کہیں ہم اپنا حوالہ خود ہی نہ کھودیں
استاذ احمد ریسونی، ممتاز فقیہ اور صدر عالمی یونین براے مسلم علما)
(ترجمہ: شعبہ حسنین ندوی، [email protected])
زیر نظر مضمون میں استاذ احمد ریسونی نے اسلامی تحریکات کے ڈسکورس اور انداز گفتگو کے سلسلے میں ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے، گفتگو مراکش اور عرب ملکوں کےسیاق میں زیادہ ہے، تاہم ہندوستان میں بھی اصلاحی اور دعوتی ڈسکورس کے بارے میں اس کا خیال ضروری ہے کہ ہماری گفتگو کا اصل امتیاز ہمارا اسلامی حوالہ ہی ہے۔ مشترک سماج کی سیاسی و سماجی مہمات میں، باقی ہم وطنوں کے ساتھ قدر مشترک کے حصول کے لیے مشرقی روایات، سیکولر اقدار، دستوری حقوق، وغیر جیسے امور کو بھی بنیاد بنانا پڑتا ہے لیکن جہاں تک ہماری دعوت اور اصل ڈسکورس کا تعلق ہے، یہ بات واضح رہنی ضروری ہے کہ اسلام کے اصل حوالوں کے بغیر وہ کبھی مکمل نہیں ہوسکتی۔
حالیہ برسوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے مقررین اور اہل قلم کے یہاں اسلامی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے اسلامی حوالے کا ذکر واضح طور پر سکڑتا جارہا ہے۔ اسلام پسندوں کے ڈسکورس میں یہ حوالہ اب دھندلا اور پردے میں چھپا رہنے لگا ہے، اور اس کی جگہ دیگر رائج سیاسی، ثقافتی اور قانونی حوالوں نے لے لی ہے۔
اسلامی تحریکات، جماعتوں اور ان کے بطن سے نکلنے والے آزاد یا نیم آزاد اداروں کی بعض آفیشیل گفتگووں میں قرآن، حدیث، شرعی احکام اور علما کا حوالہ حیرت انگیز طور پر یا تو بالکل موجود نہیں ہوتا یا پھر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ بسا اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک اسلامی اسپیکر کسی چینل، تقریر، ڈسکشن یا مقالے میں جس موضوع پر گفتگو کر رہا ہوتا ہے عین اس سے متعلق بہت واضح قرآن کی آیتیں اور احادیث اس کے روبرو موجود ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس موضوع سے متعلق آیات واحادیث اور اسلامی حوالوں کے ذکر سے گریز کرتا ہے۔ یہ صورت حال اسلامی رنگ کو کم زور کرتی ہے اور رفتہ رفتہ اسے دور ہٹادیتی ہے۔ یہ صورت حال گرچہ ابھی محدود دائرے میں ہے، لیکن اگر یہی صورت حال برقرار رہتی ہے تو اس کے دور رس اثرات ابھی سے محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
اسلامی حوالوں سے گریز کرکے دیگر حوالوں کو (جو مجموعی طور پر قابل قبول ہوتے ہیں اور ہمارا ان سے بہت سی چیزوں میں اشتراک بھی ہوتا ہے) اختیار کرنے کے رویہ کا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم کچھ شرعی احکام کو ترک کربیٹھیں اور صرف انھی شرعی احکامات کو اختیار کریں جن کا ذکر دیگر حوالوں میں ملے۔
مثال کے طور پر کفالت کرنے کی خاطر یا گود لینے کی غرض سے مراکش کے مسلم بچوں کو غیر مسلم غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کی جب ہم مخالفت کرتے ہیں تو اس وقت ہمیں بتانا چاہیے کہ ہمارے نزدیک اس کی دینی وجہ ہی حقیقی وجہ ہے۔ ہاں ساتھ ہی ساتھ ہم اس سلسلہ میں قانونی پہلو اورقومی خود مختاری کے پہلو کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ملک کے قانون اور اس کی خود مختاری کا احترام اور اس کی حفاظت بھی ضروری امر ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ مسلم بچے مراکش سے نکل کر غیر مسلموں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے تو وہ اسلام سے قطعی طور پر دور ہو جائیں گے۔ جو شخص بھی ان بچوں کو غیر مسلم غیر ملکیوں کے سپرد کرتا ہے یا اس سے اتفاق رکھتا ہے وہ درحقیقت مسلم بچوں کو اسلام سے دور کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ اس مسئلہ میں ہمارے اعتراض کی اصل وجہ یہی ہے۔ دینی وجہ بیان کرنا ہی ہمارے موقف کو پختگی فراہم کرتا ہے۔ کیون کہ قومی خود مختاری اور ملکی قانون میں تبدیلی کا امکان رہتا ہے۔ لہذا اگر متعلقہ قانون میں ملکی حکومت تبدیلی کر دیتی ہے تو اس صورت میں ہمارے پاس اعتراض کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جائے گی۔ اسی طرح گود لینے سے متعلق اس مسئلہ پر اگر ملکی حکومت اپنی موافقت کی مہر ثبت کر دیتی ہے تو اس صورت حال میں قومی خود مختاری کا معاملہ بھی جاتا رہے گا۔ کیونکہ حکومت نے اپنی مرضی سے اس مسئلہ کو اختیار کیا ہے۔ خود مختاری کی خلاف ورزی اس وقت ہوتی ہے جب کسی کام کو حکومت کی مرضی کے خلاف زبردستی اور دباو بنا کر کیا جائے۔ ان جیسے مسائل میں شرعی عنصر ہی ٹھوس اور ناقابل تبدیل ہے، یعنی جو عمل مسلم بچوں کی دین سے محرومی کا سبب بنے انھیں حلال سے حرام اور تقوی سے فسق وفجور کے ماحول میں لے جائے وہ شرعا حرام اور ممنوع ہے۔ ہماری گفتگو اور موقف کے بنیادی عناصر ان شرعی حوالوں سے عبارت ہوں۔
اس طرح میلے اور فیسٹیول پر یہ تنقید درست ہے کہ مال عام کا ضیاع ہوتا ہے، اس کے ذریعہ تہذیبی تسلط کو راہ ملتی ہے، اور یہ کہ یہ فیسٹیول امتحان کے دنوں میں آتے ہیں، لیکن بس یہی کچھ تو نہیں ہوتا ہے، ہماری جانب سے ان کی مخالفت کی سر فہرست وجہ یہ ہے کہ یہ فیسٹیول اخلاق کو برباد کرنے اور دین داری کو کم زور کرنے کا سبب ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ اسباب پیش نظر اور بنیادی ہونے چاہئیں۔
اسلامی بینکوں کے قیام میں تیزی لانے کا مطالبہ بھی ہم صرف اس لیے نہیں کرتے کہ اس سے باہر کی سرمایہ کاری آئے گی اور اس سے لوگوں کو روزگار ملے گا، یہ وجوہات بھی اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس مطالبہ کا سب سے پہلا محرک یہ ہے کہ ہم جتنا ہوسکے اپنے معاملات، قوانین اور شہریوں کو سودی لین دین کی لعنت اور حرام کی تنگی سے نکال کر حلال کی کشادگی میں لانا چاہتے ہیں۔
ڈسکورس کے اس رخ کا ایک مظہر آخرت کے ذکر سے گریز بھی ہے، جب ہم مفسدین اور مجرمین کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، اور ان کے اوصاف، افعال، اداروں اور منصوبوں کا ذکر کرتے ہیں یا پھر مصلحین اور محسنین کا ذکر کرتے ہیں، اس بات کا ذکر نہیں کرپاتے ہیں کہ بالآخر سب کو اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے اور سبھی کے حق میں جنت اور جہنم، عذاب یا آسائش وآرام کا، مشکل حساب یا آسان حساب کا انجام سامنے آنا ہے۔ یہ معلوم حقیقت ہے کہ آخرت ہمارے عقیدے، ہمارے تصورات اور ہمارے اعمال کا ایک بڑا ستون ہے۔ آخرت ہی ایک مسلمان کو کسے کام کے کرنے پر ابھارنے یا کسے کام سے روکنے کا بنیادی محرک ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں آخرت کے تذکرے کو بہت بڑی جگہ دی گئی ہے۔ آخرت کے دن کے بارے میں اور جو کچھ پیغام اس کی تہہ میں ہے اس کا ہم نہ تو تذکرہ کم کرسکتے ہیں، نہ اس کی معنویت محدود کرسکتے ہیں، اور نہ اس کی اہمیت کو گھٹا سکتے ہیں۔
اسی قبیل سے اسلامی اور شرعی اصطلاحات کے استعمال سے گریز کرنا اور ان کی جگہ متبادل اصطلاحات کا استعمال کرنا بھی ہے۔ حالانکہ دونوں ہی طرح کی اصطلاحات کا ایک ساتھ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہم یاد کرسکتے ہیں کہ مصر کے بعض سیاست داں اور مخالفین شرعی اصطلاحات مثلا حلال، حرام، عفت، تقوی اور فسق وفجور کے استعمال کے خلاف مہم چلاتے رہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت کی رشوت کے خلاف مہم دیکھنے کو ملی، جس کا ایک سلوگن تھا: رشوت سے دور رہو”۔ یہ بڑی عام سی عبارت ہے اور اس سے مضحکہ خیز بھونڈا پن جھلکتا ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں کہتے: "رشوت لینے اور رشوت دینے والے کے اوپر اللہ کی لعنت ہوتی ہے”۔ یہ جملہ بہت طاقت ور، سخت اور روکنے والا ہے۔ یہ انسان کے ذہن کو فوری طور پر اللہ اور آخرت کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اور ایسے اقتدار کا حوالہ رکھتا ہے جو لوگوں پر ہمیشہ اثر انداز رہا ہے۔
شرعی گفتگو کو اپنے حوالے، اپنے مضامین اور اپنی اصطلاحات کے ساتھ نمایاں طور پر سامنے رہنا چاہیے۔ ہمیں یہ ضرور کہنا چاہیے کہ: زکات فرض ہے، شوری فرض ہے، رشوت حرام ہے، جوا حرام ہے، شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے، دھوکا دہی حرام ہے، جھوٹ بولنے والے جہنم میں جائیں گے، ہم زنا، فسق و فجور اور کفر کی مخالفت کرتے ہیں، بجائے دوسری ہلکی اور ٹھنڈی تعبیروں کے۔ جن کا اس کے سوا کوئی اثر نہیں ہوگا کہ اسلامی استعمالات اور اسلامی مضامین کی کمی ہوتی چلی جائے گی، اخیر میں میری درخواست ہے کہ اس آیت کو سامنے رکھیں کہ کہیں کبھی اس کا مصداق نہ بن جائیں: "وَاتْلُ عَلَیهِمْ نَبَأَ الَّذِی آتَینَاهُ آیاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّیطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِینَ” (الأعراف: 175) ۔■