کيوں شہر ميں ہيں اتنے گداگر۔ ۔ !!

بھکاريوں کي بڑھتي ہوئي تعداد کے ليے حکومتوں کي لاپرائي اور عوامي شعور کي کمي ذمہ دار

شجاعت حسيني، حيدرآباد

غير منظم تقسيم کو ايک سسٹم کے تحت منظم سخاوت ميں تبديل کرنے کي ضرورت
عزيز من رياض الحسن کے بدن ميں حسب معمول حاتم طائي کي روح حلول کرگئي اور نماز عيد بعد سر عام ويلٹ کھول ديا۔ اس سے پہلے کہ کوئي ممکنہ خطرے سے آگاہ کرتا کہ بھائي يہ اپني بستي نہيں, بلکہ شہر عظيم تر ہے,بات بہت آگے بڑھ گئ تھي۔ اب منظر يہ تھا کہ ايک بڑے دائرے کا مرکز موصوف کي سياہ خوب صورت ٹوپي تھي اور بقيہ بدن بليک ہول کي مانند اپني ہي ثقل (گريويٹي) ميں ڈوب کر يکسر اوجھل ہوچکا تھا۔
اور اس فراخ دل ستارے کے چہار سو کشکول اور کٹوروں کي بڑي کائنات محو گردش تھي۔ مزيد کئ دوڑتے ننھے "سيارچے” زبان حال سے اميد افزا اعلان فرماتے لپک رہے تھے کہ۔ ۔
يہ کائنات ابھي ناتمام ہے شائد
تفنن برطرف!
بات صرف حيدرآباد کي نہيں بلکہ ہندوستان کے بيشتر بڑے شہروں کي کيفيت سراپا سوال بني ہے کہ :
اے گردش مينائے شب و روز بتا کچھ
کيوں شہر ميں ہيں اتنے گداگر ترے ہوتے
راستے پر کہيں دو منٹ ٹھہرنا يعني پيشہ ور بھکاريوں کے ہجوم کو دعوت دينا ہے۔ يہ کيفيت سماج کے ليے مجموعي طور پر شرمناک ہے۔ ۔
عالمي ميڈيا کے چند گوشے تصويروں کا انتخاب کرکے بھارت کو سپيروں اور بھکاريوں کا ديش بنا کر پيش کرتے ہيں تو ترديد محال ہوجاتي ہے۔
ملکي منظر نامہ
گذشتہ مردم شماري ميں بھکاريوں کا ملک گير شمارياتي تجزيہ بھي شامل تھا۔ حکومت ہند نے ان اعداد و شمار پر مشتمل رپورٹ فروري 2015 ميں جاري کي تھي۔ (1)۔ اس تجزيے کے مطابق بنگال گداگري کے کلچر ميں سرفہرست ہے۔ اسي فہرست ندامت ميں اڑيسہ اور اترپرديش کے بعد آندھرا و تلنگانہ ( متحدہ آندھرا پرديش ) چوتھے نمبر پر موجود ہے۔ اونچے دعووں اور ڈالروں کي ريل پيل والي کارپوريٹ دنيا سے دور لکشديپ کا سادگي پسند سماج گداگري کي لعنت سے سو فيصد پاک ہے۔ رپورٹ مذہبي بنياد پر تجزيہ بھي پيش کرتي ہے۔ اس کے مطابق جين اور سکھ سماج ميں گداگري کا رجحان بالکل کم ہے ليکن ملک ميں ہر چوتھا بھکاري مسلمان ہے۔ ان اعداد و شمار اور بالخصوص مسلم سماج کي ’’ سبقت‘‘ کو ملکي ميڈيا نے بہت نماياں طور پر شائع کيا تھا۔ بڑے شہر اس وقت بلاشبہ گداگري کي لعنت ميں ڈوبےہوئے ہيں۔
دہلي، ممبئي اور حيدرآباد جيسے شہروں ميں ہر چند قدم پر پيشہ ور بھکاري کا سامنا ہوتا ہے۔ مستحق مسکينوں کي حق تلفي کي مرتکب پيشہ ور بھکاريوں کي اس فوج کے پاس وصولي کے بے شمار ڈھب ہوتے ہيں۔ کسمپرسي اور بے چارگي کي مجسم تصوير جيسے رستے زخم، چلچلاتي دھوپ ميں ننگے بدن فٹ پاتھ پر لوٹ کر ہمدردي لوٹنا، خوش پوشي اور نرم خوئي کے سہارے راہگير وں کي توجہ سميٹنا اور فوراً دست سوال دراز کرنا، جارحانہ چيخ پکار، احباب يا فيميلي گروپ کے درميان مسلسل مداخلت کے ذريعے عاجز ونادم کرنا، شہري آباديوں ميں لاوڈ اسپيکرس کے شورکے سہارے لوگوں کو مجبور کرنا، بچوں کو بھيک کا ذريعہ بنانا و، مذہبي چولا اوڑھ کر باباوں اور عاملوں کا روپ دھار کر پيسہ اينٹھنا وغيرہ۔ کئي لوگ اس ڈرامہ بازي کا شکار ہوکر اپني جيبيں الٹ ديتے ہيں۔ اور يوں عزت نفس کے مارے ہزاروں حقيقي مساکين اپنا حق گنوا بيٹھتے ہيں۔
ہمارے سماج ميں مساکين اور مستحقين کي ايک کثير تعداد يقيناً ان غيور افراد پر مشتمل ہے جن کي عزت نفس دست سوال دراز کرنے کي اجازت نہيں ديتي اور نہ ہي ہمارے پاس ان تک رسائي کا کوئي مضبوط اجتماعي ميکانزم ہے۔ سرعام مانگنے والوں ميں يقيناً کچھ لوگ مستحقين ميں شمار ہوسکتے ہيں۔ ليکن کئي تجزيات اور مشاہدات اس بات کے گواہ ہيں کہ کھلے عام مانگنے والوں کي اکثريت پيشہ ور بھکاريوں يا کام چوروں پر مشتمل ہوتي ہے جو معاشي ہمدردي کے مستحق نہيں ہوسکتے۔ اگلي سطروں ميں ہم انہيافراد کے رويوں اور علاج پرگفتگو کريں گے۔
آزاد انڈيا فاونڈيشن نے دہلي اسکول آف سوشل ورک کے حوالےسے ايک تفصيلي اسٹڈي شائع کي تھي۔ (2) اس اسٹڈي کو کئي ديگر اخبارات نے بھي نقل کيا۔ اس کے مطابق شہري آبادي کے کسي غريب اور بے بس شخص اور پيشے ور بھکاري ميں فرق ڈھونڈنا بڑ ا مشکل کام ہے۔ 66 فيصد بھکاري تنومند اور کمانے کے قابل ہوتے ہيں۔ 96 فيصد بھکاري، عام محنت کش شخص کے مقابلے ميں زيادہ کماتے ہيں۔ 81 فيصد بھکاري اپنے تئيں عوامي فراخ دلي سےخوش اور مطمئن تھے۔ بھکاريوں کي اکثريت نے اپنے ’’ پيشے ‘‘ کو منافع بخش اور نہايت قابل عمل قرار ديا۔ جہاں محنت کے مقابل مفت خوري زيادہ منافع بخش بن جائے تو ايسے ’’ فراخ دل ‘‘ سماج ميں بھکاريوں کي بڑھتي ہوئي تعداد تعجب خيز نہيں۔
کسي قوم ميں پيشہ ور بھکاريوں کے اضافي تناسب کا راست مطلب يہ ہے کہ انساني وسائل کا ايک بڑا حصہ نہ صرف يہ کہ استعمال نہيں ہوپارہا ہے بلکہ پروڈکٹيو انساني وسائل (محنت کش آبادي) پر اضافي بوجھ بنا ہوا ہے۔ اور انساني سماج کي ترقي ( تعليم و صحت وغيرہ ) کے ليے مختص وسائل کا بڑا حصہ کام چوري کي نذر ہورہا ہے۔ يہ وہ لوگ ہيں جن کا قوم کي معاشي ترقي ميں کوئي حصہ نہيں۔ اصولاً يہ حکومتوں کي ذمہ داري ہے کہ وہ اس شرمناک کيفيت سے سماج کو نجات دلائے ليکن ہماري حکومتيں اپني بے عملي اور بدعملي کو اونچي ديواروں کے پيچھے چھپا دينے ميں يقين رکھتي ہيں۔
بڑے شہروں ميں گداگروں کا غير معلنہ نظام ہوتا ہے۔ ان کي جغرافيائي حدود طے ہوتي ہيں۔ نئے بھکاري کو سخت تفتيش سے گذرنا ہوتا ہے۔ ’’ تربيت ‘‘ کا سسٹم بھي ہوتا ہے جسميں جگہ کا انتخاب، مخاطب کو مجبور کرنے کے حربے وغيرہ شامل ہيں۔ اپني جگہ کو کرائے پر دينے کے اصول طے ہيں۔ ان کے درميان ہر محلے کا ايک خود ساختہ ليڈر بھي ہوتا ہے۔ جس کي نظر سے ديگر بھکاريوں کي آمدني اور حرکات نہيں چھپ سکتيں۔ اس سے آگے بڑے شہروں ميں يہ ’’ نظام‘‘ مافيا بن جاتا ہے۔ اغوا، تشدد، چائلڈ ٹريفکنگ، اپاہج بناکر بھيک وصول کرنا جيسي مذموم حرکتيں کئي صحافيوں نے نہ صرف نوٹ کيں بلکہ انہيں آشکار بھي کرچکے ہيں۔
وجوہات۔ ۔
کام چوري اور مفت خوري
گداگري زندگي گذارنے کا ايک سب سے سستا فارمولہ ہے۔ يعني جسماني محنت، فکر معاش، کام کا تناو اور آجرانہ پابنديوں سے مکمل آزادي بس عزت نفس کي قرباني کے عوض ! جب يہ آسان فارمولہ محنت کے مقابل زيادہ منافع بخش ٹھہرتا ہے تو کم ہمت محنت کش لوگ بھي گداگري کي طرف مائل ہوتے ہيں۔ ہمارے سماج ميں يہ الٹي گنگا بھي خوب بہہ رہي ہے۔ جے اين يو کي محقق سبينہ ياسمين نے اس موضوع پر دل چسپ تحقيق کي۔ وہ کہتي ہيں کہ دہلي اور ممبئي کے 70 في صد گداگر پہلے کسي معاشي سرگرمي ميں مصروف ہو اکرتے تھے بعد ميں انھوں نے گداگري کا راستہ اپنايا۔ (3)۔ انٹرنيشنل جرنل آف مينيجمنٹ اينڈ سوشل سائنس کي سوالنامے پر مبني ايک تحقيق (4) کے مطابق جب انہيں باعزت کام کي پيشکش کي گئي تو انھوں نے صاف ٹھکراديا۔ حيدرآبادي اسکالر ڈاکٹر رفيع الدين نے دو سال پر مشتمل ايک تفصيلاً سروے اور اسٹڈي 2008 ميں کي تھي۔ اس اسٹڈي کے نتائج کو ٹو سرکل، ريڈيف اور انٹرنيشنل جرنل آف مينيجمنٹ اينڈ سوشل سائنس نے شائع کيا تھا (5) اسٹڈي کے مطابق اس وقت ملکي سطح پر دي جانے والي بھيک 180 کروڑ سے زائد تھي۔ اور کئي گداگروں کي ماہانہ آمدني 24000 روپيوں سے زيادہ تھي۔کمائي کے حوالے سے کئي باعزت روزگار وںکو پيچھے چھوڑنے والے اس کاروبار کا آج 14 سال بعد حجم کيا ہوگا، سمجھا جاسکتا ہے۔
بري عادتيں
اسي سروے کے مطابق بھيک ميں ملنے والي رقم کا محض 20 في صد غذا پر صرف ہوتا ہے۔ جب کہ ان کي اکثريت کم و بيش 30 في صد رقم نشہ خوري پر صرف کرتي ہے۔ نشہ خوري ان خاند انوں کے مرد اراکين کو مزيد نکما اور جھگڑالو بناديتي ہے۔ سماج کي زيادہ ہمدردي اور زيادہ بھيک سميٹنے کے ليے ايسے لوگ عورتوں اور بچوں کو مانگنے کے ليے دوڑاتے ہيں۔ بمبئي کي ايک اين جي او نے ايسے خاندانوں کي تحقيق کي تو بڑے چشم کشا حقائق سامنے آئے۔ (6) ان خاندانوں ميں زيادہ پيسہ بٹورنے کے ليے پر تشدد لڑائياں اور جنسي بے راہ روي عام ہيں۔ ان گداگروں کے بچے سات آٹھ سال کي عمر سے چھوٹي موٹي چوريوں کي مشق شروع کرديتے ہيں۔ بري عادتوں کي لت اور بھيک کا راستہ وقت کے ساتھ ان کے ليے لازم و ملزوم ہوجاتا ہے۔
مذہبي جذبات کا استحصال
ہر مانگنے والے کو کچھ نہ کچھ دے کر ثواب کمانے کا رجحان بھي گداگري کے فروغ کا اہم سبب ہے۔ مذہبي عبادت گاہوں کے باہر گداگروں کي بھيڑ، باباوں کے آستانوں پر نوازشوں کي برسات اسي استحصالي رجحان کي عکاس ہے۔ کاونٹر ويو (14 فروري 2019) نے ايک دل چسپ مشاہدہ رقم کيا تھا کہ تھا برہمن بھکاري کسي اور گداگر کے مقابل زيادہ خوش حال ہوتے ہيں کيوں کہ عوام کے نزديک انہيں دان دينا زيادہ ثواب ( پنيہ ) کا باعث ہوتا ہے۔ مسلمانوں ميں بھي ثواب کےکچھ اسي مبہم تصور نے مذہبي گداگري کو خوب فروغ ديا۔ کسي عام مسکين کے مقابل مذہبي چولا اوڑھ کر ڈرامہ بازي کرنے والے پير بابا سب کچھ سميٹ لے جاتے ہيں۔ رسول اللہ ﷺ کا يہ مبارک ارشاد مخيرين کے پيش نظر رہنا چاہيے کہ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا فِي الْمَسْأَلَةِ مَا مَشَى أَحَدٌ إِلَى أَحَدٍ يَسْأَلُهُ شَيْئًا ‏۔ ‏ مانگنے کي خرابي لوگ جان ليں تو کسي دروازے پر جانے کي ہمت نہ کريں۔ ( نسائي ) مذہبي چولا خواہ کتنا ہہي مقدس نظر آئے، مذکورہ حديث کے الفاظ ايسے لوگوں کي حقيقت بيان کرنے کے ليے کافي ہيں۔
عوامي شعور کا فقدان
عوامي شعور کا فقدان بھي گداگري کے فروغ کا ايک اہم سبب ہے۔ سائل کي مدد سے انکار يقينا ً ايک قبيح عمل ہے، ليکن ہم نے تمام پيشہ ور بھکاريوںکو سائل تصور کرليا۔ دان اور خيرات سے جڑا يہ مبہم رويہ اس مسئلہ کا بڑا سبب ہے۔ جو ہزارہا تنو مند لوگوں کو کام چور اور مفت خور بنا رہا ہے۔ مغربي ممالک اور بھارت ميں چيريٹي کے عمل ميں ايک بنيادي فرق ہے، وہ يہ کہ مغربي ممالک کا متمول ترين طبقہ ( بلينيرس ) چيريٹي کے معاملے ميں عوام سے کہيں آگے ہے اس طرح وہاں خيراتي رقم کا بڑا حصہ بڑي کارپوريشنس اور ان کے مالکين کي جيب سے آتا ہے اور جس کا خرچ بھي(ان کي اپني اجتماعي پاليسي اور ترجيحات کے مطابق) نسبتاً زيادہ منظم ہوتا ہے۔ ہمارا ملک بلينيرس کي تعداد کے معاملے ميں کئي ترقي يافتہ ممالک سے کہيں آگے ہے۔ ليکن يہاں کے ارب پتي صنعتکار ( عظيم پريم جي جيسے چند افراد کے استثنا کے ساتھ ) بالعموم تنگ دل واقع ہوئے ہيں۔ يہاں کي عوام زيادہ فراخدل ہے ليکن ان کي خيرات اتني ہي غير منظم ہے۔ چين اور برازيل جيسے بڑے ترقي پذير ممالک کے مقابل بھارت ميں خيرات کا تناسب ( جي ڈي پي کے مقابل ) بالترتيب 6 اور 3 گنا زيادہ ہے۔ ليکن اس ميں بڑا حصہ عوامي ڈونيشن کا ہے۔ (7)۔ ملکي سطح پر اس حوالے سے مسلم ملت زيادہ فراخ دل اور غير منظم ثابت ہوئي ہے۔ ہمارےاکثر ادارے بھي روزگار سپورٹ کے بجائے رقم اور اشياء بانٹ کر وقتي ضرورتيں پورا کرنے ميں توانائياں صرف کرتے ہيں۔ نيشنل انسٹي ٹيوٹ آف رورل ڈولپمنٹ اينڈ پنچايت راج کي ايک رپورٹ ( امپاورشڈ بيگري ان انڈيا۔ مرتبہ کيلاش سرپ، مني کندن، پي پي ساہو ) کے مطابق مسلمان خيرات کے معاملہ ميں ديگر کميونٹيز کے مقابل زيادہ فراخ دل ہوتے ہيں۔ اس وجہ سے کچھ مانگنے والے زيادہ جمع کرنے کے ليے برقع کا استعمال بھي کرتے ہيں۔ (it was observed that some women beggars used to wear burqa in order to hide their personal identity and to earn more income as Muslims are relatively liberal in charity)۔۔ ہميں اس اندھي سخاوت کو منظم سخاوت ميں بدلنے کي سخت ضرورت ہے۔
حکومتوں کي لاپروائي
بنيادي طور پر يہ مسئلہ حکومتوں کا ہے کہ وہ بے گھر لوگوں کو آسرا اور غذا فراہم کرے۔ ليکن يہاں بے حسي عياں ہے۔ حکومتيں مسائل کو حل کرنے کے بجائے ديواروں کے پيچھے چھپانے کي سعي کرتي ہيں۔ بيروني مہمانان کي آمد پر سلمس کو ديواروں سے چھپانے کي کوشش کامن ويلتھ گيمس کے موقع پر دہلي کے گداگروں کي ميرٹھ منتقلي اسي سعي کا حصہ ہيں۔ بازآبادکاري کے پروگرامس،پينشن اسکيميں، بے گھر لوگوں کے بچوں کي تعليم کے پروگرامس وغيرہ حکومتوں کے منصوبوں کا حصہ ہوتے ہيں ليکن ترجيحات کا نہيں۔ حکومتيں منصوبے بنا کر شاباشي وصول کرتي ہيں اور انہيں فٹ پاتھ پر عوامي خيرات کے بھروسے چھوڑ ديتي ہيں۔ بيگر فري سٹيز کا خوب چرچا ہوتا ہے ليکن گداگري ميں کہيں کوئي فرق نظر نہيں آتا۔ شہر اندور اس کي مثال ہے۔
جہالت
جہالت اس مرض کا بڑا سبب ہے۔ کئي سوشل سرويز کے مطابق گداگروں کي اکثريت جاہل ہے۔ بے گھر خانہ بدوش زندگي اور شعور کي کمي کے سبب ان کے بچے بھي جاہل ہي رہ جاتے ہيں، يوں يہ سلسلہ نسل در نسل جاري رہتا ہے۔
مافيا
يہ بات اکثر کہي جاتي رہي ہے کہ گداگروں کي ايک تعداد بڑے مافيا کا حصہ ہوتي ہے جو اغوا، تشدد اور چائلڈ ٹريفکنگ جيسي انسانيت سوز حرکتوں کے ذريعے اپنا کاروبار چلاتے ہيں۔ گداگروں کي بڑي تعداد کا ايک ہاتھ يا ايک پير کٹا ہونا ( بالخصوص ممبئي ميں ) اس شک کو تقويت فراہم کرتا ہے۔ اگر يہ سچ ہے تو رياستي راجدھانيوں ميں ايسے مافيا کا کھلے عام ’’ کاروبار ‘‘ تعجب خيز ہے۔ ليکن حکومتيں اس بات کا انکار کرتي ہيں۔ تين سال قبل حکومت دہلي نے بھي اپني تحقيقات کے بعد يہ کہا تھا کہ ايسے کسي مافيا کا کوئي وجود نہيں۔ (8)
حالات کي مار
ايسا نہيں ہے کہ ہر گداگر لازماً کام چور ہو۔ بلکہ انکي ايک بڑي تعداد حالات کي ماري بھي ہوتي ہے۔ قدرتي آفات کا شکار، قحط کے مسائل سے دوچار، بے روزگاري سے پريشان، وبائي ايام کي آزمائشوں ميں گھرے، قرض کے دباو سے ٹوٹ جانے والے کسان، سياسي ظلم و ستم کا شکار، اسپتالوں ميں ديواليہ ہوجانے والے لوگ، ضعيف اور بيمار وغيرہ بھي گداگري کا سہارا لينے پر مجبور ہوجاتے ہيں۔ ليکن يہ کيفيت سبھي رياستوں ميں يکساں نہيں۔ مثلاً اس حوالے سے دو اسٹڈيز دو مختلف تصويريں شمال اور جنوب سے پيش کرتي ہيں۔ علي گڑھ مسلم يونيورسٹي کي ايک اسٹڈي (SOCIO-ECONOMIC CAUSES OF BEGGING) کے مطابق اترپرديش ميں گداگري کا سب سے اہم سبب بدترين غربت ہے۔ تقريباً 45 فيصد گداگر بدترين غربت کے مارے بھيک مانگنے پر مجبور ہيں۔ جب کہ افرو ايشين جرنل آف سوشل سائنس ميں شائع ہونے والي ايک اور اسٹڈي (Begging And Its Mosaic Dimensions۔ C. Subba Reddy) کے مطابق ساحلي آندھر پرديش کے گداگروں کي بڑي تعداد غربت کي ماري نہيں ہے يہاں 74 فيصد گداگر زمين ( کھيت، پلاٹ يا مکان ) کے مالک ہيں۔ صرف 25 في صد بھکاريوں کے پاس اپنا مکان نہيں۔ بقيہ تمام بھکاري اپنا مکان رکھتے ہيں۔ ان کي نصف تعداد کنکريٹ ( سليب ) مکانوں کي مالک ہے۔
اثرات
بظاہر گداگروں کي يہ فوج اپنے ’’ پيشے‘‘ اور کمائي سے مطمئن نظر آتي ہے ليکن کئي اسٹڈيز يہ بتلاتي ہيں کہ جہالت کے مارے يہ لوگ ہمہ اقسام کي نفسياتي اور جسماني بيماريوں کا شکار رہتے ہيں جن کا انہيں علم نہيں ہوتا۔ انٹرنيشنل جرنل آف رہيبليٹائزيشن کے حوالے سے کاونٹر کرنٹ ( 13 فروري 2019) ميں شائع ايک رپورٹ کے مطابق 39في صد گدا گر نفسياتي مريض ہوتے ہيں۔ 74 فيصد نشے کے عادي ہوتے ہيں۔ 4 فيصدلوگوں ميں خودکشي کے رجحانات پائے جاتے ہيں۔ ايک مہذب سماج ميں آبادي کے ايک حصے کا اتني کثير تعداد ميں نفسياتي بيماريوں کا شکار ہونا، پورے سماج کے ليے خطرناک ہوتا ہے۔
(1جہاں گداگروں کي کثرت ہو ايسي آباديوں سے لوگ کتراتے ہيں۔ طبقاتي تقسيم کي شکار سوسائٹي کے مزيد بکھرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ذات اور مذہب کي بنياد پر آبادياں تقسيم ہوچکي ہيں ليکن تجارتي اور سماجي لين دين کے حوالے سے لوگوں کي آمد ورفت ہوتي ہے۔ ليکن پيشہ ور بھکاريوں کي فوج اس بچے کھچے تانے بانے کو ادھيڑنے کا سبب ہوسکتي ہے۔ لوگ ان مارکيٹس کا رخ کرنےسے بھي کتراتے ہيں جہاں انہيں پيہم اس آزمائش سے گذرنا پڑے۔
(2انٹرنيشنل جرنل آف مينيجمنٹ اينڈ سوشل سائنس کي مذکورہ تحقيق کے مطابق 75 في صد بھکاري دوسرے بھکاريوں کي کمائي سے متاثر ہوکر اس گروہ ميں شامل ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ يہ ايک متعدي سماجي بيماري ہے جسے پھيلنے وقت نہيں لگتا۔ پيشہ ور بھکاري بھيک کے پورے کلچر کو ايک جگہ سے دوسري جگہ ٹرانسفر کرتے ہيں۔ لکشديپ کے سماج نے اس وائرس کو قدم رکھنے نہ ديا اور يہ وبا وہاں پھيل نہ سکي۔ ليکن جہاں اس وائرس کو کنٹرول نہيں کيا گيا وہاں افلاس کا در کھل جاتا ہے۔ اور عام محنت کش کے ليے يہ عيب نہيں رہتا۔ ۔ لا يفتح عبد باب مسئلة للناس الا فتح الله عليه باب فقر ( جس نے بھيک کا راستہ اختيار کيا اللہ اس کے ليے غريبي اور افلاس کا در کھول ديتا ہے۔ مسند احمد، ترمذي )
(3اسي مرض کي زيادہ سنگين شکل جھاڑ پھونک اور باباوں کا کاروبار ہے۔ يہ ان منتخب شہروں ميں پنپتا ہے جہاں سازگار ماحول، جہالت اور سادہ لوحي معقول مقدار ميں ہو۔ علامہ قرضاوي نے ’’گداگروں کے ہتھکنڈے‘‘ موضوع کے تحت اس مرض کا ذکر اور اس کي سنگيني بہت سخت الفاظ ميں بيان کي۔ سيدھے سادھے لوگوں کو جھانسہ دينے والے قرار دے کر ان کي حرکتوں کو گداگري کا ہتھکنڈہ قرار ديا۔ ( اسلام ميں غريبي کا علاج : علامہ يوسف القرضاوي)
حل :
1)غير انساني رويہ سے پرہيز:
پہلي بات يہ ہے کہ حکومت اور سماج ان طبقات کے تئيں انساني خيرخواہي پر مبني دوستانہ رويہ اپنائے۔ عام طور پر حکومت کا رويہ جان چھڑانے کا ہوتا ہے۔ ان کي پہچان ملک کي بدنامي، ٹريفک ميں دخل اندازي، فٹ پاتھ کے قابضين، گندگي، لڑائي جھگڑے وغيرہ سے منسوب ہوگئي ہے۔ نتيجتاً ان کے تئيں انتظاميہ اور عوام کا رويہ بھي بيزارگي سے بھرا ہوتا ہے۔ اور بالعموم مسئلہ کا حل ڈھونڈنے کے بجائے کيمپوں ميں بند کرنا، يا دوسرے شہروں کي طرف دھکيل کر جان چھڑانا ترجيح ٹھہرتي ہے۔ حکومت بنيادي انساني سہولتيں انہيں لازماً پہنچائے۔ بيشتر گداگر راشن کارڈ، بي پي ايل کارڈ، آدھار سے محروم ہيں۔ يوں معمولي روزگار کے دروازے بھي ان کے ليے بند ہوجاتے ہيں۔ کئي چھوٹے کسان بھي مجبوراً مانگنے پر مجبور ہورہے ہيں۔ حکومت بڑے ارب پتيوں کے دباو پر نت نئے قوانين لاکر ان کسانوں کي زندگي اجيرن نہ کرے۔ دولت کي تقسيم کو منصفانہ بنائے۔ منريگا، آواس يوجنائيں، اور بزرگ پينشن اسکيميں عملاً نافذ ہوں۔
2)بازآبادکاري پروگرام :
سيلف ہيلپ گروپس کے ذريعے بازآبادکاري پروگرام ہو۔ شيلٹرس، اور بند کمروں ميں ٹھونسنا حل نہيں۔ يہ لوگ کھلي سڑکوں پر رہنے کے عادي ہوتے ہيں۔ انہيں شيلٹرس ميں بند کرنا ممکن نہيں۔ نوبيل لاريٹ محمد يونس نے سيلف ہيلپ اسکيم کے تحت ايک لاکھ گداگروں کو باعزت روزگار سے جوڑ ديا تھا۔ جنھوں نے کامياب تجارے کے ذريعے سو فيصد رقم بھي لوٹادي۔
3)تعليم :
پوور اکنامکس ميں ’’ٹاپ آف دي کلاس‘‘ عنوان کے تحت مصنفين نے ايک سوشل ايکسپيريمنٹ کا ذکر کيا کہ کسطرح پندرہ ہزارغريب بچے 1991 ميں ايتھوپيا سے اسرائيل آئے۔ يہ وہ غريب ترين افريقي بچے تھے جنکے والدين کم و بيش ناخواندہ تھے ( جنھيں صرف ايک يا دو سال اسکول جانے کا موقع مل سکا تھا (۔ ليکن نئي سرزمين ميں ان بچوں کو معاشرے کے مين اسٹريم اداروں ميں داخلہ دلوايا گيا اور آج 30 سال بعد ان تمام قابل بچوں نے مختلف ميدانوں ميں خود کو قيمتي اثاثہ ثابت کرديا۔ مصنفين کا کہنا ہے کہ بدترين غربت اوربچپن کي ابتدائي محروميوں کے باوجود اگراس ماحول سے نکال کر عمدہ تعليم دلائي جائے تو پسماندہ ترين طبقات کا مستقبل بدل سکتا ہے۔
4)منظم خيرات :
سب سے اہم بات يہ ہے کہ ہميں اجتماعي سطح پر غيرمنظم خيرات کو منظم سخاوت ميں بدلنے کي سخت ضرورت ہے۔ اند ھا دھند بٹوارے کے بجائے کسي مرکزي سسٹم کے تحت مستحقين تک رسائي کا نظم ہو۔ اس سسٹم کي برکت يہ بھي ہے کہ نہ مستحق کي غيرت مجروح ہوتي ہےاور نہ کسي تونگر کا نفس موٹا ہوسکتا ہے۔ ابھيجت اور ايستھر نے مذکورہ کتاب( پوور اکنامکس) ميں ايک کيس اسٹڈي پيش کي۔ جس ميں دو مناظر بيان کيے گئے۔ پہلا منظر بھوک سے متاثر ايک بچي سے متعلق ہے جسے غذا، پاني کي سخت ضرورت ہے دوسر ا منظر نامہ ايک بڑے علاقے کا ہے جہاں لاکھوں لوگ متاثر ہيں۔ اس کيس اسٹڈي کا حاصل يہ ہے کہ اکثريت اس بچي کي مدد کے ليے آگے آئي۔ نتيجہ ( لب لباب ) يہ نکلا کہ:
a. عوام سماج کے معاشي مسائل کي جڑوں کو سمجھنے سے قاصر ہيں۔ بس شاخوں کي مصنوعي ہريالي انہيں متاثر کرتي ہے۔
b. متعينہ متاثر (identifiable victim) کي مدد کو ہي اصل مدد سمجھا جاتا ہے۔ بڑے سماج کي ترقي ميں چھوٹا گراں قدر تعاون انہيں اپيل نہيں کرتا۔
c. بڑے پرابلمس ديکھ کر حوصلہ کھو بيٹھتے ہيں۔ چھوٹي انفردي خيرات سے زيادہ تسلي سميٹنا انہيں بھلا لگتا ہے۔
5)مساجد کوآرڈنيشن :
اجتماعي نظم مساجد کے پاکيزہ اور معتبر نيٹ ورک کے ذريعے بھي انجام پاسکتا ہے۔ اس نظم کےتحت ہرشخص کسي ايک مسجد کا باضابطہ مصلي قرار پائے۔ نماز کے ليے تمام مساجد کے در حسب معمول کھلے رہيں ليکن مصلي اور مسجد کي ميپنگ سسٹم کے تحت ہر فرد کي باضابطہ ( رجسٹرڈ) وابستگي کسي ايک مسجد سے رہے۔ کسي بھکاري کو سر عام مانگنے سے روکنے کا ايک طريقہ يہ ہوسکتا ہے کہ پيشہ ور بھکاريوں کو خيرات دينے کي پريکٹس باضا بطہ اجتماعي اعلان کے ساتھ بند ہو اور مساجد ميں ڈونيشن باکس کے ذريعے خيرات کا اجتماعي کلکشن ہو۔ ہر ہفتہ محلے کے معتبر لوگ انہيں کھول کر اسي محلے کے تصديق شدہ (رجسٹرڈ) مستحقين تک پہنچاديں۔ اس نظم کا ايک مجوزہ فنکشنل خاکہ موجود ہے۔ نظم شروع ہوجائے تو ابتداً کچھ کم زورياں سامنے آسکتي ہيں جو وقت کےساتھ ساتھ سدھر سکتي ہيں۔
6)ڈيجيٹل سخاوت :
يہ بات شائدآج مضحکہ خيز محسوس ہو، ليکن اندھا دھند اور غير منظم بانٹ سدھارنے کا ايک ذريعہ ڈيجيٹل خيرات بھي ہوسکتي ہے۔ جو کروڑہا روپيوں پر مشتمل اس مد کو بہترکنٹرول اور ريگوليٹ کرسکتي ہے۔ آسان ڈيجيٹل سلوشن يہ ہوسکتا ہے کہ مانگنے والے کشکول اور کٹوروں سے آزاد رہيں نہ ہي کسي اليکٹرانک آلے کي انہيں ضرورت ہو۔ بس بينک اکاونٹ سے لنک ايک کيو آر کوڈ ساتھ رکھيں۔ دينے والا جب بھي کيو آر اسکين کرے تو سب سے پہلے اس کے اسکرين پر جلي حرفوں ميں وصول کرنے والے کي اس دن کي کمائي جھلک جائے۔ اس بنياد پر وہ فوري فيصلہ کرے کہ واقعتا کچھ دينا ضروري ہے يا نہيں ؟
7)رقم دينے سے پرہيز :
عام طور پر ہمارے جذبات اس بات کي اجازت نہيں ديتے کہ ہم ہاتھ پھيلانے والے کو نہ ديں، يا کسي دينے والے کو منع کريں يہ بات بظاہر سخت محسوس ہو، ليکن اس مرض کا ايک علاج يہ بھي ہے کہ سرعام مانگنے والوں کو نقد رقم کي خيرات دينے سے مکمل پرہيز کيا جائے۔ ضروري اشيا ( غذا، دوائياں وغيرہ ) راست دي جائيں۔ حيدرآباد ميں اظہر مقصوصي اور شجاعت اللہ خان کي تنظيميں غذا کي فراہمي کا بہت اچھا کام کررہي ہيں۔ بہتر ہے کہ جو لوگ بھوکوں کو کھانا کھلانا چاہتے ہيں وہ بھکاريوں کو رقم دينے کے بجائے ايسي تنظيموں کا تعاون کريں نقد رقم کي امداد محنت کش لوگوں کو دي جائے۔ ممکن ہو تو انہيں اصل قيمت سے زيادہ ديا جائے۔ تاکہ کام چور لوگ محنت کي ترغيب پائيں۔ بدقسمتي سے اس وقت ہمارا اجتماعي معاملہ الٹا ہے۔ پيشہ ور بھکاريوں کے تئيں ہمارا سماج فراخ دل ہے ليکن محنت کشوں کااستحصال عام ہے۔
8)عطيات کا متوازن استعمال :
قبر پر کتني چڑھتي رہيں چادريں
کتنے لاشے پڑے رہ گئے بے کفن
مرحوم عامر عثماني کا يہ درد حقيقت کا عکاس ہے۔ جس سماج ميں بھکاريوں کا تناسب آبادي کي شرح سے 11 في صد زائد ہو۔ نامعلوم حقيقي مسکينوں کي تعداد جمع کرليں تو شائد يہ فيصد کہيں زيادہ ہوجائے، وہاں تعميرات اور اينٹيريرس پر کروڑوں کا اصراف بڑي بےحسي محسوس ہوتا ہے۔ ضروري اور بنيادي تعميرات سے انکار نہيں، ليکن مختصر عرصے ميں عمارتوں کي دوبارہ، سہ بارہ تجديد، مسالک کي سربلندي کے ليے قريب قريب تعميرات اور آرائش و سجاوٹ ميں مقابلہ يہ کيسے اس قوم کا مزاج ہوسکتا ہے جس کي غيرت جگانے کے ليے 25 فيصد بھکاريوں کي فوج قدم قدم پر سرراہ جھنجھوڑرہي ہو۔
(1)Empowerment of Begger Population: Press Information Bureau Government of India, Ministry of Social Justice & Empowerment
(2)https: //www.azadindia.org/social-issues/beggary-in-india.html1
(3)Choosing Begging over Paid Labour | SABINA YASMIN RAHMAN | The India Forum
(4)Begging in India: Barricading the Sustainable Financial Development۔۔ IRA-International Journal of Management & Social Sciences ISSN 2455-2267; Vol.03, Issue 03 (2016
(5)Rs 180 crore- that is the annual earning of beggars in India – TwoCircles.net،
(6)http: //help-hand-for-poor.blogspot.com/2012/05/beggers-in-india_25.html
(7)Gates, Buffett in India to persuade rich to give to charity | By Alistair Scrutton, C.J. Kuncheria | Reuters
(8)The mafia of middle-class convenience | The Hindu Business Line | Mar 10, 2018
(9)Anti-Begging Legislation : from Responsibility to Repression
***

 

***

 ہمارے سماج میں مساکین اور مستحقین کی ایک کثیر تعداد یقیناً ان غیور افراد پر مشتمل ہے جن کی عزت نفس دست سوال دراز کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور نہ ہی ہمارے پاس ان تک رسائی کا کوئی مضبوط اجتماعی میکانزم ہے۔ سرعام مانگنے والوں میں یقیناً کچھ لوگ مستحقین میں شمار ہوسکتے ہیں۔ لیکن کئی تجزیات اور مشاہدات اس بات کے گواہ ہیں کہ کھلے عام مانگنے والوں کی اکثریت پیشہ ور بھکاریوں یا کام چوروں پر مشتمل ہوتی ہے جو معاشی ہمدردی کے مستحق نہیں ہوسکتے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 جون تا 11 جون  2022