مقبول احمد سراج، بنگلور 8884401081
ہم ایک غیر یقینی دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ایک ایسے لاک ڈاون نے جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ہمیں اپنے گھروں میں مقفل کر ڈالا ہے۔ مگر سوشیل میڈیا کی غیر معمولی رسائی نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ سماج کے ہر فرد تک اس عالمی ٹریجڈی سے متعلق خبریں، پیغامات، تصاویر، آوازیں اور احساسات مسلسل پہنچتے رہیں۔ یہ موجودہ بحران کا وہ پہلو ہے جو اس کے پیشرووں میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ہمارا سامنا ایک ایسی ہولناک عفریت سے ہے جس کی پکڑ سے کوئی محفوظ نہیں۔ اس کے خلاف جنگ میں کسی قسم کی رُو ورعایت کی گنجائش نہیں۔ مگر ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ حالات کی سنگینی کا احساس سماج کے کئی طبقات میں اس تناسب سے نہیں پایا جاتا جس کا وہ متقاضی ہے۔ کرناٹک اور تلنگانہ میں کووڈ-19 سے ہونے والی اب تک کی تمام اموات مسلمانوں میں ہوئی ہیں۔ وائرل ویڈیوز سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس نے کئی مساجد میں نمازیوں کو زد وکوب بھی کیا ہے حالانکہ مذہبی رہنماوں نے نماز باجماعت سے احتراز کرنے حتیٰ کہ جمعہ کی نماز کو بھی منسوخ کرنے کے اعلانات کیے ہیں۔ پھر دہلی میں تبلیغی مرکز کی ناعاقبت اندیشی سے وباء کو ملی تقویت کی خبروں نے میڈیا کے ایک سیکشن کو طعنہ زنی کا ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے۔ اگر میڈیا میں رپورٹنگ کا یہی رجحان رہا تو خدشہ ہے کہ نظم ونسق کے ذمہ دار ایک مخصوص طبقے کو ہی لاک ڈاون کے مؤثر نفاذ میں رخنہ انداز ہونے کے لیے مطعون نہ کرنے لگیں۔
متعدی امراض مختلف مذاہب کے پیرو کاروں کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ جراثیم یکساں طور پر مہلک ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے پچھلے چند ہفتوں میں حرم مکہ، تروپتی کے بالاجی مندر اور اٹلی میں واقع ویٹیکن میں بھی مذہبی رسوم کی ادائیگی کے منسوخ ہونے کی خبریں سنی ہیں۔ یہ بیماریاں غریب اور امیر اور بارسوخ اور بے رسوخ کے درمیان تمیز نہیں کرتیں اس نے اسپین کی شہزادی کو بھی نہیں بخشا برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن ہالی ووڈ کا مشہور جوڑا (ٹام ہنیکس) کینڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو کی اہلیہ اور ان سب سے بالاتر برطانیہ کے پرنس چارلس بھی اس کی کمند سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔
اگر کرونا وائرس کسی عالمی لابی کی تخلیق ہی ہے تو اس کا انسداد چائے خانوں میں گفتگو سے یقیناً نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے تدارک کے لیے تجربہ کار محققین کی ٹیم کی ضرورت ہوگی اور ایسے علاج برسوں کی عرق ریزی کے بعد ہی مستند اداروں سے نکل کر سامنے آتے ہیں
اس کی ہلاکت خیزیوں سے کسی آب وہوا کے خطے کو مستثنیٰ نہیں دیکھا گیا۔ کچھ لوگ اس واہمہ میں مبتلا ہیں کہ ہندوستان کا درجہ حرارت اس کا قلع قمع کر دے گا۔ مگر ذرا ہلاکتوں کے اسکور پر نظر ڈالیں۔ روس میں جو انتہائی سرد ملک ہے 25 مارچ تک 563 افراد Positive قرار دیے جا چکے ہیں۔ کناڈا جو قطب شمالی سے قربت کی بناء پر انتہائی سرد گردانا جاتا ہے اس ملک میں بھی 4689 افراد Positive قرار دیے جاچکے ہیں اور 53 ہلاک۔ ان کے برخلاف سنگاپور حد رجہ گرم خطوں میں آتا ہے وہاں بھی 25 مارچ تک 683 افراد کو یہ مرض لاحق ہوچکا تھا۔
مگر کچھ انتہاپسندانہ روش کے حامل افراد اس معاملے میں مذہبی رسوم یا عبادات کی یوں تعبیر کرتے ہیں گویا مذاہب ان معاملات میں کسی رعایت کے متحمل نہیں۔ اس معاملے وہ زمین وآسمان کے قلابے ملانے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ کچھ ویڈیوز میں اس عفریت نما مرض کو اسرائیل ویہودیوں کی سازش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی دلیل کے طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اس مرض کا خاص ہدف ایران اور چین ہیں۔ اس کے بعد اس تعبیر کے لیے راہ آسان ہوجاتی ہے کہ چونکہ ایران امریکہ کا واحد حریف ملک ہے اور چین عالمی طاقت کے توازن کو امریکہ سے ہٹا کر اپنی جانب جھکانے پر تُلا ہے اس لیے ان دونوں کو کووڈ-19 نے خاص نشانہ بنایا ہے۔ اس بحث میں یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسرائیل اور ترکی کووڈ-19 کے غضب سے محفوظ رہے ہیں۔ یہ وہ واہمے ہیں جو بآسانی بُنے جا سکتے ہیں اور عامیانہ فہم رکھنے والوں کے دل میں بآسانی اتر بھی جاتے ہیں۔ لیکن کووڈ-19 کی تباہ کاریوں سے یہ دو ممالک بھی محفوظ نہیں۔ مارچ 26 تک کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ترکی میں کووڈ-19، 59؍افراد کو لقمۂ تر بناچکا ہے جبکہ 2433؍افراد Positive قرار دیے جاچکے ہیں۔ مارچ 28 تک اسرائیل میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 12 تھی اور مرض میں گرفتار افراد 3460۔ لہٰذا یہ امر اپنی جگہ مسلم ہے کہ کووڈ-19 کو عالمی طاقتوں، ان کے اتحادیوں اور حریف ممالک سے جوڑنا خام خیالی ہوگی۔
ان واہموں کو بساکر اس مرض اور سرکاری تحدیدات کے تئیں اپنی ترجیحات متعین کرنا موجودہ صورتحال میں دانشمندی نہیں کہی جا سکتی۔ وبائیں اور متعدی امراض کا انسداد حکومتوں کی ذمہ داریاں ہوا کرتی ہیں، حکومتیں اس معاملے میں عوامی حمل ونقل پر تحدیدات لاگو کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ سردی، کھانسی، زکام، بخار، انفرادی امراض ہیں۔ مگر چیچک، طاعون، ہیضہ، نپاح (Nipah)، Ebola, HINI متعدی امراض ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔ گھر سے باہر کھڑے ایک فرد کی ناک کی نوک سے پرے آنے والا تمام علاقہ Public Space ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کے کاندھوں پر ہے۔ کووڈ-19 یا کسی اور وباء جیسی صورتحال میں حکومت کو یہ لازمی طور پر ملحوظ رکھنا ہوتا ہے کہ فرد کی وہ کونسی آزادیاں ہیں جو Public Space کو معرضِ خطر میں ڈال سکتی ہیں۔ لہٰذا وہ شخصی آزادیوں پر تحدیدات عائد کرسکتی ہے۔ البتہ اسے ماہرین کے مشورے لینے ہوتے ہیں، ان تحدیدات کی پابندی ہر فرقہ اور طبقہ پر لازم ہے۔
بعض ممالک سے ایسی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں جو ان متعدی امراض کو بایولوجیکل اسلحہ، کچھ مخصوص طبقات کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات یا پھر امریکہ کے مدمقابل قوت کو زیر رکھنے کی تدابیر سے تعبیر کرتی ہیں۔ عالمی پیمانے پر طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے یا بگاڑنے کی تدابیر سے انکار نہیں۔ مگر ان کے تدارک کے لیے مختلف اقوام تھنک ٹینک اور تحقیقی ادارے بناتے ہیں اور ان میں عالمی معیشت ومعاشرت، مذاہب اور اکنامی پر گہری نظر رکھنے والے، زبان وبیان کی قدرت رکھنے والے اور عالمی امور پر غور وفکر کرنے والے ہمہ دم تحقیق وجستجو میں لگے رہتے ہیں۔ اگر کرونا وائرس کسی عالمی لابی کی تخلیق ہی ہے تو اس کا انسداد چائے خانوں میں گفتگو سے یقیناً نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے تدارک کے لیے تجربہ کار محققین کی ٹیم کی ضرورت ہوگی اور ایسے علاج برسوں کی عرق ریزی کے بعد ہی مستند اداروں سے نکل کر سامنے آتے ہیں۔
ایک دوسری سطح پر کچھ ایسے لوگوں کی ٹیم اس جد وجہد میں مصروف نظر آتی ہے جو قدیم مذہبی کتب سے کچھ نسخے نکال لاتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی مخصوص مذہب میں نہیں بلکہ ہر مذاہب میں نظر آتے ہیں۔ ہر شخص کو مذہب وعقیدے کی آزادی کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی خاص نسخے پر یقین رکھے اور اس پر عمل بھی کرے۔ یہ بھی درست ہے کہ مخصوص غذائیں، جڑی بوٹیاں اور ان سے بنے عرق اور گولیاں انسانی جسم کی امراض سے لڑنے کی قوت میں اضافہ کرتے ہیں، مگر ان علاجوں کی اس طرح تشہیر کرنا کہ یہ ہر زمانے میں ہرمرض کی مکمل شفاء وعلاج ثابت ہوں گی یہ عقل کو اندھے اعتقادات کے پاس رہن رکھنے کے مماثل ہوگا۔ ہر متعدی مرض اور ہر نئی وباء کرۂ ارض پر مسلسل ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی پیداوار ہے۔ ان سب کا محض ایک جڑی بوٹی، مسالے یا بیجوں میں علاج تلاش کرنا مناسب نہیں۔ دل ودماغ کو مسلسل کھلا رکھنا اور امراض، ادویہ اور علاج کو تحقیق کی میزان پر جانچنا ہی مسئلہ کا صحیح حل ہے۔ ان تمام تدابیر کے باوجود انسانوں کو بارگاہ الٰہی میں دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر شفاء طلب کرنا چاہیے۔