گارگی کالج ، جامعہ ، جے این یو اور قومی یوم نسواں
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
خواتین کا عالمی دن ۸ مارچ کو منایا جاتا ہے۔ خواتین کے تئیں تفریق و امتیاز کا خاتمہ، ان کے لیے ملازمت اور سرکاری دفاتر میں عہدوں کے حق کی خاطر ۱۹۱۱ میں اس دن اولین مظاہرہ ہوا تھا۔ دین اسلام نے بغیر کسی احتجاج کے انہیں ۱۴ سو سال قبل ہی ان تمام حقوق سے نواز دیا جن کا وہ اس وقت تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں، جبکہ اقوام متحدہ نے محض ۱۹۷۵ سے اس دن کو یوم خواتین کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ وطنِ عزیز میں اس تاریخ سے انحراف کرتے ہوئے بلبل ہند اور خواتین کی سب سے طاقتور آواز سروجنی نائیڈو کے یوم پیدائش ۱۳ فروری کو یوم نسواں کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر ہر سال اس دن علامت کے طور رسماً کچھ تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، لیکن شاہین باغ کی خواتین نے حقیقی معنیٰ میں یوم نسواں کا حق ادا کر دیا۔ شاہین باغ کی مظاہرہ کرنے والی خواتین نے نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر اپنی طاقت کا لوہا منوا لیا۔
شاہین باغ کی تحریک نے ملک بھر میں عزم و حوصلے کے بے شمار چراغ روشن کیے۔ لیکن افسوس کہ گارگی کالج سانحہ نے دارالخلافہ کے چہرے پر پھر ایک بار کالک پوت دی۔ یوم نسواں کے ایک ہفتہ قبل دہلی یونیورسٹی کے گارگی کالج کی طالبات کے ساتھ کھلے عام فحش ترین انداز میں چھیڑ خانی کی گئی۔ وہ بیچاریاں نہ تو اشتراکی تھیں کہ جن پر ہندو راشٹر میں اربن نکسل ہونے کا الزام لگا کر ہر طرح کا ظلم جائز قرار دے دیا جائے اور نہ جامعہ کے طالبات کی مانند لباس سے پہچانی جاتی تھیں کہ جن پر قوم دشمنی کا لیبل لگا کر سرکاری زیادتی مباح کردی جائے۔ گارگی کالج کی طالبات تو اپنے سالانہ تقریب میں شریک تھیں۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مودی یگ میں دہلی کے اندر زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ دہلی جس کی پولیس ایک ایسے وزیر داخلہ کے ماتحت کام کرتی ہے جس کے سر پر انتخاب جیتنے کا جنون کچھ اس طرح سوار ہے کہ اسے اس کے علاوہ کچھ اور سوجھتا ہی نہیں۔
گارگی کالج میں 6 فروری 2020 کو سالانہ جشن کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوران نشے کی حالت میں کچھ بدمعاشوں نے کالج کے صدر دروازے پر ہنگامہ کیا اور اندر گھس گئے۔ ان بدمعاشوں نےطالبات کے ساتھ ’ریاپڈ ایکشن فورس‘ اور دہلی پولیس کی موجودگی میں چھیڑ چھاڑ کی۔ ان کے ساتھ دست درازی اور ہاتھا پائی بھی کی گئی۔ اس طوفانِ بدتمیزی کے خلاف وکیل ایم ایل شرما سپریم کورٹ پہنچ گئے لیکن وہاں سے دہلی ہائی کورٹ جانے کی ہدایت لے کر ناکام لوٹے۔ شرما نے اپنی عرضی میں گزارش کی ہے کہ گارگی کالج احاطہ کے آس پاس کے کیمروں کی جانچ ہو اور سی سی ٹی وی ریکارڈنگ کی مدد سے مجرموں کو گرفتار کیا جائے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ مجرمانہ سازش کے پیچھے کچھ لیڈروں کا ہاتھ ہے۔ یہ الزام اگر درست ہے تو شاہ جی کی دہلی میں یہ جرأت زعفرانیوں کے علاوہ کون کرسکتا ہے؟
مفاد عامہ کی عرضی داخل کرنے والے وکیل ایم ایل شرما نے دورانِ سماعت اس معاملے کی تفتیش سی بی آئی سے کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ ہائی کورٹ کی سماعت میں وقت لگ سکتا ہے اس دوران الیکٹرانک شواہد کو یا تو ختم کیا جاسکتا ہے یا پھر ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے۔ یعنی ملزمین کی رہائی کا راستہ صاف کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے سی بی آئی کو ملوث کرنے کا مطالبہ تسلیم تو کیا مگر اس کے باوجود ڈھائی ماہ کا وقت دے دیا۔ ان سنگین الزامات کے باوجود عدالت نے کالج کا دروازہ توڑ کر زبردستی کالج کے کیمپس میں گھسنے والے سبھی دس ملزمین کو دس 10 ہزار روپے مچلکے کی ضمانت پر رہا کر دیا مگر ساتھ ہی مرکزی حکومت، دہلی پولیس اور سی بی آئی کو ۳۰ اپریل تک جواب داخل کرنے کے احکام جاری کیے۔ ایسے میں ’بیٹی بچاو، بیٹی پڑھاو‘ کا نعرہ لگانے والی پاکھنڈی سرکار کے سارے وعدے اور یقین دہانیاں ہوا ہوگئیں۔ امیت شاہ نے جب سے وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالا ہے دہلی میں یہ معمول ہوگیا ہے کہ پولیس یا تو خود زیادتی کرتی ہے یا زیادتی کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہے۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلباء کو نومبر ۲۰۱۹ میں پولیس کے تشدد کا شکار ہونا پڑا کیونکہ وہ فیس میں اضافہ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور پھر دوبارہ جنوری میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ صدارتی محل کی جانب مارچ کر رہے تھے۔ اس بربریت کی اور بھی وجوہات تھیں مثلاً حکومت کی نظر میں وہ اربن نکسل ہیں۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ وہ غدارِ وطن ہیں اور ودیارتھی پریشد کو ووٹ نہیں دیتے۔ اس لیے ان پر نقاب پوش غنڈوں سے بھی حملہ کروایا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے اس حملے میں ’آج تک چینل‘ نے اے بی وی پی کی خاتون کارکن کومل شرما کو بھی حملہ آور کے طور پر پہچان لیا۔ جامعہ کے طلباء نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف آواز اٹھائی تو ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے پولیس کے ذریعہ کارروائی کی گئی۔ جامعہ کے طلبا نے ایوان پارلیمان کی جانب جلوس کی شکل میں جانے کی کوشش کی تو طلبہ اور طالبات کے خلاف ایسی درندگی کا مظاہرہ کیا گیا کہ جس کا کسی مہذب معاشرے میں تصور بھی محال ہے۔ جامعہ میں بھی بندوق بردار غنڈوں کی مدد سے دہشت پھیلانے کی کوشش کی گئی جو کہ ناکام ہو گئی لیکن اس میں ایک طالب علم زخمی ہوا۔
اب تو 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں دہلی پولیس کے ذریعہ کی جانے والی توڑ پھوڑ کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی انتظامیہ نے وزارت برائے فروغ انسانی سے ڈھائی کروڑ روپے کا ہرجانہ طلب کیا ہے۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ پولیس نے اپنے کالے کرتوت چھپانے کے لیے کارروائی کے دوران ۲۵؍ سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑ دیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری لیکن جو بچ گئے انہوں نے شاہ جی کی شہنائی بجا دی۔ جامعہ انتظامیہ کے مطابق پولیس نے لائبریری کے دروازے، وہاں رکھیں میزیں اور کرسیاں، ٹیوب لائٹس، پنکھے، کچھ کمروں کے اے سی یونٹس،بکوریڈور میں رکھا گیا سامان، لائبریری کے مختلف اشیاء، سی سی ٹی وی کیمرے، کانچ کے ٹیبل اور ایسی ہی دیگر چیزوں کو وحشیانہ کارروائی سے نقصان پہنچایا۔ جامعہ انتظامیہ نے سامان کا پنچ نامہ کے بعد تخمینہ بنا کر اسے وزارت کو سونپا۔
مرکزی حکومت اور یو پی کی سرکار کو عوامی ملکیت کے نقصان کی چنتا بہت ہے۔ جامعہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ سیکورٹی اہلکار بغیر اجازت کیمپس میں داخل ہوئے اور لاٹھی، ڈنڈوں سے طلبا پر حملہ کرنے کے بعد عوامی ملکیت کو تباہ کیا۔ جامعہ کی ویڈیوز اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے منظرِ عام پر آنے کے بعد انتظامیہ کو یہ اقدام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ دہلی کے اندر تین مرتبہ جے این یو کے طلباء پر حملہ ہوا۔ دو مرتبہ پولیس نے ان پر تشدد کیا ایک مرتبہ پولیس نے حملہ آوروں کو تحفظ فراہم کیا۔ جامعہ کے طلباء پر بھی دو بار پولیس نے بدترین تشدد کیا اور تیسری بار گولی چلانے والے کو گلے میں ہاتھ ڈال کر لے گئی۔ اس کے بعد گارگی کالج کی طالبات کے ساتھ غنڈو ں نے بدسلوکی کی پولیس والے خاموش تماشائی بنے رہے۔ کیا یہی رام راجیہ ہے اور کیا یہی ہندو راشٹر ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ امیت شاہ کو پہلی فرصت میں استعفیٰ دے کر پرچون کی دوکان کھول لینی چاہیے اس لیے کہ ملک چلانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
دہلی کی یہ بدترین صورتحال اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ انسان اگر کسی پیشے سے طویل عرصہ تک منسلک رہے تو اس کی عادات و اطوار متاثر ہوتے ہیں مثلاً اساتذہ وقت بے وقت لکچر دینے لگتے ہیں اور پولیس والے بلا وجہ ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگتے ہیں۔ ورن آشرم کی لعنت نے برسہا برس تک مختلف قوموں کو مخصوص پیشوں سے وابستہ کر دیا اس لیے ان کا مزاج اسی کے مطابق ڈھل گیا۔ بنیے صدیوں سے تجارت کر رہے ہیں اور جوڑ توڑ کرکے نوٹ گنتے رہتے ہیں۔ شاہ جی سیاست میں آئے تو یہاں بھی نوٹ کے ساتھ ووٹ گننے لگے۔ ویسے کہنے کو وہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں مگر ملک کا نظم و نسق چلانے میں نہ تو ان کو دلچسپی ہے اور نہ یہ ان کے بس کا روگ ہے۔ وہ تو اچھا ہے کہ ملک بھر کی پولیس صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہے اور صرف دہلی کی پولیس شاہ جی کے تحت کام کرتی ہے ورنہ پولیس ظلم سے پورے ملک کی عوام کا دن کا چین اور رات کا سکون حرام ہو جاتا۔