادیوں نے اگرچہ جسمانی طور پر نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا لیکن ان کے گھروں کو مسمار کرکے انہیں گاوں سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ مقامی تاجروں نے مدھیہ پردیش سے متصل سرحد کے قریب قبائیلی پٹی کے قلب میں واقع چھوٹا اودے پور میں سینئر سکنڈری اسکول (سی بی ایس ای) تعمیر کروایا۔ آئی آر سی جی نے ضلع پنچ محلہ (گودھرا) میں موضع پندرواڑہ کے فساد زدگان کے لیے بھی مکان تعمیر کروائے اور مکمل دیہی آبادی کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے ایک بورویل کا انتظام کیا۔ اس سے قبل یہاں غریب ہندو ،دولت مند ہندووں کے بورویل سے پینے کا پانی خریدا کرتے تھے۔ تاہم آئی آر سی جی نے ہندوؤں اور مسلمان کے لیے کسی ادائیگی کے بغیر پانی کی سپلائی کو قابل رسائی بنادیا۔
زدنی علما ٹرسٹ (سابقہ بڑودہ ویلفیئرسوسائٹی)، جسے انسانی حقوق کے معروف جہدکار پروفیسر جوزر ایس بندوق والا نے ترقی دی، اس ادارہ نے غریب مسلم خاندانوں کے بچوں کو میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر پیشہ ورانہ کورسز کے لیے اسکالرشپس فراہم کی ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین جو پروفیسر بندوق والا کے انتقال کے بعد ٹرسٹ کے صدر بنے،انہوں نے بتایا کہ اب تک 5000 سے زائد طلباء ٹرسٹ سے مستفید ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر حسین کے مطابق، فائدہ اٹھانے والوں میں انجینئرنگ کے 1500 امیدواروں کے علاوہ ایم بی بی ایس اور پوسٹ گریجویٹ میڈیکل ڈگریاں حاصل کرنے والے تقریباً 1,000 امیدوار شامل ہیں۔ ٹرسٹ نے رواں تعلیمی سال کے دوران 65 لاکھ روپے بطور اسکالرشپ تقسیم کیے۔ ٹرسٹ کے فنڈز میں تعاون کرنے والوں میں نوبل انعام یافتہ وینکی رام کرشنن بھی شامل ہیں۔ٹرسٹ کی سرگرمیوں نے مسلم آبادی کے غریب طبقات کو تعلیمی طور پر بااختیار بنایا، انہیں معاشی اور سماجی طور پر ترقی دی، اور نئی نسل کے اندر انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں۔ چند سال پہلے، بڑودہ مسلم ڈاکٹرز ایسوسی ایشن(BDMA) نے زائد از تین کروڑ روپے خرچ سے CT اسکین، ایکسرے اور دیگر سہولتوں سے لیس ایک عصری تشخیصی مرکز قائم کیا تاکہ غریبوں کو مفت اور دیگر مریضوں کو رعایتی شرحوں پر طبی معائنوں کی سہولت فراہم ہوسکے۔
فسادات نے گجرات کے مسلم علما میں جدید تعلیم کی اہمیت و افادیت کے بارے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا کام کیا ہے۔ بڑودہ کے مضافات تانڈالیجا میں واقع مدرسہ دارالعلوم نے اپنے احاطے میں سی بی ایس ای سے منسلک ایک سینئر سیکنڈری اسکول قائم کیا ہے جس میں مدرسہ کے فارغین بھی عصری مضامین پڑھنے کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔ ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے فارغ التحصیل مفتی عمران نے پانی گیٹ کے مسلم اکثریتی علاقے میں لڑکیوں کے لیے فاطمہ زہرا اسکول قائم کیا۔
ڈاکٹر حسین کے مطابق کرناٹک میں حجاب تنازعہ نے مقامی مسلم آبادی کو مزید ہلا کر رکھ دیا ہے اور انہیں عدم فعالیت کی کیفیت سے باہر آنے پر آمادہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے مسلم علماء اب مزید عصری مسلم تعلیمی اداروں کے قیام پر غور کر رہے ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ مسلمان لڑکیاں اپنی ثقافت اور مذہب پر عمل کرتے ہوئے تعلیم حاصل کرسکیں۔ ڈاکٹر حسین کا کہنا ہے کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کے مدنظرموجودہ ادارے ناکافی ہیں۔
احمد آباد میں مقیم کارکن مجاہد نفیس جو گجرات اقلیتی رابطہ کمیٹی (جی ایم سی سی) چلا رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ فسادات کے دوران مسلمانوں کا حکومت پر سے اعتماد اٹھ گیا تھا۔مسلمانوں نے فنڈز اکٹھا کیا اور اپنے علاقوں میں اسکول وہسپتال قائم کیے اور دیگر بنیادی سہولتوں کا انتظام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اسکول اور طبی سہولتیں دینے کے بجائے مسلم اکثریتی علاقوں میں پولیس اسٹیشن اور چوکیاں قائم کر کے شہر کے مسلم رہائشی علاقوں کو بدنام کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر، احمد آباد کے جوہا پورہ میں، جو گجرات کا سب سے بڑا مسلم علاقہ ہے، ویجل پور پولیس اسٹیشن، کئی پولیس چوکیاں، اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس کا دفتر، اور گجرات کا اسپیشل آپریشن گروپ (SOG) سنٹر واقع ہے جبکہ جوہا پورہ میں جرائم کے واقعات پڑوسی غیر مسلم علاقوں کے مقابلے میں نہایت کم ہیں۔ ایس او جی کو جوہا پورہ کے قلب میں ایک زرعی کالج کے احاطے میں قائم کیا گیا ہے۔ اس کالج کو بند کرنے پر مقامی مسلمانوں نے مطالبہ کیا تھا کہ اسکول چلانے کے لیے جگہ کسی ٹرسٹ کو دی جائے، لیکن ریاستی حکومت نے انکار کردیا اور اس کے بجائے وہاں ایس او جی دفتر قائم کیا گیا ہے۔ نفیس کے مطابق، پولیس سنٹرس کی کثرت مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کرتی ہے۔
شدید مشکلات اور ریاستی حکومت کے رویہ اور کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہونے کے باوجود احمد آباد میں مسلم این جی اوز اور دوسروں کی محنت سے حالات بہت بہتر ہوئے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے کارکن افضل میمن کی سربراہی میں گجرات سروجنک ویلفیئر ٹرسٹ نے شہر میں شمع گروپ آف اسکولز کے تحت سات سینئر سیکنڈری اسکولوں کی ایک چین بنائی ہے، نیز باپو نگر میں ایک نوتن بھارتیہ ودیالیہ اور فاروق اعظم اسکول کی دو شاخیں ، ایک فزیوتھراپی کالج، ایک B.Sc. نرسنگ کالج، ایک جنرل نرسنگ کالج، اور ایک اے این ایم پیرا میڈیکل کالج قائم ہے۔ ان کے ٹرسٹ نے جمال پور میں جدید ترین طبی آلات اور چوبیس گھنٹے ہنگامی سہولتوں کے ساتھ الشفاء ہسپتال بھی قائم کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’فساد نے مسلم کمیونٹی کو بری طرح برباد کر دیا تھا۔ لیکن چیزیں اب نظر آ رہی ہیں‘‘ ۔ میمن کے مطابق فسادات کے بعد تعلیم کے بارے میں بیداری میں اضافہ ہوا ہے لیکن مسلمان اب بھی تعلیم میں بہت پسماندہ ہیں۔ ان کا احساس ہے کہ مسلم لڑکے اور لڑکیوں کے تعلیم میں پیچھے رہنے کی بنیادی وجہ غربت ہے۔ احمد آباد کے مسلمانوں نے ہندوؤں کے ٹرسٹ کے زیر انتظام دو اسکول خریدے۔ ہندو انتظامیہ انہیں چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی کیونکہ ان اداروں میں مسلم طلباء کی تعداد 90 فیصد سے زیادہ ہو چکی تھی۔ لیکن ہندو مالکان کو ان دونوں اداروں کو بیچنے اور مسلم گروپوں کو منتقل کرنے پر سراہا جانا چاہیے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عام طور پر ہندو مسلمانوں سے دشمنی نہیں رکھتے۔ جہاں ان میں سے ایک، شانتی نکیتن اسکول، مسلم اکثریتی جوہا پورہ اور ہندو اکثریت والے ویجل پور کے درمیان سرحدوں پر واقع ہے، انکور اسکول ایک بڑے بازار اور صدفیصد ہندو محلے میں واقع ہے۔ احمد آباد میں مرزا پور کے سینٹ زیویئرس اسکول میں مسلم طلباء کی تعداد تقریباً 90 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں مسلمانوں کی طرف سے طلب میں اضافہ ہوا ہے وہیں ہندوؤں کی جانب سے تبدیلی مذہب کے منفی پروپیگنڈے کے باعث ہندووں نے اپنے بچوں کو عیسائی اداروں میں بھیجنے سے گریز کیا گیا ہے۔ یہ اسکول ایک مسلم اکثریتی علاقے میں واقع ہے۔
قدیم احمد آباد کے دریا پور میں ایک بڑے ہسپتال کے علاوہ عراق ہاسپٹل اور آمنہ خاتون ملٹی اسپیشلٹی ہاسپٹل جیسے کئی دیگر ادارے جوہاپورہ میں وجود میں آئے ہیں۔ مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 2002 کے بعد مسلم علاقوں میں کئی اسکول اور ڈسپنسریاں بھی قائم ہوئیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی مدد سے گجرات کے مسلمانوں نے بھی ہمت کے ساتھ انصاف کے حصول کے لیے طویل قانونی جنگ لڑی۔ تیستا سیتلواڑ، ایک نامور گجراتی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور ممبئی میں مقیم ہیں، غریبوں اور مظلوموں کے انسانی حقوق کے دفاع کے لیے اپنے مضبوط عزم کی وجہ سےگجرات کے مسلم خاندانوں میں ان کا کافی نام ہے۔
2002 کے گھناؤنے جرائم بشمول احسان جعفری سابق ایم پی کے بہیمانہ قتل کے لیے کسی کو بھی پھانسی نہیں دی گئی، البتہ بہت سے لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، اور ان میں سے کئی جیلوں میں اپنی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ ملک میں کسی بھی فرقہ وارانہ فسادات میں اتنی بڑی تعداد میں ملزمین کو کبھی سزا نہیں دی گئی ہے۔ گجرات میں نریندر مودی کابینہ میں بچوں اور خواتین کی ترقی کی وزیر مایا کوڈنانی کو گرفتار کر لیا گیا اور انہیں 28 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ انہیں نرودا پاٹیا قتل عام کیس کی سرغنہ کہا جاتا تھا۔ تاہم، انہیں جولائی 2014 میں جب بی جے پی نے وزیر اعظم کے طور پر مودی کے ساتھ مرکز میں اقتدار حاصل کیا،گجرات ہائی کورٹ نے بری کر دیا تھا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) نے ان کی برأت کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا۔
مودی کو ایسے واحد برسر عہدہ وزیر اعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہے جن سے فسادات میں ان کے کردار کے لیے مسلسل نو گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ دیگرافراد، جن سے تفتیش کی گئی، ان میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران ریاست کے وزیر داخلہ رہ چکے گوردھن زدافیہ بھی شامل تھے۔ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی طرف سے فسادات میں مودی اور ان کے وزراء، کئی بی جے پی ارکان اسمبلی، آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسروں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے ’’وسیع تر سازش‘‘ کے بارے دائر کردہ عرضی ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ اگرچہ سیاسی ملزمین کو مختلف عدالتوں سے کلین چٹ مل چکی ہے، لیکن سپریم کورٹ میں ذکیہ جعفری کی عرضی ہنوز ان کے تعاقب میں ہے جس سے انصاف کے لیے لڑنے کے گجراتی مسلمانوں کے عزم و ثبات کی نشاندہی ہوتی ہے۔
***

 

***

 2002ء میں ہونے والے مسلم کش فسادات نے، جسے گجرات نسل کشی بھی کہا جاتا ہے، گجرات کے مسلمانوں کو مکمل طور پر تباہ وبرباد کر دیا تھا۔ ان فسادات میں دو ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اپنے کاروبار سے محروم ہو کر فقیر بن چکی ہے۔ ہندو اکثریتی علاقوں میں ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی یا بلڈوزر چڑھا دیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پانچ لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔ کسی بھی طبقے کے لیے اتنے بڑے صدمے سے ابھرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے، لیکن گجراتی مسلمان پوری ہمت اور عزم وحوصلے کے ساتھ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس وقت بہتر پوزیشن میں ہیں۔ وہ مخالف سیاسی حالات کے باوجود کچھ اہم ملزموں کو سزا دلوانے میں بھی کامیاب رہے۔ گجراتی مسلمانوں کی ہمت ہی کی بدولت مودی سے بطور وزیر اعلیٰ فسادات کے سلسلے میں نو گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ ایک انتہائی مخالف سیاسی ماحول میں گجراتی مسلمانوں کی کامیابیوں کی روداد امید اور حوصلہ پیدا کرتی ہے جو کسی بھی طبقہ کے لیے مایوسی اور ناامیدی کے ماحول میں بڑے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے والی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  6 تا 12 مارچ  2022