کوویڈ۔19 کی معیشت پر کاری ضرب

کیا سعودى اور امارات ،مصرى ڈکٹیٹر شپ کو حمایت جارى رکھیں گے ؟

ابوعمار چودھرى ، نئى دلى

کورونا وائرس کى وجہ سے پوری دنیا پریشان ہے اور اب تک تقریبا دو سو ممالک کو اس وبا نے اپنى گرفت میں لے رکھا ہے جس کى وجہ سے پورى دنیا معاشى طور پر بھی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ بعض ممالک کے تو معاشی دیوالیہ کى وجہ سماجى وسیاسى تانے بانے بھی بکھرنے کے قریب ہیں۔ عرب ممالک میں جن ملکوں کى مالى حالت بہت زیاده خستہ ہوئى ہے ان میں سعودى عرب اور متحده عرب امارات نمایاں ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ وه دو ممالک ہیں جو مصر کى پہلى منتخب جمہورى حکومت کو اکھاڑ پھینکنے اور جنرل السیسى کى کٹھ پتلى حکومت کو استحکام بخشنے میں پیش پیش رہے ہیں۔
سعودى عرب اور یو اے اى کے اس معاشى بحران کا سبب صرف لاک ڈاؤن نہیں ہے بلکہ جہاں تک سعودی عرب کا سوال ہے تو یہ دنیا کا سب بڑا تیل کا برآمد کنندہ ہے، اس کى معیشت کا سب سے زیادہ تقریباً نوّے فیصد انحصار تیل کے کنؤوں پر ہے، اس وقت کچے تیل کى قیمت میں سب سے زیاده گراوٹ آئی ہے۔ (Fitch Ratings) فچ ریٹنگس جو کہ تمام ممالک کى معاشى صورت حال کا جائزه لے کر ممالک کى معاشی درجہ بندى کرتى ہے اس نے اپنے 14 اپریل 2020 کے تجزیہ میں لکھا ہے کہ سعودى عرب کو اپنے بجٹ کو خسارے سے بچانے کے لیے ضرورى ہے کہ تیل کى قیمتیں کم ازکم اکیانوے ڈالر فى بیرل تک پہنچیں لیکن بدقسمتی سے 28 اپریل کو کچے تیل کى قیمت گر کر انیس ڈالر فی بیرل ہوگئى، اگر یہى صورت حال زیاده دنوں تک باقى رہى تو سعودى عرب کو تقریباً 80 فیصد نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اسى خدشے کے پیش نظر سعودى عرب نے پہلے ہى اپنے اس سال کے بجٹ میں تقریبا تیره ارب ڈالر کى کٹوتى کر دى ہے اور سعودى وزیر خزانہ نے کچھ مزید سخت اور تکلیف ده احکام کا مژده سنایا ہے۔ آئى ایم ایف نے پہلے ہى سعودى عرب کو خبر دار کر دیا ہے کہ وه اپنے تیل کے ذرائع پہ زیاده انحصار نہ کر کے دوسرے ذرائع تلاش کرے ورنہ 2035 تک سعودى خزانہ بالکل خالى ہوسکتا ہے۔
یو اے اى جس نے سعودى عرب کے بر خلاف آمدنى کے دیگر ذرائع تلاش کر کے تیل پر انحصار کو تدریجاً کم کیا ہے لیکن صرف اپریل میں ہى اس کو سات ارب ڈالر کا قرض لینا پڑا، لاک ڈاؤن کى وجہ سے جہاں ایک طرف تیل کى طلب میں بھارى کمى واقع ہوئى ہے وہیں دوسرى طرف سیاحت کو بھی ناقابل تلافى نقصان پہونچا ہے جس پر امارات کا تیل کے بعد زیاده انحصار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ چار ماه میں یو اے اى کا تقریباً باون ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
جنرل السیسى کے زمانے میں ان دونوں ممالک نے مصر کى دل کھول کر مدد کى تھی اور مصری ڈکٹیٹر کے پیر جمانے میں سعودى اور یو اے اى نے انتہائی فیاضی کے ساتھ اپنے خزانوں کے دہانے کھولے تھے جس پر جنرل السیسى ان کا احسان مند بھی ہے اور گاہے بگاہے اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ مصر میں سرمایہ کارى کرنے کے معاملے میں سعودى عرب پہلے نمبر پر ہے اور مجموعى طور پر 54 ارب ڈالر کى سرمایہ کارى کى ہے جس میں سے 44 ارب ڈالر تو صرف پرائیویٹ سیکٹر میں سرمایہ کارى کى گئى ہے اور 5392 کمپنیوں میں سعودى عرب نے براه راست سرمایہ لگایا ہے۔
یو اے اى کى مصر میں سرمایہ کارى سعودى عرب کے مقابلے میں کم ہے لیکن پھر بھی 1114 کمپنیوں کے ذریعے 7 ارب ڈالر سے زیاده کى سرمایہ کارى کى ہے اور سالانہ 6 ارب ڈالر کے قریب تجارتى لین دین ہوتا ہے۔
تجارت وسرمایہ کارى کے علاوه جنرل السیسى نے ان دونوں ممالک سے مدد کے نام پر 50 ارب ڈالر سے زائد حاصل کیے اور اس کے ذریعے مصر پر اپنى گرفت مضبوط کى، سرمایہ کارى اور براه راست امداد کے علاوه سعودى عرب اور امارات مصرى فوج کى براه راست امداد میں بھی پیچھے نہیں رہے، روس سے مصر کے لیے مگ 29 ڈیل میں بنیادى کردار انہی کا ہے۔ یو اے اى نے بحر متوسط پر واقع شہر حمام میں محمد نجیب فوجى اڈے کو قائم کرنے میں بھر پور تعاون کیا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ فوجى اڈه محمد بن زاید ہی کا مرہونِ منت ہے۔ اس فوجى اڈے کے افتتاح کے موقع پر جنرل السیسى اور محمد بن زاید کے پہلو میں براجمان لیبیا باغى رہنما جنرل حفتر کى موجودگى اس بات کا واضح اشاره تھی کہ اس فوجى اڈے کا استعمال لیبیا میں قائم اسلامی حکومت کے خلاف شورش کے طور پر ہوگا، نتیجہ آج ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اسى طرح بحر احمر پر واقع شہر اسوان کے جنوب میں واقع فوجى اڈے ’’برینس‘‘ کى تعمیر میں ریاض اور ابو ظبى کے ساتھ ساتھ تل ابیب کا تکنیکى سپورٹ بھی مصر کو حاصل رہا ہے۔ اس فوجى اڈے کى تعمیر میں اس وقت اور تیزى آئى جب ترکى کے تعاون سے جنرل عمر البشیر نے سوڈان کے شہر سواکن میں ایک فوجى اڈے کى تعمیر کى ابتداء کی۔ ریاض، ابوظبى اور قاہره اس وقت مشرق وسطى میں اسٹریٹجک حلیف ہیں۔ زیاده تر امور پران تینوں ممالک کا موقف ایک ہوتا ہے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں یہ ٹولہ پیش پیش ہے، صدى کى ڈیل ان کے خوابوں کى تعبیر ہے، گزشتہ تین سالوں سے قطر کى ناکہ بندى انہیں کى مرہون منت ہے، یمن میں حوثى باغیوں سے یہى نبرد آزما ہیں گرچہ اندرون میں ہر ایک کے الگ الگ ایجنڈے ہیں۔ یمن میں مصر کى شمولیت پچھ لگو کى ہے جو صرف اس امید پر قائم ہے کہ کم از کم اسى بہانے دود ھارى گائے سے دودھ کى سپلائى جارى رہے گى۔ یمن میں اگرچہ یہ تینوں ساتھ ساتھ ہیں مگر دیگر ایشوز پڑ بڑے گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً سعودى عرب کو مصر کى روس سے قربت ایک آنکھ نہیں بھاتی کیونکہ روس ایران کا سب سے بڑا حلیف ہے۔ اسى طرح لیبیا میں امارات ومصر خلیفہ حفتر کى تائید میں بہت آگے ہیں تو سعودى عرب کو لیبیا میں دخل اندازى پسند نہیں اور سعودى عرب یہ سمجھتا ہے کہ اس سے معاملہ اور پیچیده ہوگا۔ سعودى عرب مصر سے اس لیے زیاده ناراض ہے کى یمن کى جنگ میں اسے قاہره سے بڑے کردار کى توقع تھی جسے قاہره نے ادا نہیں کیا اور صرف تعلقات کى بقاء میں بہت محدود پیمانے پر شرکت کى۔ سعودى عرب یہ سمجھتا ہے کہ مصر کى فعال شرکت نہ ہونے کى وجہ سے یمن میں وه جنگ نہیں جیت سکا ہے۔
اس پس منظر میں ایسا نہیں لگتا کہ کورونا وائرس، لاک ڈاؤن اور تیل کى قیمتوں میں کمى اس مثلث (ریاض، ابوظبى، قاہره) کے تعلقات میں کسى سرد مہرى یا انقطاع کا سبب بنیں گے کیوں کہ ریاض اور ابوظبى کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ مصر میں ان کا عمل دخل کم ہو جب کہ امارات کے ولى عہد محمد بن زاید یہ سمجھتے ہیں کہ مصر میں جنرل السیسى کا اقتدار اسى وقت تک ہے جب تک اس کے سر پر ابو ظبى کا ہاتھ ہے، دوسرى طرف مصر کا محل وقوع بر اعظم افریقہ میں ایک بہت ہى اہم خطے میں ہے بلکہ مصر کو براعظم افریقہ کا گیٹ/ دروازہ کہا جاسکتا ہے۔ نہر سویز ہى ایک راستہ ہے جس کے ذریعے تیل کى سپلائى بآسانى ہو سکتى ہے اس لیے مصر سے تعلقات کى بقاء ان دونوں خلیجى ممالک کى مجبورى ہے۔ سب سے بڑا خوف جو محمد بن سلمان اور محمد بن زاید کو ہے وہ یہ کہ اگر جنرل السیسى کا اقتدار مصر میں ختم ہوا تو اخوان المسلمون کے لوگ دوباره برسر اقتدار آجائیں گے جن کے اقتدار کا خاتمہ سیسى نے بڑى مشکل سے کیا ہے اور بہتر انداز میں ان کے اثرات کو زائل کر رہا ہے۔ ان کو یہ بھی یقین ہے کہ مصر میں اخوان کى جڑیں بڑى گہرى ہیں ان کى کسى وقت بھی واپسى ہو سکتى ہے لہذا اخوان کو روکنے کے لیے جنرل السیسى کى حمایت ناگزیر ہے۔ تیل کى قیمتوں میں بے تحاشہ کمى نے ریاض اور ابو ظبى کے حکم رانوں کے کان کھڑے کر دیے ہیں ایسے میں انہیں مستقبل میں دوسرے ذرائع تلاش کرنا پڑیں گے اور دس کروڑ سے زائد آبادى والے مصر کى مارکیٹ ان کے لیے بہت بڑا سہارا بن سکتى ہے، طویل المیعاد منصوبہ بندى کے پیش نظر مصر سے نبھا کر رکھنا بہت ضرورى ہے۔ ایسے میں لگتا یہى ہے کہ تعلقات میں یہ زیر وبم آتے رہیں گے اور باہمى مصالح کے پیش نظر یہ مثلث اپنے اتحاد کو باقى رکھنے کى بھر پور کوشش کرے گا۔
[email protected]